اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی جانب سے الیکشن کمیشن کو الیکٹورل بانڈ کے دو سیٹ دستیاب کرائے گئے ہیں، جن میں بانڈ خریدنے والی کمپنیوں اورانہیں کیش کرانے والی سیاسی جماعتوں کی فہرست ہے، لیکن کسی بھی فہرست میں بانڈ نمبر دستیاب نہیں کرائے جانے کی وجہ سے اس کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہےکہ کون سی کمپنی یا شخص کس سیاسی جماعت کو چندہ دے رہا تھا۔
تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons
نئی دہلی: اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کی جانب سے الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو سونپے گئے الیکٹورل بانڈ کے ڈیٹا میں بانڈ نمبر جاری نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے جمعہ (15 مارچ) کی صبح بینک کو نوٹس جاری کیا۔ الیکشن کمیشن نے ایک دن پہلے ہی جمعرات کو موصولہ ڈیٹا کو پبلک کیا تھا۔
دی وائر نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ای سی آئی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ڈیٹا کی نوعیت سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا بانڈ خریدنے والی کمپنیوں اور مختلف حکومتوں کے درمیان کوئی لین دین ہوا تھا۔ کمیشن نے
ڈیٹا کے دو سیٹ اپ لوڈ کیے ہیں ۔ ایک فائل میں کمپنیوں کے ذریعے بانڈ کی خریداری کی تاریخ وار فہرست ہے اور دوسری فائل میں بانڈ کو کیش کرانے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ڈپازٹ کی تاریخ وار فہرست ہے۔ کسی بھی فہرست میں بانڈ نمبر فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے اس بات کی تصدیق ممکن نہیں کہ کون سی کمپنی یا فرد کس پارٹی کو چندہ دے رہا تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے ڈیٹا کی اس عدم دستیابی پر ایس بی آئی کے نمائندے سے جواب طلب کیا، جو عدالت میں موجود نہیں تھے۔ عدالت ان دستاویزوں کی واپسی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی جو ایک سیل بند لفافے میں عدالت کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔ لائیو لاء کے مطابق، اس پر سی جے آئی نے کہا: ‘ہم دفتر سے ڈیٹا کو اسکین اور ڈیجیٹائز کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں، اس میں ایک دن لگ سکتا ہے… جیسے ہی ڈیٹا اسکین کر لیا جائے گا، اصل ڈیٹاای دی آئی کو واپس کر دیا جائے گا۔ ‘
اس کے بعد، سی جے آئی نے خود ایس بی آئی کے جاری کردہ ڈیٹا کے مکمل نہ ہونے کا مسئلہ اٹھایا۔ لائیو لاء کے مطابق، انہوں نے کہا، ‘ایس بی آئی کی جانب سے کون پیش ہو رہا ہے؟ انہوں نے بانڈ نمبر کا انکشاف نہیں کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو اس کا انکشاف کرنا چاہیے۔ ایس بی آئی کو تمام تفصیلات شائع کرنا چاہیے۔’
سینئر وکیل کپل سبل نے عدالت کے پرانے فیصلے کا آپریٹو حصہ پڑھا، جس میں کہا گیا تھا کہ تمام متعلقہ تفصیلات ایس بی آئی کو شائع کرنی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکٹورل بانڈ اسکیم کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ووٹرز کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کیا حکمران پارٹیوں اور کاروباری گھرانوں یا کارپوریٹ مفادات کے درمیان کوئی باہمی لین دین ہوا ہے۔
جیسا کہ
دی وائر نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ الیکٹورل بانڈ کے بڑے خریداروں کے طور پر لسٹ کئی کمپنیاں مرکزی ایجنسیوں کی جانچ کے دائرے میں ہیں اور انہیں درج معاملوں اور چھاپوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دیگر رپورٹس ممیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ کمپنیوں نے اپنے سالانہ منافع سے کہیں زیادہ مالیت کے الیکٹورل بانڈ خریدے تھے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔