این آئی اے عدالت کے جج جگدیپ سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا، ’مجھے شدید رنج اور تکلیف کے ساتھ فیصلے کا خاتمہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ قابل اعتماد اور قابل قبول ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم میں کسی کو گناہ گار نہیں ٹھہرایا جا سکا۔‘
سوامی اسیمانند (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ معاملے میں سوامی اسیمانند اور تین دیگر ملزمین کو بری کرنے والی پنچکولہ کی اسپیشل کورٹ نے کہا کہ قابل اعتماد اور قابل قبول ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم کے کسی گناہ گار کو سزا نہیں مل پائی۔اس معاملے میں چاروں ملزمین
سوامی اسیمانند، لوکیش شرما، کمل چوہان اور راجیندر چودھری کو عدالت نے گزشتہ 20 مارچ کو بری کر دیا تھا۔
این آئی اے کورٹ کے جج جگدیپ سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘ مجھے شدید رنج اور تکلیف کے ساتھ فیصلے کو ختم کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ قابل اعتماد اور قابل قبول ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم میں کسی کو گناہ گار نہیں ٹھہرایا جا سکا۔ استغاثہ کے ثبوتوں میں تسلسل کی کمی تھی اور دہشت گردی کا معاملہ ان سلجھا رہ گیا۔ ‘
جج جگدیپ سنگھ نے 160 صفحے کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ استغاثہ نے سب سے مضبوط ثبوت عدالت میں پیش نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد گواہوں کی کبھی تفتیش نہیں کی گئی۔انہوں نے 28 مارچ کو عام کئے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا، ‘ عدالت کا فیصلہ عام نظریہ یا سیاست سے متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو موجودہ ثبوتوں پر توجہ دیتے ہوئے آئینی اہتماموں اور اس کے ساتھ طے قوانین کی بنیاد پر آخری نتیجہ پر پہنچنا چاہیے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ شک چاہے کتنا بھی گہرا ہو، ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ‘غور طلب ہے کہ عدالت نے 20 مارچ کو نبا کمار سرکار عرف سوامی اسیمانند، کمل چوہان، راجیندر چودھری اور لوکیش شرما کو بری کر دیا تھا۔ اس دھماکے میں 43 پاکستانی شہری، 10 ہندوستانیوں اور 15 نامعلوم لوگوں سمیت 68 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔
یہ بلاسٹ 2007 میں19-18 فروری کی رات کو اٹاری جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوا تھا۔ ہریانہ میں دوانہ اور پانی پت کے درمیان دو کوچ میں دو دھماکے ہوئے تھے۔ دو بم پھٹے ہی نہیں، جن کو بعد میں بر آمد کیا گیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تین ملزمین امت چوہان (رمیش وینکٹ ملہاکر)، رام چندر کاس سنگرا اور سندیپ ڈانگے کو مجرم بنایا گیا۔ این آئی اے نے ایک دیگر ملزم سنیل جوشی کو اس حملے کا ماسٹرمائنڈ بتایا، جس کی مدھیہ پردیش کے دیواس میں دسمبر 2007 میں موت ہو گئی تھی۔
جج نے اپنے حکم میں کہا، ‘ استغاثہ کے ثبوتوں میں تسلسل نہیں ہے اور دہشت گردی کا یہ معاملہ ان سلجھا ہی رہ گیا۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کیونکہ اس دنیا میں کوئی بھی مذہب تشدد کا سبق نہیں پڑھاتا۔ عدالت کا فیصلہ لوگوں کے جذبات اور نظریہ کی بنیاد پر یا سیاست سے متاثر نہیں ہونا چاہیے یہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ‘
جج نے کہا، ‘ موجودہ معاملے میں ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ ان ملزمین نے اس جرم کو انجام دیا ہے۔ اس جرم کو انجام دینے کے لئے ان لوگوں کی ملاقات اور بات چیت کو لےکر بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ان ملزمین کی آپس میں کڑیاں جوڑنے، مقدمہ کا سامنا کرنے کے لئے کسی طرح کے پختہ زبانی، دستاویزی اور سائنسی ثبوت کو پیش نہیں کیا گیا۔ مجرموں کا اس جرم میں شامل ہونے کے مقصد کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)