سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سی ای بی آئی) کے تقریباً 500 اہلکاروں کی جانب سے گزشتہ ماہ وزارت خزانہ کو لکھے گئے ایک شکایتی خط میں کہا گیا تھا کہ سیبی کی بیٹھکوں میں افسران کے اوپرچیخنا چلانا، ڈانٹنا اور ان کی سرعام تذلیل کرنا عام سا واقعہ ہوگیا ہے۔
نئی دہلی: سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) کی سربراہ مادھبی بُچ کی پریشانیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سیبی حکام نے گزشتہ ماہ 6 اگست کو وزارت خزانہ میں ایک شکایت درج کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ سیبی کے اندر کام کاج کے ماحول کو لیڈر شپ کی جانب سےخراب کیا جا رہا ہے۔
ای ٹی کے مطابق، شکایتی خط میں لکھا گیا تھا کہ ،’بیٹھکوں میں افسران کے اوپرچیخنا چلانا، انہیں ڈانٹنا اور سرعام ان کی تذلیل کرنا عام سا واقعہ ہو گیا ہے۔‘
یہ خط ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سیبی کی سربراہ مادھبی بُچ کو اڈانی گروپ کے خلاف سیبی کی تحقیقات کے حوالے سے مفادات کے ٹکراؤ کے الزامات کا سامنا ہے۔
تاہم، اخبار کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں سیبی نے کہا ہے کہ ملازمین سے متعلق مسائل کو حل کر لیا گیا ہے۔ سیبی نے کہا ، ‘ملازمین کے ساتھ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت کرنا ایک مستقل عمل ہے۔‘
سیبی میں گریڈاے اور اس سے اوپر کے تقریباً 1000 افسران ہیں اور ان میں سے نصف، تقریباً 500، نے خط پر دستخط کیے تھے۔
وزارت خزانہ کو بھیجے گئے خط میں حکام نے الزام لگایا ہے کہ بُچ کی لیڈرشپ میں افسران کے ساتھ بات چیت کے دوران’سخت اور غیر پیشہ ورانہ زبان‘ استعمال کی جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی ان کی ہر لمحےکی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جاتی ہے اور ان کے لیے ایسے غیرحقیقی کام طے کیے جاتے ہیں جن کے ہدف تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ، سیبی کی تاریخ میں ممکنہ طور پریہ پہلا واقعہ ہے جب حکام نے کام کاج کے ماحول کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حکام نے کہا ہے کہ اس زہر آلود ماحول نے ان کی ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کے کام اور زندگی کے درمیان کاتوازن بگاڑ دیا ہے۔ سیبی مینجمنٹ سے وابستہ لوگوں کی جانب سے ان کی شکایتوں کو نظر انداز کیے جانے کے بعد حکام نے وزارت خزانہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پانچ صفحات پر مشتمل شکایتی خط کے مطابق، سیبی انتظامیہ نے کارکردگی میں اضافہ کے نام پر پالیسیوں اور نظام میں تبدیلیاں کی ہیں۔ افسران کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ لیڈرشپ کی جانب سے ان کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال اور ان کے اوپر چیخنا چلانا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اعلیٰ سطح پر بیٹھے لوگ غیر پیشہ ورانہ زبان استعمال کرتے ہیں‘ اور ایسے حالات میں ’مینجمنٹ کی طرف سے کوئی دفاع نہیں کیا جاتا۔‘
حکام نے خط میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اعلیٰ عہدے پر فائز ملازمین بھی انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 2-3 سالوں میں ادارےکے اندر کا ماحول جابرانہ اور استحصالی ہو گیا ہے۔
اخبار کے مطابق، خط میں لیڈرشپ کے اس رویے اور نظریے کو پوری طرح سےختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں ملازمین کے اوپر چیختے چلاتے ہوئے اور غیر پیشہ ورانہ زبان استعمال کرتے ہوئے کام کرنے کے لیے دھمکایا جاتا ہے۔
خط کے جواب میں سیبی نے کہا کہ مطالبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ترمیم کو لاگو کیا گیا ہے۔ سیبی نے بتایا کہ بیٹھکوں سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے بیٹھکوں کے فارمیٹ میں تبدیلی کی گئی ہے۔
سیبی حکام کے خط میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے ملازمین کی حاضری پر نظر رکھنے اور ان کی سرگرمیوں پر مکمل کنٹرول رکھنے کے لیے خصوصی گیٹ (ٹرن اسٹائل) لگائے ہیں۔
بصارت سے محروم ملازمین کو درپیش چیلنجز کاحوالہ دیتے ہوئے عہدیداروں نے اس گیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیبی نے اس کاجواب دیا ہے کہ گیٹ حال ہی میں لگائے گئے ہیں، اور ملازمین کے تاثرات کی بنیاد پر چھ ماہ کے بعد ان کی ضرورت کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سیبی حکام نے لیڈرشپ کی جانب سے رواں سال کے لیے کلیدی رزلٹ ایریا (کے آر اے) کے اہداف میں 20-50 فیصد اضافہ کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا، جن کے بارے میں امید کی گئی تھی کہ ملازمین دسمبر تک ان اہداف کو حاصل کرلیں گے۔ انہوں ان اہداف کو غیر حقیقی مانا، جس کی وجہ سے ملازمین میں تناؤ اور بے چینی پیدا ہوئی۔
اس کے جواب میں سیبی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کے آراے کا قیام ملازمین کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام محکموں کے ملازمین کے ساتھ مشاورت اور مکمل جائزہ لینے کے بعد کیا گیا تھا۔
اپوزیشن اور زی گروپ کے بانی سبھاش چندرا نے بُچ پر بدعنوانی کے الزام لگائے
اپوزیشن پارٹی نے بُچ کوان کے پچھلے آجر آئی سی آئی سی آئی بینک سےان کی تنخواہ کے علاوہ ملنے والی رقم پر سوال کھڑے کیے ہیں۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا، ‘2017 سے 2024 کے درمیان، بُچ کو آئی سی آئی سی آئی بینک سے 12.63 کروڑ روپے، آئی سی آئی سی آئی پروڈنشل سے 22.41 لاکھ روپے، ایمپلائی اسٹاک اونرشپ پلانز (ای ایس او پی) سے 2.84 کروڑ روپے اورآئی سی آئی سی آئی سےٹی ڈی ایس ادائیگی کے طور پر 1.10 کروڑ روپے ملے، جو سیبی سے ملنے والی ان کی تنخواہ کے علاوہ ہے، ان کی تنخواہ کی کل رقم 3.3 کروڑ روپے ہے۔‘
ان الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئےآئی سی آئی سی آئی بینک نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے نوٹس میں آیا ہے کہ میڈیا میں کچھ ایسی رپورٹس ہیں جن میں آئی سی آئی سی آئی گروپ پر سیبی کی چیئرپرسن مادھبی پوری بُچ کو تنخواہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے، اس سلسلے میں ہم کہنا چاہیں گےکہ آئی سی آئی سی آئی بینک یا اس کی گروپ کمپنیوں نے بُچ کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد، ان کی ریٹائرمنٹ کے فوائد کے علاوہ کوئی تنخواہ یا کوئی ای ایس او پی نہیں دیا ہے۔ اس بات پرغور کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے 31 اکتوبر 2013 سے ریٹائرمنٹ کا انتخاب کیا تھا۔‘
دریں اثنا، منگل (3 ستمبر) کو زی گروپ کے بانی سبھاش چندرا نے بھی بُچ پر بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔ چندرا نے کہا کہ اس سال فروری میں ان کے پاس منجیت سنگھ نامی ایک شخص کا فون آیا تھا، جس نے ان سے کہا کہ سیبی کے ساتھ جو بھی مسائل ہیں ان کو ایک قیمت ادا کرکے حل کیا جاسکتا ہے۔
سیبی نے چندرا کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔