جب مقدمہ چلانے والے این آئی اے جیسے ہوں، تو بچاؤ میں وکیل رکھنے کی کیا ضرورت ہے

02:45 PM Apr 03, 2019 | ایم کے وینو

سمجھوتہ ایکسپریس معاملے کی سماعت کر رہے جج نے کہا کہ استغاثہ کئی گواہوں سے پوچھ تاچھ اور مناسب ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا اس لئے مجبوراً ملزمین کو بری کرنا پڑا۔ جب این آئی اے جیسی اعلیٰ جانچ ایجنسی  ایک خوفناک دہشت گرد حملے کے ہائی پروفائل معاملے میں اس طرح برتاؤ کرتی ہے، تو ملک کی جانچ  اور استغاثہ نظام  کی کیا عزت  رہ جاتی ہے؟

وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ، دھماکے کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس اور سوامی اسیمانند۔ (فوٹو : پی ٹی آئی/ رائٹرس)

اگر ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے مقدمہ کا خاتمہ  ایک جج اس  دکھ کے ساتھ  کرے کہ استغاثہ نے ‘سب سے اچھے ثبوت ‘ ‘چھپا لئے ‘اور ان کو سامنے نہیں رکھا گیا، جس کی وجہ سے تمام ملزمین کو بری کرنا پڑا، تو اس سے یقیناً کسی ملک کے شعور کو ٹھیس لگنی چاہیے۔سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ معاملے، جس میں 10 ہندوستانی اور 43 پاکستانی شہریوں سمیت 68 لوگ مارے گئے تھے، کی سماعت کر رہے خصوصی جج جگدیپ سنگھ نے دہشت گردانہ واقعات کی جانچ  کرنے والی ہندوستان کی اعلیٰ جانچ ایجنسی این آئی اےکو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ وہ مجبوری میں تمام ملزمین کو بری کر رہے ہیں، کیونکہ استغاثہ کئی گواہوں سے پوچھ تاچھ کرنے اور مناسب ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس فیصلے سے پیدا ہونے والا زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ جب این آئی اے جیسی ایجنسی ایک خوفناک دہشت گردانہ حملے کے ہائی پروفائل معاملے میں اس طرح سے برتاؤ کرتی ہے، تو ہندوستان کی جانچ  اور استغاثہ کے تظام کی کیا عزت  رہ جاتی ہے؟اور تمام طرح کی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے ایک عالمی رائےعامہ تیار کرنے کی مہم میں مصروف  ہندوستان دنیا کو اس طرح سے کیا پیغام دے رہا ہے؟

اس معاملے سے جڑا مسئلہ انوکھا ہے کیونکہ فروری،2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ مکہ مسجد، حیدر آباد اور اجمیر شریف اور مالیگاؤں میں ہوئے ایسے ہی دھماکوں سے جڑا ہوا ہے۔ ان معاملوں کے تار آپس میں جڑے ہوئے تھے، کیونکہ چارج شیٹ کے مطابق سوامی اسیمانند (نابا کمار سرکار) ان دھماکوں کا مشترکہ  ماسٹرمائنڈ تھا۔بدقسمتی سے ان دھماکوں کی سیاست’ہندوتوا دہشت گردی’کے معاملوں کے طور پر کر دیا گئی اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ان معاملوں میں استغاثہ کو کمزور کرنے کی منظم کوشش کی گئی۔

اس کے بعد ہم نے این آئی اے کے ایسے چیف کو بھی دیکھا، جو ‘ہندو دہشت گردی’جیسی کوئی چیز نہیں ہونے ‘کے نظریہ سے ہمدردی رکھتے تھے۔سمجھوتہ دھماکہ معاملے میں جج نے رنج کے  ساتھ کہا، ‘استغاثہ کا ثبوت بہت کمزور ہے اور اس طرح سے دہشت گردی کا ایک معاملہ ان سلجھا رہ گیا ہے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ عدالت مروجہ یا طاقتور عوامی تصورات یا اپنے وقت کی عوامی بحث کی بنیاد پر کام نہیں کر سکتی ہے اور آخر کار اس کو موجودہ شواہد  پر ہی توجہ دینی ہوتی ہے ‘


یہ بھی پڑھیں:سمجھوتہ بلاسٹ کیس: اگر بری ہوئے لوگ بے گناہ ہیں تو ذمہ دارکون ہے؟


جج کا یہ بیان کہ قانون کی عدالت سے موجودہ عوامی بحث کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی توقع نہیں کی جاتی ہے، اپنے آپ میں مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والا ہے، جس نے پہلے دن سے بم دھماکہ کے ان معاملوں کو اکثریت پسندی کے چشمے سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔جج کو ضرور اس بات کا احساس پہلے ہی ہو گیا ہوگا کہ این آئی اے کی دلچسپی عدالت کے سامنے پختہ ثبوت پیش کرنے میں نہیں ہے۔ ایسے میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ جج نے اپنے 160 صفحے کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ عدالت کے سامنے ثبوت کے طور پر پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کے سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگس تک کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔

این آئی اے نے اسی طرح سے حیدر آباد میں ہوئے مکہ مسجد دھماکہ معاملے میں بھی استغاثہ کو کمزور کرنے کا کام کیا۔ اس میں بھی اسیمانند کلیدی ملزم تھا اور ثبوت کا ایک اہم حصہ جیل کے ایک دیگر قیدی کے ساتھ اس کی ملاقات سے سامنے آیا، جس کے سامنے اسیمانند نے دھماکے میں اپنے رول کو قبول کیا تھا۔

اس معاملے میں جج کے ذریعے اسیمانند کو بری کرنے کی ایک بنیاد یہ تھی کہ استغاثہ یہ ثبوت پیش نہیں کر پایا کہ دوسرا قیدی اس وقت جیل میں موجود تھا۔ اس کے لئے اور کچھ نہیں بس جیل رجسٹر کی ضرورت تھی، جس سے یہ ثابت ہو جاتا کہ دوسرا قیدی بھی اس وقت جیل میں ہی تھا۔ لیکن یہ معمولی سا ثبوت بھی این آئی اے نے پیش نہیں کیا۔اس کے پیچھے کی منشاء ان معاملوں کو کمزور کرنے کی تھی اور اب جبکہ جج نے خود اس کے بارے میں واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے، اس بات کو لےکر کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ کس طرح سے استغاثہ میکانزم کی دھجیاں اڑائی گئیں ہیں۔

یہ کہنا مبالغہ آمیزنہیں ہوگا کہ مودی-شاہ کی حکومت میں استغاثہ نظام پر سب سے خوفناک حملہ ہوا ہے۔ یاد کیجئے کہ 2جی مقدمہ جیسے بد عنوانی کے معاملوں میں بھی اسپیشل  جج نے اسی طرح کی باتیں کہی تھیں، جس کا اشارہ استغاثہ کے ذریعے مختلف ملزمین کے خلاف، جن میں کچھ متاثر کن کارپوریٹ گھرانے بھی شامل تھے، معاملوں کو کمزور کرنے کی کوششوں کی طرف تھا۔

آخر میں،سمجھوتہ دھماکہ معاملے میں حکومت کے تعصب کا سب سے واضح ثبوت مرکزی وزیر داخلہ کے پورے فیصلے کے عام کئے جانے سے پہلے دیا گیا بیان ہے کہ ‘استغاثہ اس فیصلے کے خلاف بڑی عدالت میں اپیل نہیں کرے‌گا۔ کم سے کم کہا جائے تو ان کا ایسا کہنا حیران کر دینے والا ہے۔