ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اگر کبھی مستقبل میں امن و امان کی صورت حال بن جاتی ہے اور دونوں ممالک اپنے تنازعات پر امن طور پر سلجھانے کو تیار ہو جاتے ہیں تو اس کا کریڈٹ لازماً ستی لامبا کو ہی جائے گا۔ان کے لیے بہترین خراج یہی ہے کہ مزید ہزاروں بے گناہ و معصوم افراد کو موت کی بھیٹ چڑھانے کے بجائے دونوں ممالک دیرنہ تنازعات کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے عمل کو شروع کرکے اس کو منتقی انجام تک پہنچا دیں۔
Satinder K. Lambah (1941-2022). Photo: Twitter/@GermanyinIndia
جب ہندوستان میں 2004کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کو غیر متوقع طور پر شکست ہوئی اور اس سے بھی حیران کن صورت حال میں منموہن سنگھ کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کہا گیا، تو سبکدوش وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ساؤتھ بلاک میں وزارت اعظمیٰ کے دفتر کو خیر باد کرنے سے قبل اپنے ہاتھوں سے ایک نوٹ لکھ کر اپنے جان نشین کی میز پر رکھا تھا۔
اس میں نئی حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ ان کی طرف سے شروع کیے گئے چارمنصوبوں جن میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ، پاکستان کے ساتھ امن مساعی، ملک میں دریاؤں کو آپس میں جوڑنا اور شمال، جنوب، مشرق سے مغرب تک ہائی وے کی تعمیر کے پروجیکٹس کو جاری رکھا جائے، کیونکہ یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔
انتخابات سے بس چند ماہ قبل واجپائی اسلام آباد کا دورہ کرکے پاکستانی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کرکے لوٹے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ کشمیر کے سلسلے میں 1999میں لاہور میں طے پائے گئے معاہدوں اور اس کے بعد بیک چینل کے ذریعے حاصل شدہ پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے۔ بس دریاؤں کے منصوبے کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ایشوز پر منموہن سنگھ نے کام جاری رکھ کے اگلے چند سالوں میں خاصی پیش رفت حاصل کی۔
پاکستان کے ساتھ امن مساعی کو آگے بڑھانے اور کشمیر پر ایک لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے منموہن سنگھ نے زیر ک سفارت کار ستیندر کمار لامبا جنہیں عرف عام میں ستی لامبا کہتے تھے، کا انتخاب کیا۔ ستی لامبا کو ہی کشمیر پر مشرف فارمولہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ ان ہی کی سفارتی کاوشوں اور ذہن کی تخلیق تھی۔ پاکستان اور کشمیر میں عوامی رائے عامہ کو تیار کرنے کے لیے اس کے چند نکات کو عام کرنے کے لیے صدر پرویز مشرف کو آمادہ کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس فارمولہ کو مشرف فارمولہ کا نام دیا گیا تھا۔
جنوبی ایشیاء کے اس زیرک سفارت کار نے، جس کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان امن و استحکام کی دہلیز تک آپہنچے تھے، 30جون کو نئی دہلی میں 81سال کی عمر میں
آخری سانس لی۔ وہ 1941 میں پشاور میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی اہلیہ نیلما جو مصنف بھی ہیں لاہور سے تعلق رکھتی تھی۔
وہ پاکستان میں ہائی کمشنر کے ساتھ ساتھ ڈپٹی ہائی کمشنر کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے اور نئی دہلی میں فارن آفس کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستان، افغانستان اور ایران ڈیسک کے برسوں تک انچارج رہنے کی وجہ سے اس خطے کے ایک طرح کے ماسٹر تھے۔
پاکستان کے قومی سلامتی مشیر طارق عزیز اور بعد میں ریاض محمد خان کے ساتھ دبئی، سنگاپوراور بینکاک میں صحافیوں اور سیاستدانوں کی نظروں سے دور 30 خفیہ ملاقاتوں کے بعد انہوں نے ایک لائحہ عمل دونوں ملکوں کے سربراہان کو پیش کیا تھا۔ ٹریک ٹو کانفرنسوں میں جب ان سے ملاقات ہوتی تھی،تو بس اتنا کہتے تھے کہ 80فیصد نکات پر دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہو گیا تھا اور 20فیصد امور اب انہوں نے سربراہان مملکت کو حل کرنے کے لیے چھوڑے تھے۔
چونکہ یہ پورا عمل ہی رازداری کا تھا، ان کا دفتر بھی پی ایم او سے باہر سردار پٹیل بھون کے تیسرے فلور پررکھا گیا تھا۔ اس بلڈنگ میں اسٹیٹس ٹکس اور پروگراموں کے نفاذ کی وزارت کا دفتر بھی تھا، اس لیے اسٹوری کے لیے اعداد و شمار وغیرہ حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا پڑتا تھا۔
اس بلڈنگ میں تیسرے فلور کی سیکورٹی کچھ زیادہ ہی سخت تھی اور لفٹ سے تیسرے فلور کا بٹن بھی غیر فعال کردیا گیا تھا۔ اسی طرح تیسری منزل تک جانےوالی سیڑھیاں بھی بند کر دی گئی تھیں۔ کسی کو یقینی طورپر معلوم نہیں تھا کہ اس فلور میں کون سا آفس ہے۔ جب اسٹیٹس ٹکس منسٹر آسکر فرنانڈیز سے ایک بار پوچھا کہ ان کی وزارت کی بلڈنگ کے تیسرے فلور پر کس کا دفتر ہے، تو ان کو کہنا تھا کہ شاید راء کی کسی ونگ کا دفتر کھولا گیا ہے۔
اس تیسرے فلور کا راز ایسے کھل گیا، جب خود لامبا صاحب نے ہی ایک با ر مجھے اپنے دفتر میں مدعو کیا۔ معلوم ہو اکہ ان کا لفٹ بھی الگ تھا اوران کا آفس سلاخوں کے پیچ در پیچ دروازوں اور انتہائی سیکورٹی کی وجہ سے ایک جیل خانہ جیسا لگتا تھا۔
اس سے قبل میر ی ان سے ملاقات دہلی کے فارن سروس انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی تھی، جہاں و ہ وزیٹنگ فیکلٹی کے بطور آتے تھے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ سفارت کاروں کی ٹرینگ کے علاوہ وزارت خارجہ کور کرنے والے صحافیوں کے لیے بھی ڈپلومیٹک رپورٹنگ کے کورسز کا اہتمام کرتا تھا۔
لامبا صاحب پروٹوکول کی باریکیاں، سفارتکاری میں الفاظ کی شعبدہ بازیاں سکھانے پر مامور تھے او رنہایت ہی مدبرانہ اور ایک شفیق استاد کی طرح و ہ کلاس روم میں پیش آتے تھے۔ پروٹوکول کے حوالے سے ان کو اتنے دلچسپ واقعات ازبر تھے، وہ کلاس کو کبھی بور نہیں ہونے دیتے تھے۔
جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1980میں سردار سورن سنگھ کو اپنے خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے پاکستان بھیجا، تو اس وقت وہ اسلام آباد میں ڈپٹی ہائی کمشنر تھے۔ صدر ضیاء الحق نے ہندوستانی مندوب کو رات کے کھانے پر اپنے گھر یعنی آرمی ہاؤس مدعو کیا تھا۔ ہائی کمشنر کے ایس واجپائی نے لامبا صاحب کو اس میٹنگ کے نوٹس لینے کے لیےکہا تھا۔
ڈنر کے بعد چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے، ضیاء الحق اور سورن سنگھ نے جالندھری لہجے کی پنجابی میں جو گفتگو کا سلسلہ شروع کیا وہ ختم ہونے کا ایک تو نام ہی لے رہا تھا، دوسرا نوٹس لینے کے لیے لامبا صاحب کے پلے بھی کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ رات گہری ہوتی جارہی تھی۔ سفیر اور پھر دیگر سفارت کار ایک کے بعد ایک رخصت ہو رہے تھے۔ ضیاء الحق نے اپنے اسٹاف کو بھی گھر جانے کے لیے کہا۔
خیر رات دو بجے کے آس پاس گفتگو کا سلسلہ ٹوٹا اور سورن سنگھ ہوٹل جانے کے لیے ہندوستانی اور پاکستانی جھنڈے والی لیموزین میں سوار ہوگئے۔ اگلی نشست پر لامبا صاحب برا جمان ہوگئے۔ ڈرائیور نے جب اگنیشن میں چابی گھمائی، تو معلوم ہوا کہ گاڑی کی بیٹری ہی بیٹھ گئی ہے۔ لامبا صاحب نے گاڑی سے نکل کر پیچھے کی طرف آکر دھکا لگانا شروع کردیا۔
صدر پاکستان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے پورچ میں ہی کھڑے تھے۔ لامبا صاحب کو دھکا لگاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے بھی آکر گاڑی کو دھکا لگانا شروع کردیا۔ بقول لامبا صاحب وہ احساس شرمندگی کی وجہ سے پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔
سورن سنگھ اور ڈرائیور گاڑی کے اندر اور ایک ملک کا صدر اس کو دھکا لگا رہا تھا۔ دھکا لگاتے ہوئے اس کو گیٹ پر پہنچا دیا، جہا ں سیکورٹی والو ں کی نظر گاڑی اور اس کے دھکہ بانوں پر پڑی۔ مگر تب تک گاڑی اسٹارٹ ہوچکی تھی اور سیکورٹی والوں نے اسکارٹ اسکارڈ کو مطلع کیا، جو آرمی ہاؤس کے باہرا نتظار کر رہے تھے۔
اسی طرح جب ان کو وزیر اعظم کے خصوصی نمائندے کے بطور قازخستان کے دورہ پر بھیجا گیا، تو صدر نور سلطان نذر بائیوف نے ان کے اعزاز میں نہ صرف عشائیہ دیا، بلکہ ان کو اپنے پاس بٹھاکراپنے ہاتھوں سے ان کے پلیٹ پر کھانا ڈالنے لگے۔ قازخستان میں بھیڑ کی آنکھ یعنی آئی بال ضیافت کا ایک اہم جز ہوتی ہے۔ نذر بائیوف نے اپنے ہاتھوں سے آئی بال لےکر ان کے پلیٹ پر ڈالی۔
بقول لامبا صاحب بڑی مشکل سے اس کو گلے سے اتار کر اب سانس درست کر ہی رہے تھے کہ صدر نے پوچھا کہ ان کو یہ ضیافت کیسی لگی؟ سفارتی آداب کے مطابق انہوں نے اس آئی بال کی شان میں کچھ زیادہ ہی قصیدہ پڑھا، کہ صدر نے ایک اور آئی بال منگوا کر ان کے پلیٹ میں ڈالی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھیڑ کی پوری آنکھ گلے سے اتارتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو روا ں ہوگئے تھے۔
کشمیر کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کی گنجائش ڈھونڈنے کا کام 1999میں شروع ہو گیا تھا۔ نواز شریف نے نیاز احمد نائیک اور واجپائی نے اپنے معتمد خاص آر کے مشرا کو اس پر مامور کردیا تھا۔ دونوں افراد نے اپریل 1999کو چار دن تک دہلی کے امپیریل ہوٹل میں اس ایشو کے خد و خال کا جائزہ لےکر اس پر خاصا کام کیا تھا۔
اس ملاقات میں طے ہوا تھا کہ ہندوستان کشمیر کے اٹوٹ انگ کا راگ چھوڑ دے گا او رپاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی ضد سے کنارہ کشی کرےگا۔ اور کوئی بھی حل دونوں ممالک کی اسٹریٹجک ضروریات اور کشمیری عوام کی خواہشات میں توازن رکھے گا۔
اس سے ایک ماہ قبل سری لنکا کے صحت افزا مقام نوارا علیا میں ہندوستانی وزیر خارجہ جسونت سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز کے درمیان جھیل کے کنارے ایک بنچ پر اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوگئی تھی۔
ذرائع کے مطابق جسونت سنگھ کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے مخالف تھے، مگر جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم پر ان کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔چونکہ ان ہی دنوں فرانس اور جرمنی کے درمیان سار تنازعہ، سویڈن اور فن لینڈ کے درمیان آلینڈ قضیہ، آسٹریا اور اٹلی کے درمیان ساؤتھ ٹیرول اور آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان شمالی آئرلینڈ کے تنازعہ سلجھ رہے تھے، اس لیے امید تھی کہ ہندوستان اور پاکستان بھی شاید اسی راہ پر کشمیر کا تنازعہ کو حل کروائیں گے۔
دراصل 1998میں جوہری دھماکوں کے بعد واجپائی کے مشیر برجیش مشرا نے دنیا میں ہندوستان کو ایک مقام دلوانے کے لیے مخصوص اہداف مقرر کیے تھے، جس میں اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت لینا، نیوکلیر کلب کا ممبر بننا او ر2025تک ہندوستان کو چین کی طرز پر ایک عالمی اقتصادی طاقت بنانا شامل تھا۔
ان کے مطابق ان حصولیابیوں کا راستہ کشمیر اور پاکستان سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس لیے وہ کچھ لو یا دو کو لےکر کشمیر کے کسی حل کے متلاشی تھے۔ جب منموہن سنگھ نے2004میں لامبا کو صدر مشرف کے معتمد طارق عزیز کے ساتھ بیک ڈور سفارت کاری کے لیے مقرر کیا، تو ان کے پاس ایک خاکہ پہلے ہی موجود تھا۔
لامبا نے 2004سے 2006تک پاکستانی مذاکرات کاروں کے ساتھ 30دور کی بات چیت کے بعد جس حل کا خاکہ تیار کیا تھا، اس کو پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے نو نقطوں میں اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق: ۱۔ کشمیر کے لائن آف کنٹرول کے آر پار دونوں خطوں میں تشدد کی روک تھام کو یقینی بنانا اور عسکریت پر قد غن لگانا۔ ۲۔ دونوں اطراف فوجوں کے جماؤ میں کمی کرنا اور سویلین علاقوں سے فوجوں اور مسلح دستوں کا انخلاء۔ ۳۔ سیلف رول یا حق خود اختیاری۔ ۴۔ صاف و شفاف انتخابات۔ ۵۔ پاکستان کا گلگت–بلتستان اور ہندوستان کا لداخ پر کنٹرول۔ ۶۔ مشترکہ میکانزم کے تحت ایک باڈی کا قیام، جو لائن آف کنٹرول کے آر پار ٹریڈ، سیاحت وغیرہ کا انتظام و دیکھ بھال کرے۔۷۔ پانی اور دیگر وسائل پر مشترکہ پالیسی اور ان کو استعمال کرنے کا مشترکہ میکانزم۔ ۸۔ فارن منسٹری سطح پر ایک مانیٹرینگ میکانزم کا قیام اور 15سال بعد اس انتظام کا جائزہ۔ ۹۔ امن، سلامتی، استحکام اور دوستی ٹریٹی پر دستخط، جس سے دونوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی میں حصہ دار بنیں۔
Satinder K. Lambah. Photo: Twitter/@orfecon
جس طرح واجپائی نے منموہن سنگھ کو امن مساعی کو آگے بڑھانے کی درخواست کی تھی، اسی طرح منموہن سنگھ نے بھی اپنے جان نشین نریندر مودی کو لامبا کے ملاقاتوں کی تفصیلات سے آگاہ کرکے اس کومنتقی انجام تک پہنچانے کی درخواست کی تھی۔
سنگھ کو یقین تھا کہ مودی ایک بھاری منڈیٹ کے ساتھ پاور میں آیا ہے، اس لیے وہ اپنی پارٹی کو پاکستان کے ساتھ امن مساعی پر راضی کرواسکیں گے، جو منموہن سنگھ کے لیے مشکل امر تھا۔
پاکستان اور ہندوستان میں اکثر تجزیہ کار 2008میں ہوئے ممبئی حملوں اور پاکستان میں وکلا کی ایجیٹیشن کو امن مساعی کے پٹری سے اترنے کے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مگر ان کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ 2007میں کانگریس پارٹی نے ہی اس میں ٹانگ اڑائی تھی۔
امن مساعی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2007میں طے ہوگیا تھا کہ چونکہ سائچن گلیشیر اور سرکریک کے معاملے پر خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اس لیے ان پر اگریمنٹ کرکے باقی مسائل کو حل کروانے کے لیے عوامی سطح پر ماحول تیار کیا جائے۔
فروری 2007کو پاکستان کے سکریٹری دفاع طارق وسیم غازی جب معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے دہلی وارد ہوئے اس سے چند روز قبل الیکشن کمیشن نے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کا اعلان کردیا تھا۔
مذاکرات سے ایک روز قبل سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتر پردیش میں امیدوار طے کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ مگر اس میں سونیا گاندھی کی موجودگی میں ان کے مشیر مرحوم احمد پٹیل نے منموہن سنگھ کو سائچن پر مذاکرات اور وہاں سے فوجوں کے انخلاء کے سوال پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
میٹنگ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں سونیا گاندھی اکثر منموہن سنگھ کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی تھی، مگر اس وقت و ہ خاموش رہی۔ احمد بھائی نے منموہن سنگھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ کسی اگریمنٹ کرنے سے اتر پردیش میں پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ اجلاس جاری تھا کہ معلوم ہوا کہ شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل جے جے سنگھ نے سائچن سے فوجوں کے انخلاء کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ چند روز قبل کابینہ کی سلامتی سے امور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اس معاہدے کو منظوری دی تھی۔
احمد پٹیل کی یہ مخالفت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس کے فوراً بعد پاکستان میں وکلا ء کی ایجی ٹیشن نے مشرف کو داخلی طور پر الجھائے رکھا۔
کانگریس کے اندرون ذرائع کا بھی کہنا ہے کہ پارٹی نے منموہن سنگھ کو چوائس دی تھی کہ پاکستان کے ساتھ امن مساعی یا امریکی کے ساتھ نیوکلیر ڈیل میں کسی ایک ایشو پر ہی وہ عوامی سطح پر رائے عامہ بنائے گی۔ اور وزیر اعظم نے نیوکلیر ڈیل کو ہی ترجیح دی۔
خیرہندوستان اور پاکستان کے درمیان اگر کبھی بھی مستقبل میں امن و امان کی صورت حال بن جاتی ہے اور دونوں ممالک اپنے تنازعات پر امن طور پر سلجھانے پر تیار ہو جاتے ہیں اس کا کریڈٹ لازماً ستی لامبا کو ہی جائے گا۔ ایس کے لامبا ہندوستانی سفارت کاری کے رازوں کے امین تھے۔ ان کے سینہ میں بے پناہ راز دفن تھے، جن کی وہ بخوبی حفاظت کرتے تھے۔ وہ ایک بہت ہی اچھے میزبان تھے، مگر ان سے خبر کی امید رکھا عبث تھا۔
لامبا صاحب کے لیے بہترین خراج عقیدت یہی ہے کہ مزید ہزاروں بے گناہ و معصوم افراد کو موت کی بھیٹ چڑھانے کے بجائے دونوں ممالک دیرنہ تنازعات کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کئے عمل کو شروع کرکے اس کو منتقی انجام تک پہنچادیں۔ طاقت کے نشہ میں سرشار موجودہ حکمرانوں کو جلد یا بدیر یہ نقطہ سمجھنا پڑے گا اور ستیندر لامبا پشاوری کے نقش قدم پر چل کر اس خطے کو عدم استحکام سے نجات دلوانی پڑے گی۔