شیو سینا نے کہا کہ ،پلواما حملے سے پہلے مہنگائی ، بے روزگاری اور رافیل ڈیل اپوزیشن کے لیے اہم مدعے تھے ۔ ان مدعوں پر مودی سرکار کا’بم‘گر گیا ہے۔
ادھو ٹھاکرے، فوٹو : پی ٹی آئی
نئی دہلی: شیو سینا نے کہا ہے کہ ہندوستانی شہریوں کو پاکستان میں جیش محمد کے ٹھکانوں پر ہوئے ہوائی حملے میں مارے گئے لوگوں کے بارے جاننے کا حق ہے، اور اس طرح کی جانکاری عام کرنے سے فوج کا حوصلہ کم نہیں ہوگا۔ شیو سینا نے اپنے اتحادی پارٹی بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارٹی کے ترجمان میگزین روز نامہ سامنا کے اداریہ میں کہا ہے کہ ہوائی حملے بر بحث آئندہ لوک سبھا انتخاب تک جاری رہے گی ۔
اداریہ میں شیو سینا نے مزید کہا کہ 14 فروری کو پلواما حملے سے قبل اپوزیشن کے ذریعے اٹھائے گئے اہم مدعے اب ٹھنڈے بستے میں چلے گئے ہیں۔شیو سینا نے کہا کہ ، ملک کے شہریوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ہماری فوج نے دشمن کو کتنا اور کس طرح کا نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ پوچھنے سے ہماری فوج کا حوصلہ پست ہوجائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ ایئر اسٹرائک کو لے کر حکومت نے اب تک کوئی سرکاری اعداد وشمار جاری نہیں کیے ہیں ۔ شیو سینا نے پوچھا ہے کہ ، پلواما میں استعمال کیا گیا 300 کیلو گرام آر ڈی ایکس کہاں سے آیا؟ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے میں کتنے دہشت گرد مارے گئے ؟ ان باتوں پر بحث انتخاب کے آخری دنوں تک جاری رہے گی کیوں پلواما حملے سے پہلے مہنگائی ، بے روزگاری اور رافیل ڈیل اپوزیشن کے لیے اہم مدعے تھے ۔
شیو سینا نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ان مدعوں پر مودی سرکار کا بم گر گیا۔ شیو سینا نے مزید کہا کہ انڈین ایئر فورس کی کارروائی میں مارے گئے دہشت گردوں کے بارے میں نہ صرف اپوزیشن سوال اٹھا رہا ہے بلکہ امریکہ اور برٹن جیسے ممالک کے میڈیا بھی سوال قائم کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے بالاکوٹ اسٹرائک میں مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد کو لے کر کانگریسی رہنما نوجوت سنگھ سدھو نے
سوال اٹھایا تھا۔دراصل یہ معاملہ بی جے پی صدر امت شاہ کے اس بیان کے بعد زیادہ سرخیوں میں ہے،جس میں اتوار کو انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں انڈین ایئر فورس نے 250 دہشت گردوں کو مار گرایا۔ اس کے بعد نوجوت سنگھ سدھو نے کئی میڈیا رپورٹس کے اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے۔
مرکزی وزیر ایس ایس اہلووالیاکے بیان(‘ایئر اسٹرائک کا مقصد پیغام دینا تھا،مارنا نہیں’) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سدھو نے ٹوئٹ کیا ،’تو مقصد کیا تھا؟ کیا دہشت گردوں کو مارنے گئے تھے یا پیڑ اکھاڑنے؟کیا یہ انتخابی ہتھکنڈہ تھا؟غیر ملکی دشمن سے لڑنے کے نام پر ہمارے لوگوں سے دھوکہ ہوا ہے۔’اس کے علاوہ ایئر اسٹرائک میں مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد پر سدھو نے لکھا کہ’300دہشت گرد مارے گئے،ہاں یا نہیں؟ فوج پر سیاست بند کی جائے۔فوج اتنی ہی مقدس ہے جتنا ملک۔اونچی دکان پھیکا پکوان…’
وہیں سینئر کانگریسی رہنما
کپل سبل نے انٹرنیشنل میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ ، انٹرنیشنل میڈیا میں خبریں آرہی ہیں کہ اس حملے میں کوئی دہشت گرد ہلاک نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس پروزیر اعظم کو جواب دینا چاہیے ۔ میں وزیر اعظم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انٹرنیشنل میڈیا پاکستان کی حمایت کر رہا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جب انٹرنیشنل میڈیا پاکستان کے خلاف بات کرتا ہے تو آپ ٖفخر محسوس کرتے ہیں اور جب وہ سوال پوچھتے ہیں تب سوال پوچھنا پاکستان کی حمایت ہوگئی؟
اس سے قبل
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بالا کوٹ میں انڈین ایئر فورس کی ایئر اسٹرائک پر سوال اٹھائے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ، جوانوں کی زندگی انتخابی سیاست سے زیادہ قیمتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ملک کو یہ جاننے کا حق ہے کہ پاکستان کے بالا کوٹ میں انڈین ایئر فورس کے ہوائی حملے کے بعد حقیقت میں کیا ہوا؟
ممتا بنرجی نے
میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ، ہوائی حملے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ 300 سے 500 دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔ حالاں کہ میں واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمس میں ایسی خبریں پڑھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کوئی مارا نہیں گیا ۔ ایک اور غیر ملکی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں صرف ایک شخص کے زخمی ہونے کی بات کی ہے۔
مغربی بنگا ل کی وزیر اعلیٰ نے کہا ، اس ملک میں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بالا کوٹ میں کتنے دہشت گرد مارے گئے ؟ حقیقت میں بم کہاں گرایا گیا؟ کیا وہ نشانے پر گرا تھا ؟ ہمیں یہ جاننے کا حق ہے۔انہوں نے وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایئر اسٹرائک کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایک بھی آل پارٹی میٹنگ نہیں کی ، ہم اس آپریشن کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں ۔ یہ ہمارا حق ہے۔
غور طلب ہے کہ جموں و کشمیر کے پلواما میں 14 فروری کو پاکستان کی ایک دہشت گرد تنظیم کے خودکش حملے میں 40 سی آر پی ایف جوانوں کے شہید ہونے کے واقعہ کی کڑی مذمت کرتے ہوئے سدھو نے سوال کیا تھا کہ کیا کچھ لوگوں کی سرگرمیوں کے لئے پورے ملک کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کے اس تبصرہ کی کئی رہنماؤں نے تنقید کی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)