آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ہٹاتے ہوئے جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے گزشتہ سال پانچ اگست کے فیصلے کےبعد سے ہی سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ حراست میں ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے بدھ کو مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے کہا کہ وہ اگلے ہفتہ بتائیں کہ کیا سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو رہا کیا جارہا ہے۔آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کر کےجموں و کشمیرکا خصوصی درجہ ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے گزشتہ سال پانچ اگست کے فیصلے کے بعد سےہی عمر عبداللہ حراست میں ہیں۔
جسٹس ارون مشرا اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے مرکز کی طرف سے پیش وکیل سے کہا کہ اگر عبداللہ کو جلد رہا نہیں کیا گیا تو وہ اس نظربندی کے خلاف ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ کی ہیبیس کارپس کی عرضی پر سماعت کرےگی۔بنچ نے کہا، اگر آپ ان کو رہا کر رہے ہیں تو جلدی کیجیے نہیں توہم اس معاملے کی معیار کی بنیاد پر سماعت کریںگے۔
ینچ نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جب مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ کےوکیل نے مطلع کیا کہ اس معاملے میں پیش ہو رہے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ اس وقت دوسری عدالت میں بحث کر رہے ہیں۔درخواست گزار کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل نے بنچ سے اپیل کی کہ اس معاملے کی سماعت کے لئے کوئی قریب کی تاریخ طے کی جائے۔
اس پر بنچ نے کہا کہ موجودہ نظام کی وجہ سے اس وقت عدالت میں صرف چھ بنچ کام کر رہی ہیں اور اس کو نہیں معلوم کب اگلی باری آئےگی۔بنچ نے کہا، ممکنہ طورپر اگلے ہفتہ ہم بیٹھ رہے ہیں اور اس معاملے کو اس وقت لیا جا سکتا ہے۔
سارہ عبداللہ پائلٹ نے اس عرضی میں جموں و کشمیرپبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے)کے تحت عبداللہ کو نظربند کرنے کے حکم کو چیلنج دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بھائی کے مصدقہ فیس بک اکاؤنٹ کی چھان بین کرنے پر یہ دیکھکر حیرت زدہ رہ گئیں کہ جن سوشل میڈیا پوسٹ کو ان کا (عمر کا)بتایا گیا ہے اور خطرناک طریقے سے جس کا ان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے، وہ ان کانہیں ہے۔
اپنی عرضی پر جموں و کشمیر انتظامیہ کے جواب کے جواب الجواب میں سارہ نے کہا، اس بات سے انکار کیا جاتا ہے کہ حراست میں بند شخص کی محض موجودگی اور آرٹیکل 370 کو رد کرنے بھر سے عوامی نظم ونسق قائم رکھنے میں خطرہ ہے۔پیش رو جموں و کشمیر ریاست میں لوگوں کی جان جانے کے بارے میں حقیقی اعداد و شمارموجودہ تنازعہ کے مقاصد کے لئے پوری طرح سے غیر مناسب ہیں۔
سارہ عبداللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ عبداللہ کے مصدقہ فیس بک اکاؤنٹ سے کوئی پوسٹ نہیں کیا گیا ہے، جیسا کہ جن مواد پر بھروسہ کیا گیا ہے اس میں دعویٰ کیاگیا ہے۔
انہوں نے اپنے جواب میں کہا، دراصل موجودہ معاملے کی حقائق اورصورتحال جس میں حراست میں لیے گئے شخص کے خلاف استعمال کیا گیا واحد مواد ان کے سوشل میڈیا پوسٹ ہے۔ جن پوسٹ پر بھروسہ کیا گیا ہے ان کا وجود ہی نہیں ہے اور غلط اورخطرناک طریقے سے اس کو ان کا بتایا گیا ہے، جو پوری طرح سے ان کی حراست کے حکم کومتاثر کرتا ہے اور یہ قانوناً ٹکنے لائق نہیں اور پوری طرح غیر آئینی ہے۔
معلوم ہو کہ جموں و کشمیر حکومت نے گزشتہ13 مارچ کو ریاست کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ کی حراست پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو ختم کرتے ہوئے ان کو رہا کر دیا۔عبداللہ راجیہ سبھا رکن پارلیامان ہیں، لیکن گزشتہ سال پانچ اگست سے حراست میں رہنے کی وجہ سے قانون سازمجلس میں حاضر نہیں ہو پائے۔
گزشتہ سال پانچ اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور اس کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کے بعد سے ہی پچھلےسات مہینوں سے زیادہ وقت سے عبداللہ حراست میں تھے۔فاروق عبداللہ کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں ہیں۔ عمر اور محبوبہ نے اپنی حراست کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا ہے۔ دونوں رہنما اب بھی حراست میں ہی ہیں۔انتظامیہ نے ان کو جموں و کشمیر میں حالات بگڑنے کے خدشات کی وجہ سےحراست میں لیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کےساتھ)