سپریم کورٹ ہندی کے علاوہ جن زبانوں میں اپنے فیصلوں کا ترجمہ دستیاب کرائےگا ان میں آسامی، کنڑ، مراٹھی، اڑیہ اور تیلگو شامل ہیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ وہ اس مہینے کے آخر سے اپنے فیصلوں کو اپنی سرکاری ویب سائٹ پر علاقائی زبانوں میں بھی مہیا کرائےگا۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو علاقائی زبانوں میں دستیاب کرانے کی مانگ کافی لمبے وقت سے کی جا رہی تھی۔ہندوستان ٹائمس کی خبر کے مطابق، موجودہ روایت کے مطابق فیصلوں کو انگریزی میں لکھا جاتا ہے اور اسی طرح سے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا جاتا ہے۔
فیصلوں کو علاقائی زبانوں میں دستیاب کرانے کا مقصد یہ ہے کہ عرضی گزار اپنے فیصلوں کی نوعیت بنا وکیلوں کی مدد کے بھی معلوم کر سکیں۔اس انتظام کی شروعات فیصلوں کو ہندی کے ساتھ چھے علاقائی زبانوں میں دستیاب کرانے کے ساتھ ہوگی۔ اس میں ہندی کے علاوہ آسامی، کنڑ، مراٹھی، اڑیہ اور تیلگو شامل ہیں۔
اس پورے معاملے پر سپریم کورٹ رجسٹری کے افسروں نے کہا کہ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اس بارے میں سپریم کورٹ کی انٹرنل الیکٹرانک سافٹ ویئر برانچ کے ذریعے تیار دیسی ترقی یافتہ سافٹ ویئر کے استعمال کی منظوری دے دی۔نام نہ بتانے کی شرط پر رجسٹری کے افسر نے کہا، ‘ فیصلوں کو علاقائی زبانوں میں دستیاب کرانے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ کئی مدعی سپریم کورٹ کے دفتر پہنچکر فیصلوں کی آخری کاپی ان زبانوں میں مانگتے تھے جن کو وہ بولتے یا پڑھتے ہیں۔ ہر عرضی گزار انگریزی میں پڑھ یا لکھ نہیں سکتا ہے۔ ‘
سپریم کورٹ میں مختلف ریاستوں سے آنے والی درخواستوں کی تعداد کی بنیاد پر ان چھے زبانوں میں فیصلوں کو دستیاب کرانا طے کیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں ان زبانوں کی تعداد بڑھائی جائےگی۔اس عمل سے واقف ایک دیگر افسر نے کہا کہ اس سے متعلق ویب سائٹ میں جلد تبدیلی کر لی جائے گی اور علاقائی زبانوں میں فیصلوں کو اس مہینے کے آخر تک ڈال دیا جائےگا۔
حالانکہ، انگریزی میں لکھے ہوئے حکم جس دن پاس ہوتے ہیں اسی دن ویب سائٹ پر ڈال دئے جاتے ہیں جبکہ ترجمہ کیے گئے حکم ایک ہفتے بعد دستیاب ہو سکیںگے۔ذاتی مقدموں جیسے کہ سول تنازعہ، مجرمانہ معاملے، مکان مالک-کرایہ دار تنازعہ، ازدواجی معاملے وغیرہ سے متعلق احکامات کو ترجمہ کے لئے ترجیح دی جائےگی۔غور طلب ہے کہ، اکتوبر، 2017 میں صدر جمہوریہ رامناتھ کووند نے مشورہ دیا تھا کہ ایسے انتظام کئے جانے کی ضرورت ہے، جہاں ہائی کورٹ کے ذریعے مقامی یا علاقائی زبانوں میں فیصلوں کے تصدیق شدہ ترجمہ کی کاپیاں دستیاب کرائی جائیں۔
انہوں نے کہا تھا، ‘ یہ اہم ہے کہ نہ صرف لوگوں کو انصاف ملے بلکہ فیصلوں کو فریق کے لئے اس زبان میں سمجھنے لائق بنایا جانا چاہیے جس کو وہ جانتے ہیں۔ کورٹ انگریزی میں فیصلہ دیتی ہے لیکن ہمارے ملک میں مختلف زبانیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فریق انگریزی زبان میں اتنے ماہر نہیں ہوں اور وہ فیصلے کے اہم پوائنٹس کو سمجھ پائیں۔ ایسا ہونے پر عرضی گزاروں کو وکیلوں یا فیصلے کا ترجمہ کرنے والے دیگر افراد پر منحصر رہنا ہوگا۔ اس سے وقت اور خرچ بڑھ سکتا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا تھا، ‘ فیصلہ سنائے جانے کے بعد 24 یا 36 گھنٹے میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ معزز کیرل ہائی کورٹ میں زبان ملیالم یا معزز پٹنہ ہائی کورٹ میں ہندی ہو سکتی ہے،یا جیسا معاملہ ہو۔’