واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں نیٹ فلکس اور ایمیزون پرائم ویڈیو کو مذہب، سیاست اور ذات پات کے نظام سے متعلق پروجیکٹ پر بی جے پی اور ہندو دائیں بازو کی تنظیموں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے کئی پروجیکٹ یا تو رد کر دیے جاتے ہیں یا انہیں بیچ میں ہی روک دیا جاتا ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسا بے)
نئی دہلی: واشنگٹن پوسٹ نے امریکی اسٹریمنگ کمپنیاں ایمیزون کے پرائم ویڈیو اور نیٹ فلکس کو ہندوستان میں کمیشن کرنے کے فیصلوں کے پیچھے چل رہے کھیل کی
تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جس طرح ‘بی جے پی اور اس کے نظریاتی اتحادیوں نے اپنے ‘
ہندو-فرسٹ’ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لیے وہاٹس ایپ پر پروپیگنڈا چلایا ہےاور ٹوئٹر پر
اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے ریاستی اختیارات کا بے جا استعمال کیا ہے، اسی طرح انھوں نے نیٹ فلکس اور پرائم ویڈیو پر کون سا ہندوستانی مواد نشر کیا جائے گا اس کو طے کر نے کے لیے مجرمانہ معاملوں کی دھمکی اور اجتماعی عوامی دباؤ کا استعمال کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اخبار نے بتایا ہے کہ ‘یہاں کی اسٹریمنگ انڈسٹری میں کس طرح سیلف سنسرشپ کا کلچر رائج ہے، جو براہ راست اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے نظر آتا ہے۔ صنعت کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ نیٹ فلکس اور پرائم ویڈیو کے ہندوستانی دفاتر کے ایگزیکٹوز اور ان کے وکیل سیاسی کہانیوں پر پھر سے کام کرنے اور یا ہندو رائٹ ونگ یا بی جے پی کو ناراض کرنے والے مذہب کے حوالہ جات کو ہٹانےکے لیے وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔’
تفتیش اس بات پر مرکوز ہے کہ ‘ہندوستان کی سیاسی، مذہبی یا ذات پات کے نظام سے متعلق پروجیکٹ کی تجویز کو کس طرح شائستگی سے مسترد کر دیا جاتا ہے، یا درمیان میں ہی ترک کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مکمل ہو چکی سیریز اور فلموں کو بھی نیٹ فلکس اور پرائم ویڈی نے خاموشی سے منسوخ کر دیا۔’
فلمساز انوراگ کشیپ نے ان نتائج کو ‘غیر مرئی سنسرشپ’ کے مترادف قرار دیا ہے۔
’سیلف سنسرشپ‘ کا بڑھتا دائرہ
اخبار نے ایمیزون پرائم کی سیریز ‘تانڈو’ کی مثال دے کر عوامی اشتعال، حکومتی ضابطوں اور پولیس کی دھمکیوں کے ہتھکنڈوں کے اثرات کو واضح کیا ہے، جسے اس نے ‘ایک نازک وقت’ کے طور پربیان کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، ‘اس معاملے سے واقف لوگوں کے مطابق، اس کے ایک ملازم کو کچھ عرصے کے لیے روپوش ہونے اور اپنا پاسپورٹ پولیس کے حوالے کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔’
نیٹ فلکس انڈیا میں پروڈکشن مینجمنٹ کے سابق ڈائریکٹر پارتھ اروڑہ نے دی واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، ‘آپ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ آپ وہی غلطیاں نہیں کر رہے ہیں جو ‘تانڈو’ کے معاملے میں کی گئی تھیں۔’
ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘کمپنیوں کو آگے بڑھانے والے پروجیکٹ کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔’ بہت سے پروجیکٹ کو گرین سگنل دیا گیا اور ان کی شوٹنگ بھی نہیں کی گئی، جس میں ‘گورمنٹ’ نامی سیریز بھی شامل ہے، جس میں حکومت کے موقف پر تبصرہ کیا گیا تھا اور ہندوستانی سیاست کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
انوراگ کشیپ نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ 2021 میں، نیٹ فلکس نے کتاب ‘میکسمم سٹی’ پر مبنی سیریز کو بند کر دیا، ‘جو ممبئی میں ہندو بنیاد پرستی کی کھوج کر رہی تھی۔’
اخبار کا کہنا ہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی پہلی کوشش 2021 کے اوائل میں اس وقت کی گئی تھی جب ‘حکومت ہند نے سیلف ریگولیشن کا ایک نظام متعارف کرایا تھا، جس کے تحت اسٹریمنگ کمپنیوں کو ناظرین کی شکایات کو 15 دنوں کے اندر حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر اسے کسی صنعتی ادارے یا مختلف وزارتوں کے ذریعے چلنے والی ریگولیٹری جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سیاست کے لیے ہجوم کی تعیناتی؟
ناظرین کے ’اشتعال‘ اور بڑے سیاسی مقاصد کے لیے اس کی تعیناتی کو ’تانڈو‘ کے معاملے سےہی سمجھا جا سکتا ہے۔
دائیں بازو کے ایک شخص رمیش سولنکی نے 2019 میں تانڈو سیریز کے خلاف پولیس میں پہلی شکایت درج کرائی تھی۔ اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں سولنکی نے ان ‘سینکڑوں’ وہاٹس ایپ اور فیس بک گروپ کے وجود کے بارے میں بتایا، جہاں ان جیسے ہندو قوم پرست ‘اس بات پر بحث کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے کہ اسٹریمنگ پلیٹ فارمز پر دباؤ کیسے بنایا جائے’۔
انہوں نے کہا کہ گروپ کے اراکین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کو مالی اور قانونی مدد فراہم کرتے ہیں جو رضاکارانہ طور پر غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف شکایات درج کراتے ہیں۔’
سولنکی نے کہا کہ اس کے بعد انہیں بی جے پی لیڈروں کی طرف سے مبارکبادی پیغامات کا سیلاب آیا اور وہ 2022 میں بی جے پی میں شامل ہو گئے۔
انہوں نے اخبار کے سامنے دعویٰ کیا کہ پرائم ویڈیو اور نیٹ فلکس نے سبق سیکھ لیا ہے،’وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم کچھ غلط کرتے ہیں، لائن کراس کرتے ہیں تو ہمیں اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔’
نیا متنازعہ بل
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دوران ایک نیا متنازعہ مسودہ براڈکاسٹنگ سروسز (ریگولیشن) بل 2023، جو 1995 میں نافذ کیے گئے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس (ریگولیشن) ایکٹ کی جگہ لینے کےلیے بنایا گیا ہے، اب پورے میڈیا اسپیس کو ریگولیٹ کرنے کے اہل ہو جائے گا۔
اس مسودے پر سینئر میڈیا اسکالر سیونتی نینان نے نیو ٹیلونز کے عنوان سے ایک مضمون میں بھی
تنقید کی ہے۔