بک ریویو: قمر صدیقی کا مجموعہ کلام مسلسل رابطہ کے محور پر گردش کرنے والی کائنات کے سلسلے میں پوری تخلیقی توانائی کے ساتھ باور کراتا ہے کہ اب تعلق نہیں بلکہ التباس تعلق ہی ہماری حسی کائنات کو منور کرتا ہے اور یہی اس عہد کا المیہ بھی ہے جس کا عرفان عام نہیں ہے۔
تنہائی اضطراب آگیں اور ہولناک انسانی تجربہ ہے یا پھر یہ الوہی تجربے میں سرگرم شرکت کے مصداق کہ خالق کائنات اصلاً ذات واحد ہے اور اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔ زمانہ قدیم سے شاعری مرور زمانہ کے باوجود اسی ایک اساسی موضوع کا مرتعش اور حساس رویا (وژن) جذبہ انگیز پیرایہ بیان میں پیش کرتی ہے۔
تنہائی، علاحدگی، بے گانگی، عدم تعلق اور انقطاع کی مختلف صورتیں شعری اظہار کے مسلسل ہدف کے طور پر صورت پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ گردوپیش کی دنیا سے مکمل لاتعلقی کو انسانی رزم گاہ کے جہنم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ کی مشہور طویل نظم The Love Song of J Alfred Prufrockکے راوی پروفروک کی تنہائی، احساس عدم تحفظ اور بے بسی قاری کو ایک ایسی کائنات سے متعارف کراتی ہے جہاں رمق حیات کا کوئی آثار موجود نہیں ہے۔ وہ اسی ہمہ گیر گہرے المیاتی احساس کا مسلسل اسیر رہتا ہے۔ یہاں تنہائی انسانی وجود کی بنیادی تمثیل بن کر ابھرتی ہے۔
انسانی سائیکی کے دانائے راز ایڈمنڈ فلر (Edmund Fuller, 1914-2001)کے مطابق جنگ، سزا، قحط سالی اور قدرتی تباہ کاری کے ہاتھوں انسان نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا ہے جتنا کہ بیگانگی، علاحدگی، عدم تعلق اور بے معنویت نے اسے حزن و حزیمت سے دوچار کیا ہے۔ تنہائی شاعری کا بنیادی مگر تضاد آگیں موتیف ہے۔
دوسروں سے الگ رہنے کا تجربہ انسان کو جمالیاتی اور تخلیقی سطح پر ثروت مند بھی بناتا ہے اور وہ عرصہ تنہائی کو زندگی اور موت کے گہرے رازوں کی تفتیش کا ذریعہ بناتا ہے، دوسری طرف محض اپنی ذات کے سائے میں زندگی کرنے کا جاں گسل تجربہ اسے آتش زیر پا رکھتا ہے۔ روحانی، اخلاقی اور مذہبی سروکاروں کی بجاآوری کے لئے دوسروں کی موجودگی ضروری ہے۔
”جدید معاشرے کا تنہا آدمی“ جدیدیت کا بنیادی شناس نامہ رہا ہے مگر مابعد جدید معاشرے نے، جس کی اساس نئی اطلاعاتی تکنالوجی پر قائم ہے، اس تصور کو یکسر شکست کر دیا۔ نئی اطلاعاتی تکنالوجی کے مقبول عام ذرائع، علی الخصوص فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کا بے محابہ اور مسلسل استعمال شخصی وارداتوں اور نجی تجربات کو اجتماعی تشہیر کی صورت میں منقلب کر رہا ہے۔ احمد مشتاق نے برسوں پہلے کہا تھا ؛
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
مگر اب صورت یہ ہے کہ بالمشافہ ملاقات کی حرارت سے محروم انسان گہرے روابط کا التباس قائم کرنے والے ذرائع سے گھرا ہوا ہے اور مسلسل تعلق اسے اور زیادہ تنہا کر رہا ہے اور اس کے ازالہ کے لیے پھر ان ذرائع پر مزید انحصار کرنے لگتا ہے۔
اس مابعد جدید صورت حال کو ہمارے عہد کے ایک طرحدار نوجوان شاعر قمر صدیقی نے اپنے تخلیقی ارتکاز کا محور بنایا ہے اور التباس آمیز مسلسل تعلق کے سحر میں گرفتار انسان کی حسی کائنات کو ایک منفرد محاورۂ بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کا مجموعہ کلام ”شب آویز“ اس اجمال کی تفصیل پر گواہ ہے۔
قمر صدیقی نے اپنی شاعری کو تنہائی کی لذت اور دہشت میں توازن قائم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔مسلسل رابطے کی کائنات ایک خوش کن بھرم ہے جس کے توسط سے نئی اطلاعاتی تکنالوجی کا استعمال غیر انسانی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ تعلق اور ربط کا ہر سلسلہ فریب پیہم کی صورت میں ابھرتا ہے اور انسان کی ازلی تنہائی کا مداوا نہیں ہوتا اور یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ آنکھ انسانی ربط اور خواب اس کی تمنا کا استعارہ ہے مگرارتباط کی مانوس شکلیں کبھی ثمرآور نہیں ہوتی اس کیفیت کا اظہار درج ذیل شعر میں دیکھیے ؛
آوارہ ہیں اِس آنکھ سے اُس آنکھ تلک خواب
جیسے کہ مسافر کا کوئی گھر نہیں ہوتا
حلقہ زنجیر میں اسیری ایک مسلسل تجربہ ہے جس کا انجام لاحاصلی کے سوا کچھ اور نہیں؛
ترا یہ حلقہ زنجیر مجھ پہ آساں ہے
ہواہوں صید تری دلبری سے پہلے بھی
خود کو محفوظ رکھنے اور فتح و نصرت کی راہ ہموار کرنے کے لیے انسان کتنی پناہ گاہیں تلاش کرتا ہے اور اس بستی بسانے اور چھاونی چھانے کے جویا صاحب اقتدار فوج تیار رکھتے ہیں۔ فوج کی اساس سپاہی پر قائم ہے۔ سپاہی ایک اجتماعی تشخص ہونے کے باوجود اپنی اصل میں تنہاہوتا ہے اورشاہ وقت مقصد براری کی جدوجہد میں تنہا ہی ہوتا ہے۔ ایک مشترکہ مقصد کی تکمیل کرنے والے اور ان کو اس عمل پر مجبور کرنے والا دونوں اجتماعیت کو مسخر کرنے کے لیے اپنے شخصی جوہر سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ قمر صدیقی نے نیرنگئ حیات کی اس جہت کا فنکارانہ سطح پر ادراک کیا ہے ؛
سب سپاہی اپنی اپنی ذات میں مصروف تھے
شاہزادہ اب کے تنہا ہی لڑا لشکر کے بیچ
فراق نصیب انسان رفاقت اور تعلق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور وہ دوستیاں قائم کرتا رہتا ہے مگر دوسروں تک رسائی کی یہ کوشش اپنی تمناؤں اور آرزوؤں کی تکمیل کی سعی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی کہ ایسے انسان کی دوستی Likemindedness پر منحصر ہوتی ہے۔ لہٰذا روابط اور تعلق خاطر کا تمام تر سفر اس کی ذات پر منتج ہوتا ہے۔
مسلسل رابطے کے ذرائع فیس بُک، مسنجر، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کا محور و مرکز صرف اس کی ذات ہے، کچھ اور نہیں؛
میں ہی میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
ساتھ میرے مجھ سوا کوئی نہیں
تعلق دوری پاٹنے سے عبارت نہیں بلکہ علاحدگی کے احساس کو دوچند کرنے کا نام ہے ؛
روابط سب حصار ہجر میں ہیں
تعلق ٹوٹتی زنجیر سا ہے
تنہائی سے وابستہ کیفیات کے اظہار کے لیے قمر صدیقی نے اکثر رات اور خواب کا متیف بھی پیش نظر رکھا ہے۔ رات کا تعلق تاریکی سے تو ہے ہی مگر اس کا براہ راست ربط تخلیق سے بھی ہے۔ تخلیق ایک گہرا انسانی تجربہ ہے جو اکثر روشنی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ؛
اجالا پھیلا تھا کچھ تیرگی سے پہلے بھی
میں جل رہا تھا یہاں روشنی سے پہلے بھی
یہاں جلنا اندوہ آگیں نہیں بلکہ عین مطبوع خاطر ہے کہ اس کا حوالہ تخلیق ہے۔
تخلیقی فن کاروں نے تصور زماں کو بھی موضوع بحث بنایا ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ مختلف ادوار مثلاً ماضی، حال اور مستقبل میں اس کی تقسیم فہم انسانی کی نارسائی کو خاطر نشان کرتی ہے۔ تخلیقی عمل میں انسان کی تلویث اسے ایک ماورائی جہت عطا کرتی ہے اور وہ الوہی صفت سے قریب تر ہوجاتا ہے کہ تخلیق کا تسلسل ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
تخلیق زمان و مکاں کے معروف تصور کو شکست کردیتی ہے اور یہ ایک نوع کے ازلی حال (Eternal Present) کے طور پر جلوہ گر ہوتا ہے۔ قمر صدیقی نے فعل کی ایک اصطلاح کے حوالے سے ایک نیا محاورۂ بیان وضع کیا ہے؛
حال، ماضی اور مستقبل سبھی تو اس کے ہیں
ہستی اپنی اس کی خاطر صیغۂ مصدر میں ہے
عصر حاضر شاعرکے لیے دونِ مرتبت ہے؛
عصر حاضر کے سوا بھی کچھ اور زمانے ہیں
کچھ مناظر اور بھی ہیں آسماں منظر کے بیچ
حیات انسانی کے لیے پانی لازمی ہے اور قدرت نے دنیا کو سمندر، تالاب، دریا اور جھیل سے آباد کیا مگر شاعر کے نزدیک پانی کی یہ تمام شکلیں انسانی وجود کی رہین منت ہیں کہ ان آبی ذخائر کو سیراب آنسو کرتا ہے۔ قمر صدیقی کا یہ شعر حسنِ تعلیل کی اچھی مثال ہے ؛
یہ کیوں تالاب، دریا اور سمندر ہیں
یہاں پہ کوئی آکر رو گیا ہے کیا
گرم جوشی کے ساتھ پذیرائی میں ایک پہلو خوف، تشویق اور وحشت کا بھی مستتر ہوتا ہے۔ درج ذیل شعر دیکھیں؛
اس ساحر کے لطف و کرم سے
ہر چہرہ آسیب زدہ ہے
غیر ارادی فعل، جب حواس ظاہری مختل ہو جاتے ہیں، شاعر کے نزدیک شعوری عمل کو بدستور مرتکز رہتا ہے؛
مثال خواب ہمیشہ کسی سفر میں رہے
ہم اپنی نیند میں بھی تیری رہ گذر میں رہے
55 غزلوں اور 21 نظموں پر مشتمل قمر صدیقی کا مجموعہ کلام مسلسل رابطہ کے محور پر گردش کرنے والی کائنات کے سلسلے میں پوری تخلیقی توانائی کے ساتھ باور کراتا ہے کہ اب تعلق نہیں بلکہ التباس تعلق ہی ہماری حسی کائنات کو منور کرتا ہے اور یہی اس عہد کا المیہ بھی ہے جس کا عرفان عام نہیں ہے۔