پلواما حملے کے بعد گزشتہ 3 اپریل کو جموں و کشمیر حکومت نے لوک سبھا انتخابات کے دوران سکیورٹی فورسز کی آمد ورفت کے مدنظر ہفتے میں دو دن قومی شاہراہ نمبر 44 پر شہریوں کی آمدورفت پر پابندی لگا دی ہے۔ سپریم کورٹ میں داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ ایسا قدم کارگل جنگ کے وقت بھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں قومی شاہراہ (این ایچ) پر شہریوں کی آمدورفت پر پابندی کو لےکر سوموار کو مرکز کی مودی حکومت اور ریاستی حکومت سے جواب مانگا۔ادھم پور سے بارہمولہ تک قومی شاہراہ پر سکیورٹی فورسز کی آمد ورفت کے لئے ہرایک ہفتے میں دو دن شہریوں کی آمدورفت پر پابندی لگانے سے متعلق ایک حکم کو خارج کئے جانے کی درخواست کو لےکر دائر ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکز اور جموں و کشمیر حکومت سے جواب مانگا ہے۔
ریاستی حکومت نے تین اپریل کو ایک حکم جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پلواما دہشت گردانہ حملے، بنیہال میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک دیگر کار بم حملے اور لوک سبھا انتخابات کے دوران سکیورٹی فورسز کی آمد ورفت کے مدنظر ایک ہفتے میں دو دن صبح چار سے شام پانچ بجے تک قومی شاہراہ نمبر 44 پر شہریوں کو آمدورفت کی اجازت نہیں ہوگی۔
حکم میں کہا گیا تھا کہ بارہمولہ سے ادھم پور تک کی قومی شاہراہ کو 31 مئی تک ہر ہفتے میں اتوار اور بدھ کو شہریوں کی آمدورفت کو بند کر دیا جائےگا۔تین اپریل کے اس حکم کو چیلنج دینے والی ایک عرضی سوموار کو سماعت کے لئے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی ایک بنچ کے سامنے آئی۔جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ بھی اس بنچ میں شامل تھے۔
بنچ نے کہا کہ رٹ عرضی پر نوٹس جاری کر کے دو ہفتے کے اندر جواب مانگے گئے ہیں۔ یہ عرضی ریاست کی سیاسی پارٹی ‘ عوامی نیشنل کانفرنس ‘ کے سینئر نائب صدر مظفر شاہ اور سماجی کارکن یاسمین ثنااللہ نے دائر کی تھی۔وکیل سہیل ملک کے ذریعے دائر عرضی میں کہا گیا ہے، ‘ اس حکم کا مطلب ہر ہفتے وادی میں دو دنوں تک بلاواسطہ بند ہے جس سے ہر گھنٹے چلنے والی 10000 گاڑیاں براہ راست متاثر ہوںگے جس میں مریضوں، طلبا، سیاحوں، کاروباریوں اور سرکاری افسروں کو لے جانے والی گاڑی بھی شامل ہیں۔ ‘
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ہائی وے پر 270 کلومیٹر تک شہریوں کی آمدورفت پر پابندی بے مطلب اور ظالمانہ فیصلہ ہے۔ اس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اقتصادی اور سماجی طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔درخواست گزاروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس غیر منطقی، انتقامی اور سخت فیصلہ کی وجہ سے دفتر، اسکول، کالج، بینک، ایئر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن بھی ہفتے میں دو دن بند رکھنے پڑ رہے ہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا سخت قدم تو سال 1999 میں کارگل جنگ کے دوران بھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ شاہراہ پر شہریوں کی آمدورفت پر پابندی سے ریاست کی سیاحتی صنعت پر مہلک اثر ہوگا اور یہ کشمیر کے لوگوں کے لئے ایک اجتماعی سزا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)