سائنسدانوں نے مودی حکومت پر سائنسی مزاج کی اہمیت کو کم کرنے اور جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے کا الزام لگایا

آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک کے زیر اہتمام سو سے زیادہ سائنسدانوں نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور اس کے مختلف ادارے سائنسی نقطہ نظر، آزاد یا تنقیدی سوچ اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی مخالفت کرتے ہیں۔

آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک کے زیر اہتمام سو سے زیادہ سائنسدانوں نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور اس کے مختلف ادارے سائنسی نقطہ نظر، آزاد یا تنقیدی سوچ اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی مخالفت کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: 100 سے زائد سائنسدانوں نے سائنس اور شواہد پر مبنی سوچ کے تئیں ہندوستانی حکومت کے ‘مخالفانہ موقف’ اور اس کے ‘جھوٹے بیانیے، بے بنیاد نظریات اور ہندوستان کے اکثریتی نظریے کی پیروی کرنے کے لیے مذہبیت کا لبادہ اوڑھنے کی حمایت کی مذمت کی ہے۔

دی ٹیلی گراف کے مطابق، سائنسدانوں نے حکومت پر ‘کئی طرح سے’ اس طرح کےحملوں میں رول ادا کرنے کا الزام لگایا ہے جو عوام میں سائنسی رویوں کو مجروح کرتے ہیں، انہوں  نے اکیڈمک کمیونٹی، بیوروکریسی اور سیاسی طبقے سے آئینی اقدار کے تحفظ میں مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔

ہندوستانی آئین کا تقاضہ ہے کہ ہر شہری اپنے دیگر بنیادی فرائض کے ساتھ ساتھ سائنسی مزاج، انسان پرستی اور سوال جواب اور اصلاح کا جذبہ پیدا کرے۔

سائنسدانوں نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ‘حکومت اور اس کے مختلف ادارے اب سائنسی نقطہ نظر، آزاد یا تنقیدی سوچ اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی فعال طور پر مخالفت کر تے ہیں۔’

سائنسدانوں نے مزید کہا، ‘یہ مخالفانہ رویہ وسیع پیمانے پر اور مستقل طور پر عوام کے درمیان پہنچایا جاتا ہے، جس سے اس طرح کے رویے پیدا ہو جاتے ہیں۔’

بیان میں کسی کا نام نہیں لیا گیا، لیکن اس کا مواد — غیر ثابت شدہ یا غیر سائنسی نظریات کی تشہیر کے بارے میں تشویش کا اظہار، ، قدیم ہندوستانی علوم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے، کووِڈ-19 کی وبا کے دوران کچھ ردعمل — نریندر مودی حکومت میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق ہے۔

تقریباً چھ ماہ سے تیار کیے جا رہے اس بیان کو 28 فروری کو کلکتہ میں آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک کی قومی کانفرنس میں حتمی شکل دی گئی۔ یہ نیٹ ورک 40 اداروں کا ایک کنسورشیم ہے جو عوام میں سائنسی تعلیم اور سائنسی رویوں کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔

اس بیان پر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، نیشنل سینٹر فار بایولوجیکل سائنسز، رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور دیگر سمیت متعدد تعلیمی اداروں کے 100 سے زیادہ ان سروس اور ریٹائرڈ سائنسدانوں نے دستخط کیے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت اور اس کی اتحادی سماجی قوتوں نے ‘ سیڈو سائنس اور دیومالائی قصوں کو تاریخ تصور کرنے کے کے عقیدے  کو بڑھاوا دیا  ہے’ اور ‘اکثریتی کمیونٹی کے درمیا ن بھی متنوع مذہبی عقائد کے برخلاف ایک واحد اکثریتی مذہب اور ثقافت کی تخلیق کو فروغ دینے کے لیے جھوٹے بیانیہ کا استعمال کیا۔’

سائنسدانوں نے کہا ہے کہ تحقیق اور ترقی کے لیے حکومتی فنڈز، جب جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر ماپا جاتا ہے، جو پہلے ہی بہت کم ہے۔ یہ ‘تاریخی نچلی سطح’ تک پہنچ گیا ہے، ان خدشات کے درمیان کہ اس سے ہندوستان کی نئی سائنسی معلومات پیدا کرنے کی صلاحیت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا،’سستی مزدوری کے ذریعے گھریلو مطالبے کو پورا کرنے کو آتم نربھرتا (خود انحصاری) کے طور پر غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے، اس طرح تحقیق اور علم کی پیداوار کی ضرورت کو کم کرکے دیکھا جاتا ہے۔’

سائنسدانوں نے حکومت پر ڈیولپمنٹ ڈیٹا اور مختلف عالمی درجہ بندیوں میں ہندوستان کی پوزیشن کو ‘غلط بنیادوں پر’ چیلنج کرنے کا الزام لگایا ہے۔ مرکز نے حالیہ برسوں میں بھوک کے بارے میں ہندوستان کی درجہ بندی کو چیلنج کیا ہے اور متعدد تعلیمی گروپوں کی طرف سے کووڈ 19 وبائی مرض کے دوران ہندوستان میں زیادہ اموات کے تخمینے کو بار بار فرضی، خیالی یا ناقص قرار دیا ہے۔

سائنسدانوں نے کہا کہ امیج مینجمنٹ سے ہٹ کر یہ رجحانات سائنسی مزاج اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کو کمزور کرتے ہیں اور دانشورانہ رویوں کے مخالف نظریےکو فروغ دیتے ہوئے علم پیدا کرنے والے طبقے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘سیاسی میدان میں نمایاں شخصیات کے غیر سائنسی دعوے، خیالی تکنیکی حصولیابی کے دعوے اور قدیم ہندوستانی علم کے بارے میں مبالغہ آمیز خیالات پیش کرنا انتہائی قوم پرست بیانیہ کی تخلیق اور حمایت کرتے ہیں۔’

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے خیالی اور فخریہ دعوے قدیم ہندوستان کی متعدد حقیقی خدمات کو کمتر بناتے ہیں۔

Next Article

اڈانی گروپ پر ایران سے پیٹرو کیمیکل درآمد کرنے کا شبہ، امریکہ نے شروع کی جانچ: رپورٹ

امریکی محکمہ انصاف نے اڈانی گروپ کےاس کردار کی تحقیقات شروع کی ہے جس میں اس پر ایران سے ایل پی جی درآمد کرنے کا شبہ ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں اور دستاویزوں میں بے ضابطگیوں کی جانچ کی جارہی ہے۔

گوتم اڈانی۔تصویر بہ شکریہ: انسٹاگرام

نئی دہلی: امریکی محکمہ انصاف نے (یو ایس ڈپارٹمنٹ آف جسٹس) نے اڈانی گروپ کے اس کردار کی جانچ شروع کی ہے، جس میں اس پر ایران سے پیٹرو کیمیکل مصنوعات (خصوصی طور پر ایل پی جی) درآمد کرنے کا شک ہے۔یہ جانکاری  وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں دی گئی ہے۔ یہ جانچ ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اڈانی گروپ بدعنوانی کے ایک الگ معاملے میں سمجھوتے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے اڈانی گروپ نے امریکی پابندیوں کو جھانسہ دینے یا ایرانی ایل پی جی کی تجارت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ اڈانی کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسی کسی امریکی تحقیقات سے واقف نہیں ہیں۔

ترجمان نے کہا، ‘وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی ٹائمنگ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کا مقصد محکمہ انصاف کی جانب سے جاری پراسیکیوشن کو متاثر کرنا ہے۔’

وال اسٹریٹ جرنل نے قبل ازیں 13 اپریل کو خبر دی تھی کہ گوتم اڈانی کے وکیلوں نے امریکی محکمہ انصاف سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے خلاف درج فوجداری مقدمات کو خارج کردیں۔ ان معاملات میں اڈانی پر ہندوستان میں شمسی توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کی رشوت دینے کا الزام ہے۔

ان الزامات کو اکتوبر 2024 میں عام کیا گیا تھا، جس میں اڈانی، ان کے بھتیجے ساگر اڈانی اور تین کمپنیوں کے چھ دیگر عہدیداروں کا نام شامل تھا۔

ایک متوازی مقدمے میں یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن(ایس ای سی) نے گوتم اور ساگر اڈانی پر وفاقی سیکیورٹیز قوانین کی اینٹی فراڈ دفعات کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

پانچ مئی کو بلیومبرگ نے بتایا تھاکہ اڈانی کے وکیلوں اور ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کے درمیان بات چیت تیز ہو گئی ہے اور آنے والے ایک مہینے میں کسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی2 جون کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکی استغاثہ اڈانی انٹرپرائزز کے لیے ایل پی جی کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والے کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل نے خلیجی بندرگاہوں اور اڈانی کے زیر انتظام مندرا بندرگاہ کے درمیان سفر کرنے والے ایل پی جی ٹینکروں کے ایک گروپ کا بھی پتہ لگایا۔ رپورٹ کے مطابق، انہیں ان  جہازوں کی نقل و حرکت کو چھپانے کی کوشش کے کچھ واضح نشانات ملے، جن میں جہاز کی لوکیشن بتانے والے خودکار شناختی نظام (اے ائی ایس) میں ہیرپھیرکرنا شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایرانی تیل اور گیس کی مصنوعات کے خریدار اکثر عمان اور عراق میں بنے فرضی دستاویزوں کا استعمال کرتے ہیں۔

اس جانچ کا فوکس پاناما میں رجسٹرڈ ٹینکر جہازپر ہے جسے ایس ایم ایس بروزکہا جاتا ہے، جسے بعد میں نیل کا نام دیا گیا۔ اے آئی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ جہاز 3 اپریل کو عراق کی خور الزبیر بندرگاہ پر تھا۔ لیکن اسی دن کی سیٹلائٹ تصاویر میں جہاز کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ اس کے بجائے، اسی طرح کی بناوٹ والا ایک جہاز ایران کے ٹومبک میں ایل پی جی ٹرمینل پر کھڑا نظر آیا۔ چار دن بعد، ٹینکر متحدہ عرب امارات کے ساحل پر نظر آیا اور اس کے ڈیٹا سے پتہ چلا کہ یہ پانی میں کچھ  نیچے بیٹھا ہوا تھا – جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں مال لدا ہوا تھا۔

جہاز نے عمان کی بندرگاہ سہار کے قریب لنگر انداز ہونے کا اشارہ بھیجا تھا، لیکن اسے کبھی وہاں لنگر انداز ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ دو دن بعد،اڈانی گلوبل پی ٹی ای نے جہاز سے تقریباً 11250 میٹرک ٹن ایل پی جی لوڈ کرنے اور اسے ہندوستان کی مندرا بندرگاہ تک پہنچانے کا معاہدہ کیا۔ ہندوستانی کسٹم ریکارڈ کے مطابق، 17 اپریل کو، اڈانی انٹرپرائزز نےایک ایسا ہی مال درآمد کیا،جس کی  قیمت 70 لاکھ ڈالر سے کچھ زیادہ تھی ۔

ایس ایم ایس بروز (اب نیل) کے دستاویزوں میں اس سے قبل بھی کئی تضادات پائے گئے ہیں۔ جون 2024 کی ایک بنگلہ دیشی بندرگاہ کے دستاویز میں اس کا ذکر ایرانی نژاد ایل پی جی کی ڈیلیوری کے لیے کیا گیا تھا، جبکہ اے آئی ایس ڈیٹا میں اسے عراق کی جانب جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا -یہ پیٹرن اپریل والے معاملے سے میل کھاتاہے۔

اڈانی کی مندرا بندرگاہ سے منسلک تین دیگر ایل پی جی ٹینکروں کی سرگرمیوں میں بھی بے ضابطگیوں کا پتہ چلا ہے۔ ایک جہاز، جو اسی کمپنی کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو نیل کا انتظام کرتی ہے، وہ امریکی سینیٹ کی اس واچ لسٹ میں شامل تھی  جس میں ایرانی تیل اور گیس لے جانے والے جہازوں کا نام ہے ۔ ایک اور جہاز نے خور الزبیر کی بندرگاہ پر پہنچنے کا دعویٰ کیا، لیکن سیٹلائٹ امیج میں وہ وہاں نظرنہیں آیا۔ چوتھا جہاز، جو بار بارمندرا میں ڈاک کرتا ہے،  امریکی محکمہ توانائی کی 2024 کی رپورٹ میں ایرانی پیٹرولیم برآمد کرنے والے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کو پوری طرح سے خارج کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایل پی جی کا کاروبار ‘آپریشنل اوراہم نہیں ہے’ – یہ اڈانی انٹرپرائزز کی 11.7 بلین ڈالرکی کل سالانہ آمدنی کا صرف 1.46 فیصد ہے۔

گروپ نے کہا کہ وہ تمام ایل پی جی قابل اعتماد بین الاقوامی سپلائرز کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے خریدتا ہے، او ایف اے سی کی پابندیوں والی  فہرست میں شامل کسی بھی کمپنی کے ساتھ تجارت نہیں کرتا ہےاورشپنگ کا کام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس کمپنیوں کے ذریعے اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کرواتاہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں مذکور کنسائنمنٹس کا جواب دیتے ہوئے اڈانی نے کہا کہ یہ ایک معمول کا تجارتی لین دین تھا، جس کا انتظام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس پارٹنر نے کیا، اور دستاویزات میں سہار (عمان) کو کنسائنمنٹ کا سورس بتایا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے یہ بھی کہا، ‘ہم ان جہازوں (جیسے ایس ایم ایس بروز/نیل)کے مالک، آپریٹر یا ٹریکر نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہے، اس لیے ہم ان کی موجودہ یا ماضی کی کسی بھی سرگرمی پر تبصرہ نہیں کر سکتے ۔’

گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک حقیقی درآمد کرنے والے کی تمام ذمہ داریاں پوری کی گئی ہیں۔

Next Article

دہلی:  پی ڈبلیو ڈی نے ناراضگی کے بعد حفاظتی انتظامات کے بغیر نالیاں صاف کرنے والے ملازمین کی تصویریں ہٹائیں

دہلی پی ڈبلیو ڈی نے سوشل میڈیا پر حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ملازمین کی تصویریں پوسٹ کی تھیں، جنہیں تنقید کے بعد ہٹا دیا گیا۔تصویروں میں ملازمین کو بغیر جوتے، دستانے اور ماسک کے کام کرتے دکھایا گیا تھا۔ ماہرین اور سماجی کارکنوں نے اسے دستی صفائی کے قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔

(علامتی تصویر: ارپیتا سنگھ اور مینک چاولہ)

نئی دہلی: دہلی کے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) نے اپریل اور مئی میں نالیوں کی صفائی کرنے والے عملے کی کئی تصاویر سوشل میڈیا، خصوصی طور پر ایکس پر پوسٹ کی تھیں۔

تاہم، منگل (3 جون) کو ان میں سے ایک پوسٹ کے وائرل ہونے اور اس حوالے سےتنقید کا نشانہ بننے کے بعد محکمے نے ان تصاویر کو اپنے سوشل میڈیا سے ہٹا دیا۔ان تصویروں میں ملازمین کو دستانے، جوتے، چشمے، ماسک یا کسی دوسرے حفاظتی انتظامات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ہوئےدیکھا گیا ۔

کچھ تصویروں میں صفائی اہلکار کو بغیر شرٹ اور چپل -جوتے کے بغیردیکھا گیا، جس سے ان کی صحت پر پڑنے والے اثرات کو لے کر سوال اٹھے۔ ساتھ ہی پوچھاجانے لگا کہ کیا دستی صفائی قانون کے دائرے میں آتی ہے؟

فیڈریشن آف آل انڈیا میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی صدر ڈاکٹر اکشے ڈونگاردیو نے کہا،’یہ جلد کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، پھیپھڑوں کے انفیکشن کو بڑھا سکتا ہے، اور اگر طویل عرصے تک احتیاط کے بغیرکیا گیا تو یہ مہلک بھی ہو سکتا ہے ۔’

غور طلب ہے کہ رواں سال کے شروع میں دہلی حکومت نے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 31 مئی تک ریاست کے 23 اہم نالیوں کی سلٹ(گاد) نکال دے گی۔ وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اور پی ڈبلیو ڈی کے وزیر پرویش ورما نے گزشتہ ماہ محکمے کے افسران سے ملاقات کی تاکہ ڈیڈ لائن  پر اس کی صفائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی وجہ سے پوری دہلی میں نالیوں کی صفائی کی جا رہی ہے۔

نومبر 2024 میں این جی ٹی نے دہلی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی کہ وہ نالیوں میں بنا صاف کیے جا رہے سیوریج کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ ٹربیونل نے تب کہا تھا کہ دہلی جل بورڈ اور دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) ‘گٹر کے پانی کو صاف پانی کی نالیوں میں بہنے کی اجازت دینے کے لیے ذمہ دار ہیں، جس سے یمنا ندی آلودہ ہوتی ہے… اور صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔’

پچھلے سال پلہ علاقے میں ایک پانچ سالہ بچی کے نالے میں ڈوبنے سے موت ہوجانےکے بعد این جی ٹی کو یہ بھی پتہ چلا تھا کہ شمالی دہلی کے قریب ایک بارش کے پانی والے نالے میں سیوریج کا بہاؤ ہو رہا تھا کیونکہ وہاں سیوریج کا کوئی نظام نہیں تھا۔

ملازمین کو حفاظتی انتظامات فراہم نہیں کیے جاتے

دی وائر نے ارجن نگر اور حوض خاص کے قریب ایک نالے کا دورہ کیا اور دیکھا کہ گندا پانی بہہ رہا تھا اور پانی کا ایک پائپ ٹوٹا ہوا تھا، جبکہ سلٹ نکالنے کا کام اس دن روک دیا گیا تھا۔

موقع پر موجود تین مختلف ذرائع نے بتایا کہ ملازمین وہاں سے جا چکے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس نالے کی صفائی  ہاتھ سے بھی ہوتی ہے اور مشین سے بھی۔

رپورٹر نے علاقے میں دو مقامات پر چار صفائی اہلکار سے ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس صفائی کے لیے حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے پوسٹ کی گئی اور بعد میں ہٹا دی گئی کم از کم 12 تصویروں میں ملازمین حفاظتی انتظامات کے بغیر دیکھے گئے۔

اتر پردیش کے کاس گنج ضلع سے تعلق رکھنے والے تین صفائی اہلکار نے دی وائر کو بتایا کہ وہ جہاں کام کرتے ہیں – جنوبی دہلی کی ایک پوش کالونی – وہاں گندا پانی بارش کے پانی کے نالوں میں نہیں ملتا، لیکن شہر کے دیگر حصوں میں ایساہوتا ہے۔

جیت کمار( 45سالہ)، جو بے گھر ہیں اور اب صفائی  کا کام کرتے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے نالوں کی صفائی اس لیے چھوڑ دی کیونکہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور اجرت بہت کم ہے – انہیں ایک دن کے کام کے 500 روپے ملتے ہیں، لیکن نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ کب آپ کا ہاتھ کٹ جائے، زہریلی گیس اندر چلی جائے، یاآنکھوں میں کچرے کی چھینٹ پڑنے سے آپ اندھے ہو جائیں… وہاں کانچ اور دھات کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔’

کاس گنج سے آئے مزدوروں نے جیت کمار کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ انہیں ایک دن کے 500 روپے ملتے ہیں۔

‘دستانے، جوتے اور صاف پانی تو سب سے بنیادی ضروریات ہیں۔ ‘ جیت کمار نے کہا،۔’اگر کوئی چیز آنکھوں میں چلی جائے تو اسے فوری طور پر دھونے کے لیے صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔’

جب دی وائر نے مزدوروں سے پوچھا کہ کیا انہیں حفاظتی آلات ملتے ہیں ، تو انہوں نے شروع میں ‘ہاں ‘میں کہا، لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں ایسا کوئی سامان فراہم نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا، ‘ہمارے پاس جو واحد حفاظتی سامان  وہ  ایم سی ڈی کی ہری جیکٹ ہیں ،تاکہ عوام اور پولیس ہمیں پہچان سکے۔’

سرکار کے ایک ذرائع نے بتایا کہ صفائی کا زیادہ تر کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، لیکن جہاں مشینیں نہیں جا سکتیں، وہ ہاتھ سے کی جاتی ہیں۔

دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے بھی کچھ ایسا ہی کہا۔ انڈین ایکسپریس نے منگل کو ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘دیکھیے، ہر نالے کی حالت مختلف  ہوتی ہے۔ مشینیں ہر جگہ کام نہیں کرتیں اور انسان بھی ہر جگہ کام نہیں کر سکتے۔ ایسی جگہیں ہیں جہاں مشینیں نہیں پہنچ سکتیں۔ فی الحال حکومت کا مقصد تمام نالوں کو مکمل طور پر صاف کرنا ہے، اور یہ کام عدالت کی ہدایات کے مطابق پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔’

اگرچہ تصویروں میں نظر آنے والے نالے درحقیقت اسٹارم واٹر ڈرین ہیں اور حکام کے مطابق دستی صفائی کے قانون کے تحت نہیں آتے، لیکن مزدوروں کی گواہی، کارکنوں کی آراء اور این جی ٹی کے تبصرے زیادہ پیچیدہ تصویر پیش کرتے  ہیں۔

دستی صفائی کی تعریف ایسی جگہوں پر تکنیکی ذرائع کے استعمال کے بغیر ہاتھ سے انسانی غلاظت کو صاف کرنے کے طور پر کی گئی ہے جیسے کہ گندے بیت الخلا، کھلے گڑھے یا نالے جن میں غلاظت بہتی ہے، ریلوے کی پٹریوں پر، یا کسی دوسری جگہ جو مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مطلع کیا جاسکتا ہے۔

دستی صفائی کرنے والوں اور ان کی بحالی ایکٹ (مینوئل اسکیوینجرس ایکٹ)، 2013 کے مطابق، ضروری آلات اور حفاظتی انتظامات کےبغیر کسی شخص کو دستی صفائی کے لیے ملازم رکھنا غیر قانونی ہے۔ یہ قانون گٹروں اور سیپٹک ٹینکوں کی ‘خطرناک صفائی’ کی بھی تعریف کرتا ہے – یعنی انہیں بنا ضروری حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر ہاتھ سے صاف کرنا۔ یہ کسی بھی شخص کو اس طرح کی صفائی کے لیے مزدوررکھنے کوغیر قانونی قرار دیتاہے۔

صفائی کرمچاری آندولن کے کنوینر بیزواڑا ولسن نے حکام کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ صرف ‘بارش کے پانی کے نالے’ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکام خواہ کچھ بھی کہتے ہوں ان میں صرف گاد ہے، لیکن’اگر آپ اس کا رنگ دیکھیں تو یہ صرف گاد ہی نہیں بلکہ سیوریج بھی ہے، یہ کالا ہے، سب جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے…’

ولسن نے سوال کیا،’لوگ مر کیوں رہے ہیں؟’یہ الزام لگاتے ہوئے کہ دستی صفائی دہلی کے کئی حصوں میں موت کا باعث بن رہی ہے۔

اپوزیشن نے مذمت کی

پی ڈبلیو ڈی کی ان تصویروں پر اپوزیشن لیڈروں نے بھی سخت تنقید کی ہے۔

راشٹریہ جنتا دل کے ایم پی منوج جھا نے لکھا، ‘یہ خوفناک تصویریں ان لوگوں کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی ہیں جو ‘ڈبل/ٹرپل انجن’ والی حکومت کی شان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔’

عام آدمی پارٹی کے سابق ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی حکومت’ کی دلتوں اور غریبوں کا استحصال کرنے کی تاریخ رہی ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔’

پی ٹی آئی نے رپورٹ کیا کہ پی ڈبلیو ڈی نے ایک جونیئر انجینئر کو برخاست کر دیا، کیونکہ اس کی نگرانی میں مزدروں نے حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کیا تھا ۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

دو ہزار چھ کے ممبئی ٹرین دھماکے: جو برسوں پہلے جیل گئے یا بری کر دیے گئے، پولیس آج بھی ان کے خاندان کو ’تنگ‘ کرتی ہے

سال 2006کے ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں جن لوگوں کو عدالت نے مجرم قرار دیا  یا بری کر دیا ،  ان کے خاندانوں کو اب بھی پولیس کی مسلسل پوچھ گچھ اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بری کر دیے گئے لوگ بھی خود کوریاست کی نظر میں اب تک مجرم جیسا محسوس کرتے ہیں۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

ممبئی: 11 جولائی 2006 کو ممبئی ٹرین بلاسٹ معاملے میں مبینہ رول کی وجہ سے جب شیخ محمدعلی عالم شیخ کوگرفتار کیا گیا تھا، تب ان کے بچے اسکول میں پڑھتےتھے ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جب ممبئی کی اسپیشل مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) عدالت میں مقدمہ چلتا رہا ، تب مختلف محکموں کی پولیس ہر جمعرات کو علی کے گھر جا کر اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی تھی۔

‘میرے والد ان کی حراست میں تھے، پھر بھی وہ ہر ہفتے ہمارے گھر آتے اور فضول سوالات کرتے۔’ علی کے بیٹوں میں سےایک کہتے ہیں۔ 2015 میں جب مکوکا کورٹ نے علی اور دیگر 11 افراد کو مجرم قرار دیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی ۔ تب کہیں جاکر یہ دورے دھیرے دھیرے کم ہوگئے۔

لیکن تقریباً ایک دہائی بعد جب علی کے ایک بیٹے نے اپنی تعلیم مکمل کر کے شہر میں نوکری شروع کی، تو پولیس کے دورے دوبارہ شروع ہو گئے۔ ممبئی پولیس کمشنر کو دی گئی شکایت میں علی کی اہلیہ سعیدالنسا نے بتایا کہ کچھ نامعلوم پولیس اہلکار ان کے گھر آتے ہیں اور علی کے بارے میں پوچھتے ہیں، حالانکہ وہ گزشتہ 20 سال سے جیل میں ہیں۔

اب یہ ہراسانی مزید بڑھ گئی ہے – پولیس علی کے بیٹوں سے بھی رابطہ کرتی ہے اور ان سے بار بار وہی سوال کرتی ہے۔ علی کے بڑے بیٹے کہتے ہیں،’یہ  سوال  ہمیں سمجھ نہیں آتے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ پولیس کی طرف سے ایک اشارہ ہے کہ ہم ہمیشہ ان کی نگرانی میں ہیں۔’

پریشانیاں اور نگرانی

نگرانی صرف محمد علی کے خاندان تک محدود نہیں ہے۔ یہ کیس سے جڑے تقریباً ہر فرد تک پھیلا ہوا ہے، جن میں عبدالواحد شیخ بھی شامل ہیں — جنہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا اور 2015 میں رہا کر دیا گیا تھا۔

واحد شیخ اب جنوبی ممبئی کے ایک پرانے اردو اسکول میں استاد ہیں اور حال ہی میں انہوں نے قیدیوں کے حقوق پر پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا ہے۔ وہ بتاتے  ہیں کہ بری ہونے کے باوجود انہیں اور ان کے خاندان کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔

‘ہر چند دن بعد پولیس میرے دروازے پر دستک دیتی ہے یا مجھے فون کرتی ہے۔ میں سمن کے بغیر بات کرنے سے انکار کرتا ہوں – جو وہ کبھی نہیں لاتے۔’ شیخ کہتے ہیں۔

شیخ نے ہر بار کی اس طرح کی پولیس کارروائی کو دستاویزی شکل دی ہے اور بتاتے ہیں کہ انہوں نے کمشنر کے دفتر میں کتنی بار شکایت کی ہے اس کی گنتی بھی اب یاد نہیں ہے۔ شیخ مزیدکہتے ہیں،’شکایات اوپر تک جاتی ہیں، ہراسانی چند مہینوں کے لیے بند ہو جاتی ہے، پھر دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔’

شیخ نے نو سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا اور بری ہونے کے بعد سے وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے اس مقدمے میں سزا پانے والے 12 افراد بے قصور ہیں۔ انہوں نے ‘انوسنس نیٹ ورک’ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔

قصوروار ٹھہرائے گئے 12 لوگوں  میں سے 5 – کمال انصاری، محمد فیصل عطا الرحمان شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان اور آصف خان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ باقی سات افراد – تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد، مرغوب انصاری، مزمل عطا الرحمان شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیف الرحمان شیخ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سزا سنائے جانے کے فوراً بعد تمام مجرموں نے بامبے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ استغاثہ نے ان پانچوں مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کے لیے ایک اپیل بھی دائر کی ہے – جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کیس ‘ریئرسٹ آف دی ریئر’ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ان کے فیصلے اگلے ماہ متوقع ہیں۔

سال 2006 میں گرفتاری کے بعد سے تمام 12افرادجیل میں ہیں۔ انہیں گزشتہ دو دہائیوں میں صرف چند مواقع پر عارضی ضمانت دی گئی ہے، جیسے کہ جب کسی قریبی رشتہ دار کی موت ہوئی ہو۔ باقاعدہ پیرول یا چھٹی، جو عام طور پر قیدیوں کو ملتی ہے، عدالتوں کی طرف سے مسلسل مسترد کی جاتی رہی ہے۔

ہمیں سوالوں کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے

‘اتنے سالوں تک ان لوگوں کو حراست میں رکھنے کے بعد آپ اور کیا جاننا چاہتے ہیں؟’ ضمیر کے بڑے بھائی شریف پوچھتے ہیں۔

گرفتاری کے وقت ضمیر کی عمر 31 سال تھی اور اب وہ جلد ہی 50 سال کے ہو جائیں گے۔ 2006 کے سیریل بالسٹ کے واقعے میں قصوروار ٹھہرائے گئے ضمیر، جن پر 189لوگوں کی موت اور 824 کو زخمی کرنے کا الزام ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں صرف ایک بار جیل سے باہر آئے – وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے – جب چند سال قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ ‘اس کے باوجود پولیس آج تک ہمارے پاس آتی ہے اور اسی کیس کے بارے میں سوالات کرتی ہے جسے وہ خود پچھلے 20 سال سے دیکھ رہے ہیں۔’ شریف کہتے ہیں۔

پانچ سال پہلے تک شریف کے خاندان کو بھی پولیس کے ان بار بار دوروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ‘وہ ضمیر کے بارے میں پوچھتے تھے، پھر میری ذاتی زندگی کے بارے میں بھی۔ میں کئی سالوں تک صبروتحمل کا مظاہرہ کرتارہا، لیکن جب انہوں  ہماری بہنوں اور ان کے خاندان کے بارے میں جانکاری مانگنی شروع کی  تو میں نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا،’ وہ بتاتےہیں۔

شریف نے کرائم برانچ کے ایک سینئر افسر کے خلاف شکایت درج کرائی، جس کے باعث کچھ وقت کے لیے پولیس کا آنا بند ہو گیا۔ تاہم، گزشتہ ہفتے جمعہ (30 مئی) کو دو پولیس اہلکار سادہ لباس میں دوبارہ ان کے گھر آئے اور وہی پرانے سوالات کرنے لگے۔

ان بے بنیاد پوچھ گچھ کے ذریعے جہاں پولیس ان خاندانوں کو مسلسل ہراساں کرتی رہی ہے، وہیں کچھ پولیس اہلکار دی وائر سے بات کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کہا کہ وہ  توصرف ‘اوپر سے آنے والے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں۔’

‘ہمیں سوالات کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے، اور ہم صرف جا کر پوچھ لیتے ہیں،’ ٹرین بلاسٹ کے ایک مجرم کے گھر حال ہی میں گئے ایک سپاہی نے کہا۔

مسلسل ہراسانی

ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں قصوروار ٹھہرائے گئے افراد کے گھروں کا پولیس کا حالیہ دورہ شہر میں جاری پولیس کی وسیع تر پروفائلنگ مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

شیخ کا کہنا ہے کہ انہیں ممبئی کے مختلف حصوں سے ایسے لوگوں کے فون آتے ہیں جنہوں نے ممنوعہ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) یا دیگر دہشت گردی کے مقدمات میں ٹرائل کا سامنا کیا ہے، لیکن عدالتوں سے انہیں بری کر دیا گیا ہے۔ ‘وہ بحالی کے لیے کوئی ڈیٹا بیس تیار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہ ساری مشق بے گناہ لوگوں کے مجرمانہ پروفائل تیار کرنے کے لیے ہے۔ عدالت سے بری ہونے کے بعد بھی ریاست انہیں بے گناہ ماننے سے انکاری ہے۔’ شیخ نے اصرار کیا۔

اس طرح کی مسلسل ہراسانی سے تنگ آکر شیخ اور ان جیسے کئی دوسرے سابق قیدیوں نے اپنے گھروں کے ارد گرد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر وا دیے ہیں۔

سال 2023میں دی وائر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں  شیخ نے کہا  تھاکہ یہ مجبوری میں اپنایا گیا راستہ ہے تاکہ خود کو اور اپنے خاندان کو پولیس سے محفوظ رکھاجا سکے، اور سب سے اہم – کسی طرح کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا نہ  جا سکے۔ دی وائر نے ملک بھر میں کئی ایسے سابق قیدیوں کا انٹرویو کیا تھا، جنہوں نے پولیس کی مداخلت سے بچنے کے لیے اپنے گھروں میں کیمرے لگوائے ہیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ اکتوبر 2023 میں، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف ائی) سے منسلک ایک معاملے میں مشتبہ ہیں۔ بعد میں انہیں لکھنؤ بلایا گیا، پوچھ گچھ کی گئی اور چھوڑ دیا گیا۔ ‘لیکن انہوں نے میرے گھر پر اس طرح چھاپہ مارا جیسے میں شہر میں چھپا ہوا کوئی بڑا دہشت گرد ہوں۔’

برسوں پہلے، جب دہلی ٹربیونل – جو وقتاً فوقتاً سمی پر پابندی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا جاتا ہے – نے مہاراشٹر کا دورہ کیا تھا، تب  ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ شیخ سمی کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ انہیں ‘دہشت گردی کے معاملے میں قصوروار’ بھی کہاگیا، جو مکمل طور پر غلط تھا۔ شیخ کو اس غلط معلومات کو ہٹوانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ جانا پڑا۔

‘عدالت نے مجھے تمام الزامات سے بری کر دیا ہے، میرے خلاف کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں ہے، پھر بھی ریاست مجھے ایک قانونی شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے’۔ شیخ کہتے ہیں۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

مولانا آزاد فیلو شپ کی ادائیگی میں تاخیر، اقلیتی طلبہ پریشان

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کے تحت پی ایچ ڈی کر رہے اقلیتی کمیونٹی کے سینکڑوں ریسرچ اسکالرکو دسمبر 2024 سے اب تک اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔ یہ اسکالرشپ وزارت اقلیتی امور کی طرف سے دی جاتی ہے۔ طلبہ کا الزام ہے کہ حکومت جان بوجھ کر اسکالر شپ روک رہی ہے۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔

نئی دہلی: مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ پر انحصار کرنے والے پی ایچ ڈی اسکالر ایک بار پھر اسکالرشپ کی ادائیگی میں تاخیر کے مسئلےسے دوچار ہیں۔ زیادہ تر ریسرچ اسکالر کو دسمبر 2024 سے اب تک (مئی 2025) تک اپنا وظیفہ نہیں ملا ہے۔ کچھ طلبہ کو اس سے پہلے کا وظیفہ بھی نہیں ملا ہے۔

وزارت اقلیتی امور کے زیر انتظام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ان ریسرچ اسکالر کو مالی مدد فراہم کرتی ہے، جو ہندوستان میں چھ مطلع شدہ اقلیتی برادریوں (مسلم، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ادائیگی میں تاخیر کے باعث اس اسکالرشپ پر انحصار کرنے والے طلبہ کو مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کچھ طلبہ قرض لے کر کام چلا رہے ہیں۔ تحقیقی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کتابوں اور فیلڈ ورک کے لیے پیسے نہیں بچے ہیں۔

حکومت کی خاموشی کو دیکھتے ہوئےطلبہ کو لگتا ہے کہ اس فیلوشپ کو جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے۔  کچھ طلبہ نے دعویٰ کیا کہ وزارت کے حکام نے انہیں فیلوشپ چھوڑنے اور کسی اور اسکیم کے لیے درخواست دینے کا مشورہ دیا  ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر تین ممبران پارلیامنٹ (ضیاء الرحمن- سنبھل، محمد جاوید- کشن گنج اور ٹی سمتی- چنئی ساؤتھ) نے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو کو خط لکھ کر فوری نوٹس لینے کو کہا ہے۔

پانچ سال تک ملنے والی اس اس اسکالرشپ کے پہلے دو سال کوجے آر ایف (جونیئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 37000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ آخری تین سالوں کو ایس آر ایف (سینئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 42000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔   دسمبر 2023 میں اس فیلوشپ سے مجموعی طور پر 1466 طلبہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ان میں سے جے آر ایف پانے والوں کی تعداد 907 تھی اور ایس آر ایف پانے  والوں کی تعداد 559 تھی۔

سال 2022-23 میں حکومت نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا تھا۔ 2025-26 کے بجٹ میں  مرکزی حکومت نے اس فیلوشپ کے لیے مختص رقم کو 4.9 فیصد کم کر دیا تھا، یعنی 45.08 کروڑ روپے سے کم کر کے 42.84 کروڑ روپے کر دیا تھا۔

طلبہ کی پریشانی

دی وائر نے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ سے بات کی ہے۔ کولکاتہ کی پریسیڈنسی یونیورسٹی میں ہندی ڈپارٹمنٹ کے ریسرچ اسکالر کالو تمانگ کہتے ہیں، ‘میں تقریباً چھ ماہ سے اس پریشانی سےدوچار ہوں۔ مالی بوجھ کی وجہ سے تحقیق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔’ تمانگ کو اس فیلوشپ کے لیے سال 2021 میں منتخب کیا گیا تھا۔ تمانگ بدھ مت سے آتےہیں۔ کرن رجیجو سے ان کا مطالبہ ہے کہ فیلو شپ کو جلد از جلد ریلیزکیا جائے۔

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا، ‘پی ایچ ڈی کا چوتھا سال چل رہا ہے اور فیلوشپ آنا بند ہو گئی ہے۔ مالی مشکلات نے ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ میں نے دوستوں سے پیسے ادھار لیے اور یہ کہہ کر ٹال رہا  ہوں کہ آج کل  میں ادا کروں گا۔’

یہ ریسرچ اسکالر نارتھ -ایسٹ کا رہنے والا ہے اور اس کا تعلق بدھ کمیونٹی سے ہے۔

رضیہ خاتون، جو کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، نے کہا کہ باربار فریادکرنے کے باوجود حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہے۔ ‘متعدد طلبہ  کو مسلسل مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ مسلسل تناؤ کی وجہ سے میری طبعیت خراب ہو چکی ہے۔’

منی پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی سلیمہ سلطان کو بھی دسمبر 2024 سے فیلوشپ نہیں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ‘مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادری کے طلبہ کے لیے واحد امید ہے۔ اس سے ہم اپنی تحقیق کے اخراجات کو پورا کر تے ہیں۔ ہماری اکیڈمک زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ فیلو شپ طلبہ کا حق ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیلو شپ کو دیگر فیلوشپ کی طرح احسن طریقے سے چلایا جائے۔’

طلبہ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی فیلو شپ آنے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔ لیکن پہلے اس کی وجہ پہلے بتائی جاتی تھی۔ اس بار ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس تذبذب کی وجہ سے طلبہ زیادہ پریشان  ہیں۔

اقلیتی امور کی وزارت نے زیر التواء فیلوشپ کے جاری ہونے کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔

طلبہ کی ناکام کوششیں

فیلو شپ ریلیز کرنے کی مانگ کو لے کر طلبہ کا ایک گروپ 15 مئی کو اقلیتی امور کی وزارت کے پاس گیا تھا۔ جامعہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے بتایا کہ حکام نے ان سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر نے آر ٹی آئی کے ذریعے جاننا چاہا کہ اسکالرشپ کب جاری کی جائے گی، لیکن وزارت نے واضح  جواب نہیں دیا۔

آر ٹی آئی کا جواب: وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ وظیفہ کب دیا جائے گا۔

یہ فیلوشپ کس کو ملتی ہے؟

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادریوں کے ان طلبہ کو دی جاتی ہے جو ہندوستانی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے قومی اہلیت ٹیسٹ (نیٹ) پاس کرنا لازمی ہے۔ یہ فیلو شپ ان محققین کو دی جاتی ہے جن کے خاندان کی سالانہ آمدنی چھ لاکھ روپے سے کم ہو۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ وزارت اقلیتی امور کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اکتوبر 2022 سے اس کی نوڈل ایجنسی قومی اقلیتی ترقی اور مالیاتی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) ہے۔ یہ زیر التواء ادائیگی اور انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ پہلے یہ ذمہ داری یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) کے پاس تھی۔ طلبہ کا خیال ہے کہ رفاقت یو جی سی کے تحت زیادہ آسانی سے چل رہی تھی۔

‘یو جی سی کے ساتھ اچھی بات یہ تھی کہ اگر فیلوشپ میں تاخیر ہوتی ہے تو وہ اس کی وجہ بتاتی تھی اور جانکاری شیئر کرتی ۔ لیکن این ایم ڈی ایف سی ہاتھ کھڑے کر دیتی  ہے،’ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے کہا۔

این ایم ڈی ایف سی اور وزارت کیا کہتے ہیں؟

دی وائر نے وظیفہ میں تاخیر کی وجہ جاننے کے لیےاین ایم ڈی ایف سی کے ڈپٹی جنرل منیجر (پلاننگ)/کمپنی سکریٹری نکسن ماتھ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا کام پیسہ تقسیم کرنا ہے۔ لیکن وزارت سے فنڈہی نہیں آیا ہے۔ معاملہ ابھی پروسس میں ہے۔ فنڈز آتے ہی طلبہ کو فیلوشپ مل جائے گی۔’ ماتھر نے یہ بھی بتایا کہ آخری بار وزارت سے فنڈ اکتوبر-نومبر 2024 میں آیا تھا۔

دی وائر ہندی جوائنٹ سکریٹری (ایجوکیشن) رام سنگھ سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ وزارت فنڈ جاری میں کیوں تاخیر کر رہی ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت میں کام کر رہے رام سنگھ پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیموں، پڑھو پردیش اور مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کا جواب ابھی تک نہیں آیا ہے۔

ایک بندہوچکی اسکیم: مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اقلیتی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینا اور ان کی راہ میں مالی رکاوٹوں کو کم کرنا تھا۔

لیکن دسمبر 2022 میں حکومت ہند نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا۔ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں اقلیتی امور کی وزارت نے واضح طور پر کہا تھا ، ‘چونکہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) اسکیم اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت سی دیگر فیلوشپ اسکیموں سے اوورلیپ ہے، اس لیے حکومت نے اسے 2022-23 سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’

تاہم، اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ‘جو طلبہ پہلے سے ہی یہ فیلوشپ حاصل کر رہے ہیں وہ مقررہ مدت تک اسے حاصل کرتے رہیں گے۔’ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی نوڈل ایجنسی این ایم ڈی ایف سی نے بھی اپنے نوٹس میں اس کا ذکر کیا تھا۔

Next Article

گھر-گھر سیندور بانٹنے کے منصوبے پر ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنے والی بی جے پی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا

اس ہفتے کی شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بی جے پی گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے ایک پروگرام کے تحت ہر گھر خواتین کو سیندوربھیجے گی۔ اس پرسخت تنقید کا سامنا کرنے کے چند دنوں بعد پارٹی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا ہے۔

بی جے پی رہنما اگنی مترا پال اور بنگا ناری شکتی کے دیگر اراکین کولکاتہ میں ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کا جشن منانے کے لیے ‘ابھینندن یاترا’ میں شرکت کرتے ہوئے۔ (تصویر؛پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعہ (30 مئی) کو اس بات کی تردید کی کہ پارٹی ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کو عوام کے درمیان پہنچانے کے اپنے منصوبے کے تحت خواتین کو سیندور تقسیم کرے گی۔ پارٹی نے اس سلسلے میں شائع ہونے والی خبروں  کو ہی  ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ خبر اس وقت آئی، جب بی جے پی نے گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے آؤٹ ریچ پروگرام کا اعلان کیا، جو  9  جون کو شروع ہونے والا ہے۔ اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تیسری مدت کے لیے حلف لیا تھا۔

اگرچہ پارٹی نے اپنے منصوبوں کی کوئی تفصیلات باضابطہ طور پر شیئر نہیں کی ہیں، لیکن بتایا گیا ہے کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس پروگرام میں مرکزی وزراء اور ممبران پارلیامنٹ سمیت بی جے پی قیادت کی ‘پدایاترا’ کا منصوبہ ہے، جس میں دیگر حصولیابیوں کے علاوہ آپریشن سیندور اور ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں مرکز کے فیصلے پر روشنی ڈالی جائے گئی۔

معلوم ہو کہ اس ہفتے کی  شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت بی جے پی ہر گھر خواتین کو سیندور بھیجے گی اور مرکزی حکومت کی حصولیابیوں کو اجاگر کرنے والے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جائیں گے۔

تاہم، بی جے پی نے اب اس کی تردید کی ہے اوردینک بھاسکر کی رپورٹ کو اپنے آفیشل ہینڈل سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرتے ہوئے، اسے ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

اس میں لکھاگیا ہے، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی یہ خبر پوری طرح سے جھوٹی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گھر گھر جا کر سیندور بانٹنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھا ہے۔’

بی جے پی کی جانب سے سیندور بانٹنے کی منصوبہ والی کی خبروں پر اپوزیشن نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے سیندور بانٹنے کے منصوبے کی خبروں پر اپوزیشن لیڈروں نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔

کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے اس رپورٹ کو پارٹی کی طرف سے ‘اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے’ کی کوشش قرار دیا۔

دی ہندو کے مطابق، کانگریس ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، ‘یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ مودی حکومت اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے کے لیے سیندور کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت مسلح افواج کی جاں بازی اور بہادری کا کریڈٹ لینے کے لیے کس حد تک گر سکتی ہے؟’

راگنی نائک نے دعویٰ کیا، ‘جب نریندر مودی ملک کے ہر ضلع اور ہر کونے میں آپریشن سیندور کے بڑے بڑے پوسٹر لگانے سے مطمئن نہیں ہوئے، جن پر ان کی تصویر لگی ہوئی تھی،فوج کی وردی پہنے ہوئے… اب بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ گھر- گھر جا کر ‘سیندور’ تقسیم کرے گی۔’

معلوم ہو کہ حالیہ دنوں میں بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کو آپریشن سیندور کی واضح سیاست کاری  کو لے کر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دریں اثنا، بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ان رپورٹوں کی تردید کی ہے، اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ‘بے بنیاد رپورٹ کو سیاست کے لیے ٹرول کی طرح استعمال کر رہی ہیں’اور اسے سامنے لانے کے لیے کانگریس  کے ترجمان کو ‘ہلکے لوگ’ کہا ہے۔

مالویہ نے ایکس پر لکھا، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی اس فرضی خبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اصل مضحکہ خیزی اس وقت شروع ہوئی جب مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے آفیشیل سرکاری پلیٹ فارم سے اس بے بنیاد رپورٹ پر سیاست کرنا شروع کر دی۔’

انہوں نے کہا، ‘ممتا بنرجی کو اپنی ریاست کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے اور قومی سلامتی جیسے حساس مسائل پر مضحکہ خیز بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ مغربی بنگال فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جل رہا ہے، خواتین محفوظ نہیں ہیں، بے روزگاروں کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے – یہ ممتا بنرجی کی ترجیحات ہونی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘جہاں تک کانگریس کے ترجمانوں کا تعلق ہے – وہ ہلکے لوگ ہیں۔ ان سے بہتر کی توقع رکھنا بے معنی ہوگا۔’

اگرچہ بنرجی نے اس رپورٹ کا براہ راست حوالہ نہیں دیا تھا، لیکن انہوں نے پی ایم مودی پر آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی ‘ کھیلنے کا الزام لگایا اور پوچھا تھاکہ وہ اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف  کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی طرف سے  یہ  عوامی طور پر پہلی مذمت تھی۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

بنرجی نے کہا، آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ ‘

دریں اثنا، کانگریس کی ترجمان سپریا شرینتے نے بھی مالویہ کے تبصروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی تنقید کی وجہ سے اپنی مہم واپس لینے پر مجبور ہوئی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا،’اب وہ سستی اسکیم کو فرضی خبربتارہے ہیں ۔’

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ دو ہفتوں میں کئی ریلیوں اور عوامی جلسوں سے خطاب کیا ہے، جہاں انہوں نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے سیندور لفظ  کااستعمال کیا ہے۔

تاہم، انہوں نے ابھی تک اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ پہلگام حملے کے مجرم ابھی تک کیوں نہیں پکڑے گئے، یا حملے کی تحقیقات کی کہاں تک پہنچی ہے۔