نیوز ویب سائٹ اسکرول کے رپورٹر ظفر آفاق نے گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے اندور سے ایک رپورٹ کی تھی، جس میں بجرنگ دل کے لوگوں کے ذریعے مسلم نوجوانوں پر حملے اور پولیس کارروائی میں امتیازی سلوک کی بات کہی گئی تھی۔
ظفر آفاق اور ان کی رپورٹ کا اسکرین شاٹ۔ (تصویر: ٹوئٹر/ ظفر آفاق اوراسکرول ڈاٹ ان)
نئی دہلی: اسکرول کے رپورٹر ظفر آفاق کو اندور پولیس نے اتوار (12 فروری) کو دہلی میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تھا۔ پوچھ گچھ کے بعد انہیں جانے دیا گیا۔
سوموار کو جاری ایک بیان میں،
نیوز ویب سائٹ اسکرول نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح آفاق نے اس سال جنوری کے اواخر میں بجرنگ دل کے لوگوں کے ذریعے مسلم نوجوانوں پر حملے کی رپورٹنگ کے لیےمدھیہ پردیش کا سفر کیاتھا۔
اسکرول نےکہا ،ان کی رپورٹ، جو
4 فروری 2023 کو شائع ہوئی، اس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ پولیس نے مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیا تھا، لیکن وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور سنگھ پریوار – جس سے بی جے پی کا تعلق ہے – سے وابستہ بجرنگ دل کے کارکنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس وقت مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
آفاق کی رپورٹ میں مقامی پولیس اور بجرنگ دل کے اندور کوآرڈینیٹر کے بیان بھی شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ،آفاق نے بجرنگ دل کے کئی دیگر اراکین کو بھی فون کیا تھا، جنہوں نے ان کی کال کا جواب نہیں دیا۔
اتوار کو آفاق سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے اندور پولیس نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ بجرنگ دل کے ایک رکن کی شکایت کی جانچ کر رہی ہے، جس نے دعویٰ کیا ہے کہ تنظیم کی جانب سے شاہ رخ خان کی فلم پٹھان کے خلاف احتجاج کیے جانے کے بعد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ پولیس نے کہا کہ بجرنگ دل کے کے فون پر بہت سے مسڈ کال کرنے والے نمبروں میں سے ایک آفاق کا بھی تھا۔
اسکرول نے کہا، یہ نمبر آفاق کو اس نیوز آرگنائزیشن کی جانب سے دیاگیاتھا، جس کے لیے وہ پہلے کام کر رہے تھے۔ اسکرول میں شامل ہونے کے بعد بھی آفاق اس کو نمبر استعمال کررہے ہیں۔
یہ بھی کہا کہ، پولیس کو یہ باور کرانے کے بعد کہ آفاق نے بطور رپورٹر اپنے کام کے سلسلے میں اندور میں بجرنگ دل کے کئی رہنماؤں کو فون کیا تھا، پولیس نے انہیں جانے دیا۔ پوچھ گچھ کے دوران آفاق کے پاس سے کوئی چیز ضبط نہیں کی گئی۔