ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف دہلی پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے پر پہلوانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عرضی میں کیس درج کرنے کا مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔ درخواست گزار مزید راحت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔
بجرنگ پونیا، سنگیتا پھوگاٹ، وینیش پھوگاٹ اور دیگر پہلوان جنتر منتر پر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ برج بھوشن شرن سنگھ (دائیں) کے خلاف دھرنا دے رہے ہیں۔ (فوٹو: دی وائر)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (4 مئی) کو خواتین پہلوانوں کی جانب سے دائر اس عرضی پر کارروائی بندکر دی،جس میں وہ چاہتی تھیں کہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی) کے سربراہ اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات کی جانچ کی جائے۔
نیوز ویب سائٹ
بار اینڈ بنچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ،جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردی والا کی بنچ نےیہ دیکھتے ہوئے کہ معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ پوری ہو چکی ہے، اس کیس کو بند کرنے کا فیصلہ لیا۔
بنچ نے کہا، ‘عرضی کا مقصد ایف آئی آر درج کرنا تھا، جسے اب درج کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج کے علاوہ، اس عدالت نے شکایت کنندگان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کچھ دیگر ہدایات بھی دی تھیں۔ پولیس نے اشارہ کیا ہے کہ نابالغ شکایت کنندہ کو مناسب سیکورٹی فراہم کی گئی ہے اور دیگر کو بھی سیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔ اب ہم کارروائی بند کرتے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ نریندر ہڈا نے عدالت سے کارروائی بند نہیں کرنے کے لیے کہا، کیوں کہ اگرایساکیا جاتاہے تو دہلی پولیس ‘اپنے قدم پیچھےکھینچ سکتی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ پولیس کی تفتیش جج یا مجسٹریٹ کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار’مناسب جوڈیشل مجسٹریٹ کورٹ یا ہائی کورٹ’سے رجوع کر سکتے ہیں۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، سی جے آئی چندرچوڑ نے کہا، ہم نے خود کو عرضی تک محدود کر لیا ہے اور وہ پوری ہوچکی ہے اور اگر آپ مجسٹریٹ کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں، تو آپ دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔’
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس واقعہ کےچند گھنٹے بعد آیا ہے، جس میں پہلوانوں نے بدھ کی رات دیر گئے جنتر منتر پر ‘نشے میں دھت پولیس اہلکار’ پر ان کے ساتھ
مارپیٹ اور گالی گلوچ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
دریں اثنا، دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ ‘تفتیش صحیح راستے پر ہے اور بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات کی سربراہی ‘ایک سینئر خاتون افسر اور ان کی ٹیم کر رہی ہے۔’ انہوں نے کہا کہ تحقیقات غیر جانبدارانہ ہوگی۔
انہوں نے کہا، نابالغ شکایت کنندہ کو سادہ کپڑوں میں چوبیس گھنٹے کی مناسب سیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔ اسٹاف کے موبائل نمبر نابالغ کے والد کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔ ہم نے تمام درخواست گزاروں کا انفرادی جائزہ لیا ہے۔کسی طرح کی دھمکی نہیں دی گئی ہے، لیکن احتجاج کے سلسلے میں ہم نےانہیں سکیورٹی فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ جنتر منتر پر تین مسلح پولیس والے تین لوگوں کے لیے تعینات کیے گئے ہیں اور وہ چوبیس گھنٹے تعینات ہیں اور تمام چھ لوگوں کے لیے سکیورٹی ہے۔
مذکورہ دلائل کے پیش نظر عدالت نے معاملے کو نمٹا دیا۔ برج بھوشن شرن سنگھ کی طرف سے سینئر وکیل ہریش سالوے پیش ہوئے تھے۔
لائیو لاء کے مطابق، درخواست گزاروں کے وکیل نے دہلی پولیس اور پہلوانوں کے درمیان ہاتھا پائی کی خبروں کا بھی حوالہ دیا، جس پر ایس جی مہتہ نے کہا کہ ‘ایک خاص پارٹی کے دو سیاست داں بستروں کے ساتھ وہاں گئے تھے، جنہیں پولیس نے روکنے کی کوشش کی اور اس وجہ سے ہاتھا پائی ہوئی۔
انہوں نے پولیس اہلکاروں کے نشے میں دھت ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ طبی معائنے میں یہ بات سامنے نہیں آئی ہے۔
اس سے پہلے دی وائر نے رپورٹ کیا ہے کہ برج بھوشن شرن سنگھ کی
مجرمانہ تاریخ رہی ہے، لیکن شاید اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے وہ لگاتا ر اس سے بچتے رہے ہیں، ہے۔ انہوں نے خود دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نےایک قتل کیا ہے۔
معلوم ہو کہ جنوری کے مہینے میں دہلی کے جنتر منتر پر پہلوانوں نے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے مظاہرہ کیا تھا۔
کارروائی کی یقین دہانی کے بعد انہوں نے ہڑتال ختم کردی تھی۔ تاہم، اس کے بعد بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، توپہلوانوں نے اپریل کے مہینے میں اپنا احتجاج دوبارہ شروع کیا، جس کے بعد سنگھ کے خلاف
دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (پاکسو) ایکٹ کے تحت ہے اور دوسری خاتون کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش سے متعلق ہے۔
اس سے قبل پہلوانوں نے الزام لگایا تھا کہ دہلی پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد وہ دھرنے پر بیٹھ گئے اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔