نومبر 2020 میں زی نیوز کی ایک نشریات میں شہلا رشید کے والد کا انٹرویو دکھایا گیا تھا، جس میں انہوں نے شہلا پر دہشت گردانہ فنڈنگ سے متعلق سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔ شہلا نے دہلی ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں مطالبہ کیا ہے کہ چینل ان سےغیرمشروط معافی مانگے۔
شہلا رشید، فوٹو: انسٹا گرام
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے شہلا رشید کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے زی نیوز سے جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ شہلا نے مطالبہ کیا ہے کہ نیوز چینل ان سے غیر مشروط معافی مانگے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، شہلا نے کہا کہ چینل کو ان کے وقار کو مجروح کرنے اور امیج کو خراب کرنے کے لیے اپنے پرائم ٹائم شو میں معافی نامہ نشر کرنا چاہیے۔
غور طلب ہے کہ مارچ میں
نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈ اتھارٹی (این بی ڈی ایس اے) نے پایا تھا کہ جے این یو کی سابق طالبہ شہلا کے خلاف 30 نومبر 2020 کو زی نیوز پر نشر ہونے والے پروگرام میں غیر جانبداری کا فقدان تھا اور پروگرام کے ذریعے صرف یکطرفہ اسٹوری پیش کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ، این بی ڈی ایس اے نے زی نیوز کی ویب سائٹ، ان کے یوٹیوب چینل اور دیگر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس پروگرام کے ویڈیوز ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔
اس شو میں شہلا کے والد کے ، جن سے ان کے تعلقات نہیں ہیں، ان کےساتھ ایک انٹرویو دکھایا گیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ سابق اسٹوڈنٹ لیڈر’ٹیرر فنڈنگ’ اور ‘غلط اور غیر قانونی سرگرمیوں’ میں ملوث تھیں۔ اس دوران پروگرام کے اینکر نے خود دعویٰ کیا تھاکہ شہلا ‘ٹیرر فنڈنگ جیسی ملک دشمن سرگرمیوں’ میں ملوث ہیں۔
شہلا رشید نے 30 نومبر 2020 کو رات 11 بجے کی اس نشریات کے خلاف این بی ڈی ایس اے میں شکایت درج کرائی تھی۔ اس نشریات میں شہلا کے والد کا انٹرویو دکھایا گیاتھا، جس میں انہوں نے شہلا، اس کی بہن اور ماں پر ملک مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے کےالزامات لگائے تھے۔
این بی ڈی ایس اےکےحکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پروگرام میں انٹرویودینے والے (شہلا کے والد) کے ذریعے شہلا پر لگائے گئے الزامات کو نشر کرتے ہوئے چینل نے صرف یکطرفہ موقف کو پیش کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ،براڈکاسٹر نے پروگرام ٹیلی کاسٹ کرنے سے پہلے شکایت گزار (شہلا) سے اس کاموقف جاننے کے لیے رابطہ نہیں کیا، بلکہ براڈکاسٹر نے ان الزامات کی تردید کا محض حوالہ دے کران کا رخ پیش کرنے سے گریز کیا۔ کسی بھی صورت میں سوشل میڈیا پوسٹ پر دستیاب شکایت کنندہ کا بیان ہدایات کی تعمیل کے لیے کافی نہیں ہے۔
تب این بی ڈی ایس اے کے صدر جسٹس (ریٹائرڈ) اے کے سیکری نے کہا تھا، شکایت گزار (شہلا) کے والد کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے پروگرام میں جے این یو سے متعلق مناظر سے کوئی تعلق نہیں ہیں۔ پروگرام سے ایسا لگ رہا تھا کہ شہلا ملک دشمن سرگرمیوں میں شامل رہی ہے۔
زی نیوز کو ایک وارننگ جاری کرتے ہوئےاس آرڈر میں کہا گیا،اتھارٹی کو لگتا ہے کہ اس طرح کے عمومی بیانات ضابطہ اخلاق اور نشریاتی معیارات اور رپورٹنگ میں انصاف کےرہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔ براڈکاسٹر کو مستقبل میں اپنی کسی بھی نشریات میں کوئی بھی الزام والے بیان نشر کرنے سے پہلے محتاط رہنا چاہیے۔
این بی ڈی ایس اے کے اس حکم پر ردعمل دیتے ہوئے شہلا رشید نے کہا تھا کہ چینل سے معافی مانگنے اور معاوضہ ادا نہ کرنے کو کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ، ملک میں اس وقت آزاد اداروں کی یہی حالت ہے جہاں ایکشن لینے کی وجوہات کے باوجود اتھارٹی زندگی اور کیریئر کو برباد کرنے والی زی نیوز جیسی ایجنسیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتی ہے ۔ سدھیر چودھری اور کمپنی! یہ لوگ زندگی، کیرئیر تباہ کر دیتے ہیں اور پھربے داغ بچ کرنکل جاتے ہیں۔
اس کے بعد شہلا نے عدالت کا رخ کیا تھا۔ انہوں نے عرضی میں کہا تھا کہ ان سے الگ رہ رہے والد کی طرف سے کچھ الزامات لگائے گئے تھے اور اسے مبینہ طور پر یک طرفہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا تھا جس سے ان کی امیج خراب ہوئی۔
عرضی میں انہوں نے نیوز چینل سے غیر مشروط معافی مانگنے کی ہدایت دینے کی گزارش کی تھی۔ جسٹس یشونت ورما نے این بی ڈی ایس اے، نیوز براڈکاسٹرس اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن (این بی ڈی اے)، زی نیوز اور اس کے اس وقت کے اینکر سدھیر چودھری کو نوٹس جاری کیا اور ان سے چھ ماہ کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔
عدالت معاملے کی آگے کی سماعت 23 فروری 2023 کو کرے گی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)