عید کی مبارکباد سے متعلق ایک پوسٹ پرنیشنل فلم ایوارڈسے سرفراز گلوکار شان کو ان کے لباس کی وجہ سےنفرت انگیز تبصرے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جواب میں شان نے کہا ہے کہ سب پیار سے رہیں اور اس طرح کی پولرائزڈ سوچ نہ رکھیں کیونکہ اس سے صرف نقصان ہو سکتا ہے۔ اس سوچ کو بدلنا چاہیے اور زیادہ انکلوسیوہونا چاہیے۔
نئی دہلی: سنیچر (22 اپریل) کو عید کے موقع پر شان کے نام سے معروف نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ گلوکار شانتنو مکھرجی نے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کرکے عید کی مبارکباد دی تھی۔ اس تصویر میں انہوں نے ٹوپی پہن رکھی تھی، جو عام طور پر مسلم کمیونٹی کے لوگ پہنتے ہیں۔ شان اس تصویر میں دعا مانگتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اس پوسٹ کے بعد ان کو شدید طور پر تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ کمنٹ باکس میں لوگوں نے انہیں یہ کہتے ہوئے ٹرول کیا کہ وہ ہندو ہیں اور انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پوسٹ پر ٹرولنگ اس قدر بڑھ گئی کہ انہیں اس پوسٹ پر کمنٹ کا آپشن بند کرنا پڑا۔
اس سے قبل انہوں نے ایک کمنٹ میں ٹرولرز کو جواب بھی لکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ‘آج عید ہے… میں نے تین سال پہلے ایک ویڈیو کیا تھا، اس میں یہ لُک تھا۔ تو سوچا کہ یہ اس موقع کے ساتھ جاتا ہے… بس اتنی سی بات تھی۔ اب میں آپ سب کا ردعمل دیکھ کر حیران ہوں۔ میں ہندو ہوں، برہمن ہوں، مجھے بچپن سےیہی سکھایا گیا کہ ایک دوسرے کے تہوار منانا، ہر قوم کی عزت کرنا، یہی میری سوچ ہے اور یہی سوچ ہر ہندوستانی کو رکھنی چاہیے۔ باقی آپ کی سوچ آپ کومبارک ہو۔
تاہم، بعد میں سنیچر کو ہی انہوں نے تقریباً چھ منٹ کا ایک ویڈیو پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک ترقی پسند ملک ہے اور ایسی سوچ کو یہاں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں،آج عید ہے۔ آج پرشورام جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ آج اکشے ترتیہ ہے۔ ہم یہ تمام تہوار ایک ساتھ منا رہے ہیں۔ میں نے ابھی ابھی آپ سب کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے ایک پوسٹ کیا، جس میں میں نے ایک اسنیپ شاٹ لیاتھا۔ میں نے آج سے تین سال پہلے ایک ویڈیو کیا تھا، ‘کرم کر دے‘ گاناکافی اچھا چلا۔وہاں ایسالُک تھا،جہاں میں ٹوپی پہن کر نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس کا فریز فریم کرکے میں نے عید کی مبارکباد دی۔
انہوں نے بتایا کہ پوسٹ کرنے کے بعد ان کی فلائٹ تھی، جس سے وہ منگلور پہنچے۔ پہلےانہوں نے پوسٹ کے جواب میں آنے والے نفرت انگیز کمنٹس کو نظر انداز کیا، لیکن جب بات حد سے نکل گئی تو انہوں نے جواب دینا ہی درست سمجھا۔
وہ مزید کہتے ہیں،’اس طرح کے کئی کمنٹس آئے کہ تم ہندو ہو،تمہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں چند ماہ قبل گولڈن ٹیمپل گیا تھا۔ وہاں مندر کے سامنے سر ڈھانپنا ہوتا ہے۔ میں نے وہاں بھی تصویریں کھینچیں۔ لیکن تب اس طرح کا ردعمل نہیں آیا… کہ ہندو ہوتے ہوئے آپ نے سکھوں کی طرح فوٹو کیوں لیا یا یہ پوز کیوں دیا؟ جیسے رام نوامی یا ہمارے جو بھی ہندو تہوار ہوتے ہیں، تو ہم اس میں تھوڑا سا روایتی ہندوستانی لباس پہنتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فوٹو ڈالتے ہیں تاکہ اس کی ایک فیل آئے۔ بس اتنی سی بات تھی…’
ان کا مزید کہنا ہے کہ اتنی سی بات پر لائیو آکر وضاحت پیش کرنے کی ضرورت تونہیں تھی، لیکن بات اس سے آگے کی ہے۔
شان نے آگے کہا، ‘… یہ کوئی وضاحت نہیں ہے، میں بات کو تھوڑا سا آگے لے کرجانا چاہتا ہوں۔ اگر ہم کسی کا لباس، کسی کی شکل اختیار کرتے ہیں، ان کوعزت دیتے ہوئے، اس موقع کو ، اس وقت کو، تو اس میں ایسی کون سی بات ہے کہ آپ کا دھرم بگڑ جائے گا؟ میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ ایسا سوچتے ہیں وہ اسے تھوڑا بدلیں۔
انہوں نے مزید کہا، ‘ہم ایک ترقی پسند ملک ہیں، ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ ہندوستانیوں کو پوری دنیا میں عزت مل رہی ہے، ہماری سوچ کے لیے… بہت سے شعبوں میں، لیکن اگر ہم میں اتنی سی عزت اور روداری نہ ہو تو ہم آگے کیسے بڑھیں گے؟ مطلب ہم پیچھے جا رہے ہیں، پرانی سوچ، فرسودہ خیالات! تو میں چاہتا ہوں کہ جو بھی اس طرح کی سوچ رکھ ر ہے ہیں، وہ تھوڑا سوچیں اس بارے میں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں؟ اس بھیڑچال میں کیسےآرہا ہوں؟
شان کا مزید کہنا ہے کہ ،’میں ایک برہمن ہوں، ہندو ہوں اور مجھے اپنے آپ پر فخر ہے۔ ساتھ ہی میں ایک ہندوستانی ہوں، ایک انسان ہوں اور یہ سب ہونے کے ناطے میں جانتا ہوں کہ کیسے ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، ہر تہوار کو مل جل کرمناناچاہیے۔
اپنی پرورش کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے شان کہتے ہیں کہ باندرہ میں جہاں وہ پلے بڑھے، وہ عیسائی اور مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور ان کے زیادہ تر دوست مسلمان ہیں اور انہوں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ وہ ان سےمختلف ہیں۔
وہ کہتے ہیں،’تو اب جب میں یہ سب دیکھ رہا ہوں، اتنے سالوں بعد تو مجھے برا لگ رہا ہے۔ اور ایسی سوچ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جو لوگ اس قسم کی سوچ رکھتے ہیں، میں ان کی سوچ نہیں بدل سکتا۔ لیکن میں اپنے خیالات کو ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں خود کو بدلنا پسند نہیں کروں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری سوچ درست ہے۔ سب کا احترام کرنا، ہر تہوار کو ایک ساتھ منانا، یہی ہندوستانی ہونے کی اصل پہچان ہے۔
بات ختم کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سب پیارمحبت سے رہیں، خوش رہیں، ایسی پولرائزڈ سوچ نہ رکھیں کیونکہ اس سے صرف نقصان ہی ہو سکتا ہے۔ آپ کوئی بھی ملک دیکھیں، جو مذہب کی بنیاد پر چلا ہے، اس نے ترقی نہیں کی۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، ہمیں اپنی سوچ بدلنی چاہیے، اور زیادہ انکلوسیوہونا چاہیے اور صرف ایک بہتر ملک ہی نہیں بلکہ ایک خوبصورت دنیا بنانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔