بلقیس بانو نے اپنی عرضی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کی مانگ کی تھی، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی سزاپر کا فیصلہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان کی دلیل تھی کہ سپریم کورٹ کا یہ خیال کہ مجرموں کورہا کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے گجرات میں ایک ‘مناسب حکومت’ ہے ضابطہ فوجداری کی دفعات کے خلاف ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سنیچر کو بلقیس بانو کی جانب سے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ان کے ساتھ ہوئے گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے مجرم 11 افراد کو رہا کرنے کے لے اپنی معاف کرنے کی پالیسی کا استعمال کرنے کی گجرات حکومت کے اختیار کے خلاف دائر ریویو پٹیشن کو خارج کر دیا۔
مجرموں کی رہائی کو چیلنج کرنے والی ان کی عرضی زیر التوا ہے۔
ضابطہ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ متعلقہ فیصلہ سنانے والے جج اپنے چیمبر میں کرتے ہیں۔
یہ عرضی 13 دسمبر کو جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ کے سامنے چیمبر میں غور کرنے کے لیے آئی تھی۔
بلقیس بانو کی وکیل شوبھا گپتا کو عدالت عظمیٰ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی طرف سے بھیجے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ،مجھے آپ کو مطلع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں دائرمذکورہ نظر ثانی کی عرضی 13 دسمبر 2022 کو خارج کر دی گئی۔
بلقیس نے ایک مجرم کی عرضی پر سپریم کورٹ کے 13 مئی کے حکم پر نظرثانی کی درخواست کی تھی۔
سپریم کورٹ نے گجرات حکومت سے کہا تھا کہ وہ 9 جولائی 1992 کی پالیسی کے تحت مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی مانگ والی عرضی پر دو ماہ کے اندر غور کرے۔
بلقیس بانو نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ خیال کہ مجرموں کی رہائی کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک گجرات میں ‘مناسب حکومت’ ہے ضابطہ فوجداری کی دفعات کے خلاف ہے۔
بلقیس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 432(7)(بی) کا حوالہ دے رہی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ جس ریاست کے اندر مجرم کو سزا سنائی گئی ہے اسی ریاست کی حکومت کو معافی پر بھی غور کرنا ہوگا۔ دراصل مجرموں کو مہاراشٹر کی ایک عدالت نے سزا سنائی ہے۔
انہوں نے دلیل دی تھی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات کے پیش نظر معافی کی درخواست پر مہاراشٹر حکومت کوسماعت کرنی چاہیے تھی۔
مئی 2022 میں اسی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ گجرات حکومت کے پاس معافی ٰ کی درخواست پر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کیونکہ یہ جرم گجرات میں ہوا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) لیڈر سبھاشنی علی، آزاد صحافی ریوتی لال اور لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما کی طرف سے قصورواروں کی رہائی کے خلاف ایک پی آئی ایل دائر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں گجرات حکومت سے جواب طلب کیا تو ریاستی حکومت نے کہا تھاکہ قصورواروں کو مرکز کی منظوری سے رہا کیا گیا۔ گجرات حکومت نے کہا تھا کہ اس فیصلے کو مرکزی وزارت داخلہ نے منظوری دی تھی، لیکن سی بی آئی، اسپیشل کرائم برانچ، ممبئی اور سی بی آئی عدالت نے سزا معافی کی مخالفت کی تھی۔
اپنے حلف نامے میں حکومت نے کہا کہ ،ان کا [مجرموں کا] سلوک اچھا پایا گیا تھا، اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ قید میں چودہ سال گزار چکے تھے۔
تاہم، ‘اچھے سلوک’ کی وجہ سے رہا ہونے والے مجرموں پر پیرول کے دوران کئی الزام لگے تھے۔
ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ، 2002 کے گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور اس کے خاندان کے افراد کے قتل کے 11 قصورواروں میں سے کچھ کے خلاف پیرول پر باہر رہتے ہوئے ‘عورت کی توہین’ کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی اور دو شکایتیں بھی پولیس کو موصول ہوئی تھیں۔ ان پر گواہوں کو دھمکانے کا الزام بھی لگاتھا۔
دریں اثنا، مجرموں میں سے ایک رادھے شیام شاہ نے سزا معافی کے خلاف دائر عرضیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے اس کو ‘غیر عملی اور سیاسی’ بتایا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ اسی رادھے شیام شاہ پر کچھ دن پہلے کیس کے ایک اہم گواہ کو دھمکانے کا بھی الزام لگاتھا۔ اس کیس کے کلیدی گواہ امتیاز گھانچی نے اس سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کو خط لکھا تھا جس میں اپنی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
گھانچی نے اپنی جان کو لاحق خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے گجرات کے ہوم سکریٹری اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی ایک کاپی بھیجی تھی۔
گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے چندر سنگھ راؤل جی گجرات حکومت کی اس کمیٹی کے چار ارکان میں سے ایک تھے جس نے بلقیس بانو کے ساتھ ریپ اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے 11 مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اتنا ہی نہیں، راؤل جی نےبےحد متنازعہ تبصرہ کرتے ہوئے اس فیصلے کادفاع بھی کیاتھا۔
ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا تھاکہ 2002 کے گجرات فسادات کے اس معاملے میں قصورواروں میں شامل کچھ لوگ’برہمن’ ہیں جن کے اچھے ‘سنسکار’ ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ان کو پھنسایا گیا ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بے گناہ ہوں کیوں کہ فرقہ وارانہ صورتحال میں ایک کمیونٹی کی طرف سے دوسری کمیونٹی کے بے گناہ لوگوں کو پھنسانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جیل میں قیدیوں کا برتاؤ اچھا تھا۔
راؤل جی چھ بار گودھرا سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور اس بار بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر گودھرا سے ہی میدان میں ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے بھی مجرموں کے دفاع میں ایک بیان میں کہا تھا کہ انہیں اچھے برتاؤ کی وجہ سے رہا کیا گیا تھا۔
ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے سے بات کرتے ہوئے، پارلیامانی امور اور کوئلہ کے وزیر نے کہا، جو بھی ہوا ہے، وہ قانون کے اہتماموں کے مطابق ہوا ہے۔ کسی بھی شخص کو ایک خاص وقت جیل میں گزارنے کے بعد رہا کرنے کا اہتمام ہے۔ اس معاملے میں وہی قاعدہ اختیار کیا گیا ہے جو پوری طرح سے قانون کے مطابق ہے۔
غورطلب ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔
تین مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔
بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔
خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔
بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت کرناہے۔
اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)