شیام بینگل کا ایک یادگاری لیکچر: سیکولرازم اور مقبول ہندوستانی سنیما

’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

Photo : The Hindu

Photo : The Hindu

اگر مقبول عام سنیما (پاپولر سنیما)نے آزمودہ فارمولوں کی بنیاد پر عمل کیا جن میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں نے شاذ و نادر ہی کسی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے (اگر کسی فلم میں ایک مسلمان کو ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تو صرف ایک مسلم معاشرے اور مسلم ماحول میں ایسا ہونا ممکن تھا)، تو ‘جدید سنیما’ کی یہ خصوصیت تھی کہ بازار کے دباؤ سے آزاد ہو کر اس نے بہت سے نازک سماجی موضوعات کو اختیار کیا۔1969ء میں ‘فلم انسٹی ٹیوٹ کے ایک گریجویٹ، منی کول نے اپنی فلم، اس کی روٹی، بنائی جس میں ایک سکھ نے مرکزی کردار ادا کیا جو بذات خود مقبول ہندی فلم کے بے شناخت ہندو ہیرو کے خلاف ایک سیاسی اعلان ثابت ہوا۔

فلم فائنینس کارپوریشن کے مالی تعاون سے بنائی گئی اہم ترین فلموں میں ایک ایم۔ ایس۔ ستھیو کی فلم ‘گرم ہوا’ (1973) تھی۔ یہ پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جیسا کہ اس سے پہلے میں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ‘گرم ہوا’ کے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن (علامت) کے طور پر پیش کیا جاتا تھا  اور اکثر ان میں کسی طرح کا عیب نہیں پایا جاتا تھا۔ اس طرح ان کو مؤثر انداز میں “غیر” بنا کر اپنے فرقے سے الگ حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا۔

عصمت چغتائی کے ایک مختصر افسانے کی بنیاد پر کیفی اعظمی کی تحریر کردہ فلم’ گرم ہوا’ میں شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم خاندان کی تکلیف دہ صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تقسم ملک کے وقت پیدا شدہ غیر معمولی حالات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اس خاندان کو یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا تھا کہ ایسی حالت میں اسے اپنے آبائی وطن آگرہ (ہندوستان) میں رہنا چاہیے یا ترک وطن کر کے پاکستان چلا جانا چاہیے۔

اس فلم کی کہانی میں ایک بڑے مشترکہ خاندان کی تقسیم کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس کے ممبر مختلف وجوہات کی بنا پر انفرادی طور سے پاکستان روانہ ہوجاتے ہیں مگر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے برخلاف، فلم کا ہیرو سلیم مرزا اس نئے مسلم ملک کو ہجرت کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اسے اس مقام سے یعنی آگرہ سے گہری انسیت ہے۔

یہ فلم اس بات کا سراغ لگاتی ہے کہ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کے خلاف شک اور عدم اعتماد کی فضا میں سلیم مرزا کی قوت برداشت جواب دے گئی اور آخرکار نوبت یہاں تک پہونچی کہ اس کو یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا پڑا کہ جو لوگ بھی خاندان کے بچ گئے ہیں ان کے ساتھ وہ بھی ترک وطن کر کے یہاں سے چلا جائے۔ بہر کیف، مظلوموں کی وفاداری کی تصدیق و توثیق کرنےوالے ایک کمیونسٹ جلوس سے متاثر ہو کر، فلم کے آخری مرحلے میں، مرزا اور اس کا چھوٹا بیٹا سکندر اپنی تمام مشقت اور پریشانی کے باوجود اپنا فیصلہ تبدیل کردیتے ہیں۔

اگرچہ اس کا اختتام انتہائی مثبت انداز میں سیکولر قوم پرستی کا عکاس ہے، تاہم ‘گرم ہوا’ تنہا ایسی فلم ہے جس نے مسلمانوں کی اس تکلیف دہ صورت حال کی تصویر کشی کی ہے جو انھیں تقسیم ہند کے نتیجے میں آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں پیش آئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم فرقے کے ایک طبقے کی جانب سے اس فلم کو بڑی پریشانی اٹھانی پڑی جنہوں نے گورنمنٹ سے اس فلم پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کردی۔ خود فلموں کو دکھانے کی اجازت دینے والے حضرات (سینسرز) کوئی فیصلہ نہ کرسکے لہٰذا فلم بننے کے برسوں بعد آخرکار اسے نمائش کے لیے جاری کیا گیا۔ اس فلم کو پورے ملک میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ ہی دیکھنے کا موقع  حاصل ہوسکا۔

اگر حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والی ایجنسیوں کا نظام ایک طرف ‘گرم ہوا’ جیسی فلموں کی تیاری میں مددگار ثابت ہوا تو میری رائے میں تاریخی صورت حال کا بھی ایسی فلم کے بننے میں اہم کردار رہا ہے۔ یہ بات غیر اہم نہیں ہے کہ ‘گرم ہوا’ 1971ء میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ آزادی کے بعد ابتدائی بیس سال تک مسلمانوں کے لیے ترک وطن اور ہجرت کا زمانہ تھا کیونکہ اس وقت بھی پاکستان ان کی توجہ کا مرکز تھا لیکن یہ رجحان اچانک بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد پورے طور پر غائب ہوگیا۔

اس کے علاوہ لسانی بنیاد پر مبنی۔ اس بار پاکستان کی۔ اس نئی تقسیم نے بھی ہندوستانی مسلمانوں کی الجھنوں کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد کی۔ ہندوستان کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری اب شکوک کے دائرے سے باہر اور قوم پرستی کی الجھن سے دور ہو سکی، لہذا اب ستھیو ایسے موضوع کا انتخاب کرسکتے تھے جسے اس وقت تک نظر انداز کیا جارہا تھا یا زیادہ تر معروف فلم ساز جس کا محض ایک ہلکا سا اشارہ دیتے تھے۔ کیونکہ 1971ء سے پہلے اس قسم کی فلم بنانا ناممکن تھا۔

garam-hawa-poster

‘جدید سنیما’کے اندر 70ء اور 80ء کے دہائی میں معاصر مسلم تجربے پر مبنی کہانیاں منظر عام پرآئیں۔ مظفر علی نے 1978ء میں ‘گمن’ اور 1986ء میں ‘انجمن’ نام کی فلمیں بنائیں۔ پہلی فلم ممبئی کے ایک مسلم ٹیکسی ڈرائیور کے متعلق ہے جبکہ دوسری فلم لکھنؤ میں ‘چکن’ کا کام کرنے والے مسلمانوں کی زندگی کی دستاویزی شہادت فراہم کرتی ہے۔ ستیہ جیت رے نے 1857ء کے واقعہ سے متعلق پریم چند کی کہانی پر مبنی فلم ‘شطرنج کے کھلاڑی’ 1977ء میں بنائی اور میں نے 1978ء میں ‘جنون’ نام کی فلم بنائی۔

جو اترپردیش کی ایک فوجی چھاؤنی والے چھوٹے سے شہر کے واقعات پر مبنی ہے جن کا تعلق ہندو، مسلم اینگلو انڈین اور برطانوی نژاد مختلف فرقوں کے تجربات سے ہے جو اس شورش کا شکار ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہی 1980ء میں سعید مرزا نے ممبئی میں مقیم گوا کے ایک کیتھولک عیسائی خاندان کے متعلق فلم ‘البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے؟’ اور ازاں بعد 1989ء میں ‘سلیم لنگڑے پر مت رو’ نام کی فلم بنائی جس کا تعلق مسلم جھگی جھونپڑی میں رہنے والے ایک نوجوان چور سے تھا۔

میں نے 1985ء میں ‘تریکال’ نام کی ایک فلم بنائی جو گوا کی آزادی کے وقت گوا کے ایک گاؤں میں مقیم ایک مراعات یافتہ کیتھولک عیسائی فیملی سے متعلق تھی۔ اس سے پہلے اقلیتی فرقوں کے امور سے متعلق مضامین کو نبھانے میں فلم سازوں کو جس کم ہمتی کا احساس ہوتا تھا اب اس کی جگہ نئے اعتماد اور حوصلے نے لے لی۔ اقلیتوں کی بے جان اور لاحاصل نمائندگی کی جگہ جو 1971ء سے پہلے ہندوستانی سنیما کا ایک خاصہ تھی، اب ان فلموں میں ایسے معمولی قسم کے لوگوں کو بھی پیش کیا جانے لگا جو جدید دنیا کےبدلتے ہوئے حالات اور زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔ میں نے اوپر جن فلموں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بہت سی فلموں کو بے حد عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور کچھ کو معقول طریقے سے باکس آفس پر کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

بہرحال پہلی فلم جس نے تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم اختلافات کے مسئلے کو پیش کیا وہ بھیشم ساہنی کے ناول ‘تمس’ پر مبنی ہے جسے گووند نہلانی نے 1987ء میں منی سیریز کی شکل میں بنایا تھا۔ اس سیریز کی خوش قسمتی تھی کہ اسے فلم سنسر بورڈ کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئی، چونکہ یہ ٹیلی ویژن کے لیے تیار کی گئی تھی، ورنہ سنسر اس بنیاد پر اس کے اوپر پابندی عائد کردیتا کہ اس میں دو فرقوں کے درمیان عداوت اور جنگ و جدال کو نمایاں کیا گیا ہے۔

جس وقت نیشنل ٹیلی ویژن چینل’دوردرشن’ اسے ٹیلی کاسٹ کرنے پر غور کر رہا تھا اس وقت آر۔ ایس۔ ایس اور اس کی دیگر ہمنوا جماعتوں نے اس کو دکھائے جانے کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ ممبئی میں واقع نہلانی کی قیام گاہ پر حملہ کیا گیا اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دئی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ‘دوردرشن’نے سیریز کو نہ دکھانے کا فیصلہ اس عذر کی بنا پر کیا کہ اس سے نقص امن کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے بھی ٹیلی ویژن اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی تھی۔

نہلانی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ‘سیریز’ کو ملاحظہ کرنے کے بعد بمبئی ہائی کورٹ نے دوردرشن کو اسے دکھلانے کی ہدایت دی، کیوں کہ اس فلم میں کوئی ایسی بات خلاف دستور نہیں تھی جس پر پابندی عائد کی جاتی، اس کے بعد ہی پوری فلم کو دوردرشن پر ایسے وقت دکھایا گیا جب بڑی تعداد میں ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔ تین شاموں تک دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا اور اس دوران کوئی (ناخوشگوار) واقعہ نہیں ہوا۔

1986ء میں جب راجیو گاندھی کی حکومت نے دستور ہند میں ترمیم کے ذریعہ شاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کردیا تو اس نے ملک کی سیکولر حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہونچایا۔ یہ ایک طرف ‘مسلم بنیاد پرستی’ کو سہولت و رعایت دینے کے مترادف تھا، دوسری طرف یہ اقدام مسلم خواتین کے حقوق پر زبردست حملہ تھا۔ مزید یہ کہ اس نے مسلم فرقے کے سیکولر طبقے کو مصالحت پر آمادہ کیا اور دائیں بازو کی ہندو سیاسی تنظیموں کو موقع فراہم کیا کہ وہ حکومت پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جانبداری و ہمدردی کا الزام عائد کریں۔

ایل۔ کے۔ اڈوانی نے اس وقت “سیڈو سیکولرازم”(نقلی سیکولرازم) کی اصطلاح ایجاد کی اور سیکولرسٹ طبقے پر (کسی حد تک معقولیت کے ساتھ) یہ الزام عائد کیا کہ ان کا رویہ تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ یکساں نہیں ہے۔ اس کےسیاسی نتائج بہت دوررس تھے۔ اس نے ‘رام جنم بھومی’ کے مسئلہ کو اجاگر کیا جس کے نتیجہ میں بابری مسجد کے انہدام کا حادثہ پیش آیا جس نے ایک بار پھر مسلم اور ہندو فرقوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا بیج ڈال دیا۔

‘شاہ بانو کیس’ کے اہم واقعے کے بعد 89-1988ء میں، میں نے ایک بڑی ٹیلی ویژن سیریز ‘بھارت ایک کھوج بنانا شروع کی جو جواہر لعل نہرو کی کتاب “ڈسکوری آف انڈیا” پر مبنی تھی۔ اس کتاب میں بہت سی خامیوں کے باوجود اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کی رنگا رنگ و متنوع خصوصیات کو نمایاں کیاجائے اور ملک کے لیے ایک سیکولر نظریے کی نشاندہی کی جائے۔ جب کہ رامائن اور مہابھارت کو پورے ہند میں ٹیلی ویژن پر دیکھنے والوں کی تعداد کے نقطہ نظر سے بلند ترین درجہ حاصل ہوا، ‘بھارت ایک کھوج’ اس مقابلے میں تیسرے نمبر پر رہی۔

دوبارہ ٹیلی کاسٹ کئے جانے پر اس کے دیکھنے والوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی کے دوران ہندوستان میں بی۔ جے۔ پی کے ظہور کے نتیجے میں “پاپلر سنیما” کے اندر نئی تبدیلیاں دیکھی جاسکتی تھیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے نتیجے میں پاکستان کی مخالفت کی بنیاد پر قائم جنگ جویانہ وطن پرستی ‘پاپولر ہندی سنیما” کا اہم مرکزی موضوع بن گیا۔ جیسا کہ اس کی توقع کی جاتی تھی نیشنلزم  اور اسی کے نتیجے میں سیکولرزم (سیکولرازم) کی تعریف کافی حد تک محدود کردی گئی اور صرف ہندو فرقے کے لیے اسے بالکل بلا شرکت غیرے مخصوص و محفوظ کر دیا گیا۔

مثال کے طور پر جے۔ پی۔ دتا کی فلم “بارڈر” 1997ء میں جو 1965ء کی ہند پاک جنگ کے ایک مورچہ کا حال بیان کرتی ہے، پاکستان (بمعنی مسلم) انتہا پسندی کے مقابلہ میں ہندوستانی (بمعنی ہندو) فیاضی پر خاصا زور ہے اور جس میں ‘پاکستانی’ اور ‘مسلم’ دونوں کو مترادف اور ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ جنگ جویانہ پالیسی کا مظاہرہ فلم ‘غدر’ (2001ء) میں کیا گیا ہے۔

یہ دونوں فلمیں باکس آفس پر ہٹ ہوئیں اور شمالی ہند کے صوبوں میں خاص طور سے کامیاب رہیں۔ بہرکیف اگر ایک جانب ‘ہندوتوا سیاست’ کے عروج نے مسلم مخالفت پر مبنی سلسلہ وار فلموں کی تخلیق کا راستہ ہموار کیا تو دوسری جانب ‘لگان’ جیسی بیحد کامیاب فلموں کے ابھرنے کا موقع بھی فراہم کیا جن میں ایک جامع سیکولر اتحاد کو نیشنلزم (قوم پرستی) کے ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی کے آخری دس سالوں میں ‘ممو’ (1995ء)، ‘نسیم’ (1995ء)، ‘فضا’ (2000ء) اور ‘بامبے’ جیسی فلمیں منظر عام پر آئیں جن میں ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کے مقام و مرتبے کی عکاسی کی گئی ہے۔

تین سال قبل گودھرا کے ہیبت ناک واقعہ کے بعد اور گجرات میں بے رحمانہ انتقامی قتل عام اور آتش زنی کے نتیجے میں جس میں صوبائی حکومت نے بھی بے عملی کے ذریعہ مدد پہونچائی تھی، ہندوستان ایک انتہائی نازک موڑ پر پہونچ گیا تھا۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ کیا ہندوستانی سیکولرزم ملک کو ایک ساتھ قائم رکھے گا یا ہندوتوا کے نظریے کے آگے ہتھیار ڈال دے گا جو خطرناک حد تک مملکت کی تقسیم کا باعث بنے گا؟

میرے نزدیک گزشتہ سال یو۔پی۔اے اتحاد کے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں تصویر کا رخ کئی حیثیتوں سے تبدیل ہو گیا ہے۔ اس سے قبل کہ اپنی بات ختم کروں، میں آپ کے سامنے ہارورڈ لاء اسکول کے پروفیسر لانی گینیر کی ایک عبارت نقل کرنا چاہتا ہوں: “سماج کی صحت کی جانچنے کا سبب سے بہترین پیمانہ یہ ہے کہ اس کی اقلیتوں کی حالت پر نظر ڈالی جائے۔

اقلیتیں، کوئلہ کان کنوں کے بلبل زرد (قینری) کی مانند ہیں۔ کوئلے کی کان میں زہریلی گیس کی اطلاع سب سے پہلے کینری پرندے کو ہی ہوتی ہے۔ اگر (سماج میں) اقلیتوں کی حالت غیر مامون ہےتو اجتماعی معاشرہ کو صحت مند نہیں تصور کیاجاسکتا۔”

‘مقبول سنیما’ میں اقلیتوں کی تصویر کشی سنیما کے تئیں عوامی رویے کا ایک اچھا پیمانہ ہے۔ اسے بآسانی ہندوستانی سماج میں کوئلہ کان کنوں کا وہ پرندہ تصور کیاجاسکتا ہے جس کو سب سے پہلے زہریلی گیس کی خبر ملتی ہے۔

(مضمون نگار معروف اور سینئر فلم ڈائریکٹر ہیں۔سرسید میموریل لیکچر 2005،سیکولرزم اور مقبول ہندوستانی سنیما ،مترجم محمد عبدالمنان سے ماخوز)

یہ مضمون19 نومبر2017 کو شائع کیا گیا تھا۔