مرحوم شجاعت بخاری کے فرزند تمہید شجاعت بخاری جو ابھی گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ آگے چل کر صحافت کی تعلیم حاصل کرکے اپنے والد کا پیشہ اختیار کریں گے۔
معروف کشمیری صحافی سید شجاعت بخاری کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال بیت گیا ہے۔ انہیں اور ان کے دو ذاتی محافظین کو نامعلوم اسلحہ برداروں نے 14 جون 2018 کو اُس وقت گولیاں مار کر ہلاک کیا جب وہ سری نگر کی پریس کالونی میں واقع اپنے دفتر کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر افطار کرنے کے لئے اپنے گھر روانہ ہونے والے تھے۔شجاعت بخاری تین دہائیوں تک صحافت کے ساتھ وابستہ رہے۔اپنے صحافتی کیریئر کے دوران متعدد مقامی، ملکی و غیرملکی میڈیا اداروں کے لئے کام کیا اور سنہ 2008میں’کشمیر میڈیا گروپ’ کے نام سے ایک صحافتی ادارہ قائم کیا اور اس کے بینر تلے انگریزی روزنامہ ‘رائزنگ کشمیر’، اردو روزنامہ ‘بلند کشمیر’، کشمیری روزنامہ ‘سنگر مال’ اور اردو ہفت روزہ ‘کشمیر پرچم’ کی اشاعت شروع کی۔
دی وائر نے سری نگر میں مرحوم شجاعت بخاری کے قائم کردہ ادارے ‘کشمیر میڈیا گروپ’سے وابستہ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کی اور جاننے کی کوشش کی کہ مرحوم کے اپنے ملازمین کے ساتھ کیسے تعلقات تھے، وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا سوچتے تھے اور وہ کیا کام تھے جو وہ اپنی باقی زندگی میں کرنا چاہتے تھے۔ بات چیت کے دوران جہاں ادارے سے وابستہ صحافیوں نے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا وہیں مرحوم شجاعت بخاری کے حوالے سے بعض ایسی باتیں سامنے آئیں جو شاید بیشتر لوگوں کو معلوم نہیں ہوں گی۔مرحوم کے فرزند تمہید شجاعت بخاری جو ابھی گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ آگے چل کر صحافت کی تعلیم حاصل کرکے اپنے والد کا پیشہ اختیار کریں گے۔
حکیم راشد مقبول، سینئر نیوز ایڈیٹر رائزنگ کشمیر
حکیم راشد مقبول مرحوم شجاعت بخاری کے قریبی ساتھیوں اور راز داروں میں شمار ہوتے تھے۔فن صحافت اور انگریزی و اردو زبانوں پر غیر معمولی عبور رکھنے والے راشد مقبول کو مرحوم شجاعت بخاری نے اردو ہفت روزہ ‘کشمیر پرچم’ کی ادارت کی ذمہ داری سونپی تھی۔ تاہم شجاعت بخاری کی رحلت کے بعد ‘کشمیر پرچم’ کی اشاعت بند ہونے کے بعد سے راشد مقبول رائزنگ کشمیر میں بحیثیت سینئر نیوز ایڈیٹر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ راشد مقبول نے کیا کچھ کہا ملا حظہ فرمائیں؛
شجاعت صاحب مجھ سے کہا کرتے تھے کہ کوئی انسان ایسا نہیں جس کی رحلت سے دنیا کا نظام رک جائے۔ ان کا کہنا بالکل بجا تھا۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ ہر ایک شخص اپنے اندر مخصوص انفرادیت اور خوبیاں رکھتا ہے۔ شجاعت صاحب غیرمعمولی انفرادیت اور خوبیوں کے مالک تھے۔ پریس کالونی یا صحافی برادری میں جب بھی کسی کو بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تھا تو شجاعت صاحب سپہ سالار کا کردار ادا کرتے تھے۔ وہ ایک تناور درخت کے مانند تھے جس کے سایے تلے سب بیٹھ جاتے تھے۔
جہاں تک شجاعت صاحب کے اپنے ادارے کی بات ہے تو وہ یقینی بناتے تھے کہ رپورٹر اور دیگر ملازمین ایماندار اور پروفیشنل ہوں۔ وہ کبھی بھی اپنے کسی رپورٹر یا ملازم کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔ مرحوم مقبول ساحل (کشمیر میڈیا گروپ سے وابستہ صحافی جن کا 20 مارچ 2018ء کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا) بار بار کہا کرتے تھے کہ ‘جب میں جیل گیا تو ماسوائے شجاعت بخاری کسی نے یہ جاننے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ میں کہاں اور کن حالات میں ہوں۔ وہ مجھ سے ملنے جموں جیل آئے، میری رہائی کے لئے میرے بھائی کے شانہ بشانہ چلے’۔ جب مرحوم ساحل صاحب جیل سے باہر آئے تو یہ شجاعت صاحب ہی تھے جنہوں نے انہیں ملازمت دی۔ شجاعت صاحب کے وعدے کے مطابق ادارے نے ساحل صاحب کے انتقال کے بعد بھی اُن کے کنبے کی مالی مدد جاری رکھی ہے۔ نیز مقبول ساحل کے فرزند جو ابھی طالب علم ہے کی صحافتی تربیت جاری ہے اور ادارہ اُن کی رپورٹیں بھی شائع کرتا ہے۔ شجاعت صاحب ساحل مقبول کی کنبے کی بازآبادکاری چاہتے تھے لیکن شاید اللہ کو یہی منظور تھا۔
شجاعت صاحب نے مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں پر اٹھایا تھا۔ دنیا کو بتانے کی کوششیں کی تھیں کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا۔ کشمیریوں کے درد کو بیان کیا تھا۔ وہ کسی کی طرفداری نہیں کرتے تھے۔ وہ عام کشمیری کی بات کرتے تھے۔ وہ اپنے اخباری کالموں اور عالمی فورموں پر اپنے لیکچرس میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے تھے۔ وہ اس مقام پر پہنچے تھے جہاں وہ مؤثر انداز میں کشمیریوں کی وکالت کرتے تھے۔ اس مقام تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ انہیں عالمی سطح کی مقبولیت مل چکی تھی۔ وہ اس مظلوم قوم کے نمائندے بن چکے تھے۔ اُن کی رحلت سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو جلد پُر نہیں ہوگا۔
وہ ابھرتے قلمکاروں کو پلیٹ فارم مہیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم صحافت کے اکثر طلباء رائزنگ کشمیر میں ہی انٹرن شپ کرتے تھے۔ رائزنگ کشمیر میں شجاعت صاحب کی سرپرستی میں انٹرن شپ کرنے والے طلباء آج ملکی و غیر ملکی سطح کے بڑے بڑے اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔
مرحوم شجاعت صاحب جموں وکشمیر میں پڑھی اور لکھی جانے والی سبھی زبانوں میں کامیاب اخبارات نکالنا چاہتے تھے۔ وہ ریاست میں میڈیا میں تنوع پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کے اور بھی منصوبے تھے، وہ ملٹی میڈیا پلیٹ فارم قائم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے رائزنگ کشمیر کے بعد بلند کشمیر شوق سے نکالا تھا۔ وہ دراصل ہر ایک زبان کے ساتھ لگاؤرکھتے تھے۔وہ انگریزی، اردو اور کشمیری میں لکھتے تھے۔شجاعت صاحب کی زندگی کے آخری ایام میں ہم نے دیکھا کہ وہ رائزنگ کشمیر سے زیادہ شوق کشمیر پرچم کی اشاعت میں رکھتے تھے۔ وہ معیاری شمارہ نکالنے کے لئے اپنے تمام وسائل استعمال میں لاتے تھے۔ وہ کشمیر پرچم کو برصغیر میں نکلنے والے ہفت روزہ جرائد کی صف میں لانا چاہتے تھے۔ کشمیر پرچم کے لئے پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے معروف قلم کار و صحافی لکھتے تھے۔
اُن کی رحلت کے بعد اشاعتی حقوق کی منتقلی اور کچھ مالی مسائل پیدا ہوئے جس کی وجہ سے کشمیر پرچم کی اشاعت عارضی طور پر بند کرنی پڑی۔ ہم نے اُن کی رحلت کے بعد کشمیر پرچم کے دو شمارے نکالے تاہم اس دوران بہت سے لوگوں نے مشوہ دیا کہ مرحوم شجاعت صاحب کے نام پر اشاعت جاری رکھنا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ قانونی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔آر این آئی اور دوسرے اداروں میں اشاعتی حقوق کی منتقلی میں قریب چھ ماہ کا عرصہ لگا۔ شجاعت صاحب اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے کشمیر پرچم نکالتے تھے۔ ان کا اس میں بہت ذاتی شوق شامل تھا۔ ہمیں امید ہے کہ کشمیر پرچم کی اشاعت بہت جلد بحال ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: ہم نے کئی بار ساتھ میں موت کو دھوکہ دیا ، مگر آخر میں وہ اکیلا چلا گیا…
فیصل یاسین، پولیٹیکل ایڈیٹر رائزنگ کشمیر
شجاعت صاحب نے جو ادارہ قائم کیا ہے وہ اپنے سفر پر گامزن ہے۔ رپورٹرس، ایڈیٹرس اور دیگر ملازمین کے کام کرنے کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہم نے اس دن بھی اخبار کی اشاعت جاری رکھی جس دن شجاعت صاحب کا قتل ہوا۔ انہیں ہم سے جدا ہوئے ایک برس بیت گیا ہے لیکن رائزنگ کشمیر، بلند کشمیر اور سنگرمال کی اشاعت اسی طرح جاری ہے جس طرح ان کی ادارت میں جاری تھی۔ تاہم ایک بات ہے کہ شجاعت صاحب ہمارے لئے ایک رہنما تھے اور ہم ان کی رہنمائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ خود 30 برس تک صحافی رہ چکے تھے۔ وہ ادارے کی ضروریات سے واقف تھے۔ انہیں بحیثیت ایک سینئر صحافی اس بات کا ادراک تھا کہ کس صحافی کی خدمات کس بیٹ کے لئے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
وہ صرف اپنے ملازمین کے دوست نہیں بلکہ عوام دوست بھی تھے۔ ہمارے دفتر پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا جو اپنے مسائل کے حل کے لئے ان سے ملتے تھے۔ شجاعت صاحب ملنے والوں کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ اُن کے تقریباً ہر شعبے میں اپنے دوست اور جاننے والے تھے اور وہ ان کی مدد سے لوگوں کے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ رہی بات ملازمین کی تو وہ اُن کے ملازمین کے ساتھ تعلقات ویسے ہی تھے جیسے دوستوں کے درمیان ہوتے ہیں۔
سجاد کرالیاری، سب ایڈیٹر رائزنگ کشمیر
شجاعت صاحب نے ادارے کو اس مقام پر پہنچایا تھا جہاں سے اسے بہ آسانی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس ادارے کو بنانے کے لئے کافی محنت کی تھی۔ انہوں نے ایک مضبوط بنیاد ڈالی ہے۔ ادارے کی تینوں اشاعتوں کو مارکیٹ میں کامیابی کے ساتھ متعارف کیا تھا۔ اگر وہ حیات ہوتے تو ادارے کو مزید فروغ مل سکتا تھا۔ وہ ایک بہترین سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے ایک استاد بھی تھے۔ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ لگاتار رابطے میں رہتے تھے۔ کوئی اسٹوری کرنے میں ان کی مدد درکار ہوتی تھی تو وہ اپنا مکمل تعاون دیتے تھے۔ بیشتر اوقات سول و پولیس انتظامیہ کے سینئر افسران اور وزراء کے نمبرات خود کنکٹ کرکے دیتے تھے۔ ادارے کے کام کاج سے متعلق ہر ایک بات اپنے ملازمین کے ساتھ شیئر کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی رحلت کے بعد بھی ادارہ اپنا سفر جاری رکھ پایا۔
شجاعت صاحب کی رحلت کے بعد سے اُن کی اہلیہ ادارے کی سرپرستی کررہی ہیں۔ وہ ادارے کے کام کاج اور ضرورتوں کو دیکھتی ہیں۔ نیز ادارے میں ہونے والی ہر ایک میٹنگ میں شرکت کرتی ہیں۔ شجاعت صاحب کے فرزند سید تمہید بخاری جو ابھی بہت چھوٹے ہیں، صحافت سے متعلق چیزیں سیکھ رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اگلے چند برس میں وہ بھی ادارے کی مینجمنٹ کو دیکھنا شروع کردیں۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادارہ اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے اور افرادی قوت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
عرفان ایتو، رپورٹر رائزنگ کشمیر
شجاعت صاحب کے انتقال سے چند روز قبل زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا نے نگین میں ایک افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا۔شجاعت صاحب اُس افطار پارٹی میں شرکت کے لئے مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔راستے میں، میں نے اُن سے کہا کہ موجودہ وقت ریاستی پولیس اہلکاروں کے لئے اچھا نہیں ہے لیکن آپ کے دو ذاتی محافظین خوش قسمت ہیں کیونکہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مجھے کہاں پتہ تھا کہ شجاعت صاحب کے ساتھ ساتھ وہ دو ذاتی محافظین بھی چند روز بعد اس دنیا میں نہیں رہیں گے۔ اُس افطار پارٹی میں شاہ فیصل بھی شریک تھے، افطار کا وقت آپہنچا تو دونوں ایک ساتھ کہیں کے لئے روانہ ہونے لگے۔ میں نے شجاعت صاحب سے کہا کہ میں کھانا کھاؤں گا، وہ اتنے انسان دوست تھے کہ انہوں نے میرے لئے اپنی گاڑی وہیں چھوڑی۔
وہ بہت ملازم دوست تھے۔ ہمیں کبھی تنخواہ نہیں مانگنی پڑتی تھی۔ وہ ہر ایک ملازم کی ضرورتوں سے باخبر تھے۔ گھر میں کوئی پریشانی ہوتی تھی تو وہ خود فون کرکے مدد کی پیشکش کرتے تھے۔ جیسے گھروں میں ماں اور باپ اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں ویسے ہی شجاعت صاحب اپنے ملازمین کا خیال رکھتے تھے۔میڈیا انڈسٹری کے زیادہ تر مالکان اپنے اور رپورٹرس کے درمیان فاصلہ بنائے رکھتے ہیں لیکن شجاعت صاحب کی بات ہی الگ تھی۔ وہ ہر ایک ٹیکسٹ میسج یا فون کال کا جواب دیتے تھے۔ ایک بار مجھے ضرورت پڑی تو میں نے رات کے قریب بارہ بجے انہیں وہاٹس ایپ میسج کیا تو آپ جان کر حیران ہوں گے کہ انہوں نے فوراً جواب دیا۔ شجاعت صاحب کے سوشل میڈیا پر بہت فالورس تھے۔ ہم جب کوئی ایکسکلوزیو یا خاص نیوز رپورٹ کرتے تھے تو ان سے کہتے تھے کہ چونکہ آپ کے سوشل میڈیا پر زیادہ فالورس ہیں تو آپ اس کو شیئر کریں۔ وہ شیئر کرنا نہیں بھولتے تھے۔ یہ میری بدقسمتی ہے کہ مجھے زیادہ وقت تک اُن کی سرپرستی میں کام نہیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔
شجاعت صاحب کبھی بھی کسی رپورٹر کے لئے ڈیڈلائن مقرر نہیں کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہر کوئی کام جلد بازی کے بجائے سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ وہ دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافت کے طلباء کو اپنے ادارے میں ترجیح دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ماننا تھا کہ دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو کسی بھی مقام تک پہنچنے کے لئے بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ان کی رحلت ادارے کے ہر ایک ملازم کا ذاتی نقصان تھا۔ جب انہیں قتل کیا گیا تو میں بارہمولہ میں اپنے گھر میں تھا۔ یہ خبر اس قدر بھیانک تھی کہ میں نے افطار کیا نہ عید منائی۔
وہیں مرحوم کے فرزند تمہید بخاری جو ابھی گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں، نے کہا کہ وہ آگے چل کر صحافت کی تعلیم حاصل کرکے اپنے والد کا پیشہ اختیار کریں گے۔ ان کا کہنا تھا؛
میں کبھی کبھی دفتر جاتا ہوں۔ میں نے ابھی کوئی دفتری ذمہ داری ہاتھ میں نہیں لی ہے۔ فی الوقت میں نے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول پر مرکوز رکھی ہے۔ میں انشاء اللہ آگے چل کر جرنلزم پڑھوں گا۔
(ظہور اکبرکشمیری صحافی ہیں۔)