فوج نے جموں وکشمیر کے شوپیاں علاقے میں گزشتہ18جولائی کو تین دہشت گردوں کے انکاؤنٹر میں مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب ڈی این اے ٹیسٹ سے راجوری کےمتاثرہ خاندانوں کے ان دعووں کی تصدیق ہو گئی ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ انکاؤنٹر میں مارے گئے لوگ دہشت گرد نہیں، بلکہ مزدور تھے۔
مبینہ شوپیاں انکاؤنٹر میں مارے گئے نوجوانوں کی مائیں(فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)
چنڈی گڑھ واقع سینٹرل فورینسک سائنس لیبارٹری کے ذریعے کیے گئےٹیسٹ میں تصدیق ہوئی ہے کہ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں18 جولائی کو فوج کے ذریعے مارے گئے دو نوجوان اور ایک نابالغ راجوری کے رہنے والے تھے۔بتا دیں کہ تینوں نوجوان کےاہل خانہ گزشتہ دو مہینے سے زیادہ سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ نوجوان دہشت گرد نہیں بلکہ راجوری کے رہنے والے تھے۔
گزشتہ18ستمبر کو
فوج نے قبول کیا تھا کہ اس نے جن تین نوجوانوں کو دہشت گردقرار دیتے ہوئے انکاؤنٹرمیں مار گرایا تھا وہ دراصل راجوری سے تھے۔اس دوران فوج نے یہ بھی قبول کیا تھا کہ اس آپریشن کے دوران آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ، 1990 کے تحت ملےاختیارات کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ فوج کی62ویں راشٹریہ رائفلس کے ذریعے مارے گئے ابرار احمد (25)،امتیاز احمد (22)اور محمد ابرار (16)تھے اور یہ سب راجوری کے باشندہ تھے۔کشمیر رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولیس وجئے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ‘ڈی این اے کے نمونوں کا ملان ہو گیا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ پولیس اب معاملے میں جانچ تیز کرےگی۔گزشتہ 18 جولائی کی صبح فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ شوپیاں کے امشی پورہ میں ایک باغ میں تین نامعلوم دہشت گردوں کو مار گرایا گیا ہے۔ حالانکہ ان کے
اہل خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں کا دہشت گردی سےکوئی تعلق نہیں تھا اور وہ شوپیاں میں مزدور کےطورپر کام کرنے گئے تھے۔
راجوری کے تین نوجوان مزدور جو جولائی میں شوپیاں میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
اس کے بعد 9 اگست کو تینوں نوجوان کے اہل خانہ نے راجوری ضلع کے پیری پولیس چوکی پر گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی، جس میں شکایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں سے رابطہ نہیں کر پائے، جو شوپیاں گئے تھے۔
ان دعووں کے بعد فوج اور جموں کشمیر پولیس نے اس معاملے میں الگ الگ جانچ کے احکامات صادر کیے تھے۔امشی پورہ جھڑپ میں مارے گئے تینوں نوجوانوں کے نمونوں کے ساتھ ملان کے لیے شوپیاں پولیس کی ایک ٹیم نے 13 اگست کو راجوری میں جاکراہل خانہ کے ڈی این اے نمونے لیے تھے۔
18 ستمبر کو فوج نےایک مختصربیان میں کہا کہ جانچ سے کچھ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہم کے دوران اے ایف ایس پی اے 1990 کے تحت دیے گئے اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا اور سپریم کورٹ سے منظورشدہ اورآرمی چیف کےوضع کردہ قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔
بیان میں کہا گیاتھا،‘جمع کیے گئے شواہد دکھاتے ہیں کہ امشی پورہ میں مارے گئے تین نامعلوم دہشت گرد امتیاز احمد، ابرار احمد اور محمد ابرار تھے، جو کہ راجوری کے رہنے والے تھے۔’اس بیچ نوجوانوں کے اہل خانہ نے دی وائر کو بتایا کہ وہ لاش کے لیے 28 ستمبر کو لیفٹیننٹ گورنر، جموں وکشمیر پولیس اور بارہمولہ ضلع انتظامیہ کو خط لکھیں گے۔
اس سلسلے میں متاثرین کی مدد کر رہے سماجی کارکن گفتار چودھری نے کہا، ‘ہم نے رسمی طور پرحکام سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ لاشوں کو ہمیں سونپنے میں تاخیرہوئی ہے۔’فی الحال، تینوں نوجوانوں کو بارہمولہ کے گنٹامولہ میں دفن کیا گیا ہے۔
ہتھیار کس نے رکھے تھے؟
پولیس کی جانب سےڈی این اے ٹیسٹ سے تینوں نوجوان کی پہچان کی تصدیق ہونے کی اطلاع دیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ سوال اٹھانے لگے کہ آخر وہ ہتھیار کس نے رکھے تھے، جنہیں فوج نے نوجوانوں کے پاس سے برآمد کیے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘18 جولائی کے انکاؤنٹر کے بعد ایک سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جائے وقوع سے ہتھیار اور گولا بارود برآمد کیا گیا ہے۔ تو آخر کس نے انہیں رکھا تھا؟’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تینوں نوجوان کی لاش نکال کر فوراً ان کے اہل خانہ کو سونپا جانا چاہیے تاکہ وہ راجوری ضلع میں اپنے گھر کے پاس صحیح طریقے سے ان کو دفن کر سکیں۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے مارچ 2000 میں اننت ناگ کے پتھری بل میں پانچ شہریوں کا قتل کرکے انہیں‘دہشت گرد’ قرار دے دیا گیا تھا۔ حالانکہ
جنوری 2014 میں فوج نے یہ کہتے ہوئے کیس بند کر دیا تھا کہ جن پانچ فوجی اہلکاروں پر جھڑپ کے الزام لگے ہیں، ان کے خلاف اتنے ثبوت نہیں ہیں کہ الزام طے ہو سکیں۔ آج 20
سال بعد بھی ان کے اہل خانہ انصاف کے انتظار میں دردر بھٹک رہے ہیں۔
وہیں، سال 2010 میں
ماچھل انکاؤنٹر بھی ایسا ہی ایک معاملہ تھا، جہاں تین شہریوں کوہلاک کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں نومبر، 2014 میں ایک فوجی عدالت نے ایک سی او سمیت پانچ لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور انہیں سبھی خدمات سےبرطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد مارچ، 2015 میں بھی ایک فوجی کو ایسی ہی سزا سنائی گئی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)