جموں و کشمیر پیپلس موومنٹ کی رہنما شہلا رشید نے گزشتہ مہینے کشمیر میں ہندوستانی فوج پر اذیت رسانی کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ کے ایک وکیل کی شکایت پر دہلی پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
شہلا رشید، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: دہلی پولیس نے مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد مبینہ طور پر کشمیر کی صورت حال کے بارے میں غلط جانکاری پھیلانے کے لئے جموں و کشمیر پیپلس موومنٹ کی رہنما شہلا رشید کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج کیا ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک وکیل آلوک شریواستو کی شکایت کی بنیاد پر تلک مارگ پولیس تھانہ میں شہلا رشید کے خلاف بدھ کو ایف آئی آر درج کی گئی۔
پولیس افسر نے بتایا،’آئی پی سی کی دفعہ 124اے (سیڈیشن)، 153اے (مذہب، نسل، جائے پیدائش، زبان کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو بڑھاوا دینے)، 153 (فساد بھڑکانے کے ارادے سے اکسانے) کے لئے ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
یہ معاملہ جانچ کے لئے اسپیشل سیل کو بھیج دیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ 18 اگست 2019 کو شہلا رشید نے سلسلہ وار کئی ٹوئٹ کرکے ہندوستانی فوج پر جموں و کشمیر میں لوگوں کو اٹھانے، ان کے گھر پر چھاپےماری کرنے اور لوگوں پر ظلم کرنے کا
الزام لگایا تھا۔رشید نے کہا تھا کہ حکمراں بی جے پی کا ایجنڈا حل کرنے کے لئے فوج کشمیر میں انسانی حقوق کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے مسلسل کئے گئے ٹوئٹس میں کہا تھا کہ کچھ علاقوں میں سکیورٹی اہلکار گھروں میں گھسکر توڑپھوڑ کر رہے ہیں، لڑکوں کو اٹھا رہے ہیں اور جان بوجھ کر گھروں کا راشن برباد کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ شوپیان میں چار لوگوں کو فوج کے کیمپ میں بلایا گیا اور پوچھ تاچھ کے نام پر ان پر ظلم و ستم کیا گیا۔ شہلا نے کہا کہ ان لوگوں کے پاس ایک مائیک رکھا گیا جس سے کہ پورا علاقہ ان کی چیخیں سنے اور ڈر جائے۔ اس سے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔شہلا کے ان الزامات کے بعد ہندوستانی فوج نے کہا تھا کہ یہ الزامات بےبنیاد ہیں۔ فوج کی طرف سے کہا گیا تھا،’شہلا رشید کے ذریعے لگائے گئے الزامات بےبنیاد ہیں اور ہم ان کو مسترد کرتے ہیں۔ ایسی غیر تصدیق شدہ اور فرضی خبریں سماج دشمن عناصر اور تنظیموں کے ذریعے عام لوگوں کو بھڑکانے کے لئے پھیلائی جاتی ہیں۔
اس بیچ شہلا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے لوگوں سے وادی کے حالات کے بارے میں لمبی بات چیت کی ہے اور جن واقعات کے بارے میں انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا ہے، اس کے بارے میں اگر فوج غیر جانبدارانہ تفتیش کرے، تو وہ ان سے جانکاری شیئر کرنے کو تیار ہیں۔غور طلب ہے کہ فوج یا حکومت کی طرف سے ان کے باقی ٹوئٹس کو لےکر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا تھا۔