سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ: اسیمانند اور دیگر 3 ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے کو پاکستانی خاتون نے کیا جیلنچ

05:31 PM Jul 22, 2019 | دی وائر اسٹاف

دہلی -لاہور سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 18 فروری 2007کو پانی پت کے قریب 2 بم بلاسٹ ہوئے تھے جن میں 68 لوگ مارے گئے تھے،ان میں زیادہ تر پاکستانی تھےاور 12 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔

اسیمانند (فوٹو:ٹوئٹر)

نئی دہلی:سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ کیس میں سوامی اسیمانند اور دیگر3 ملزمین کو بری کیے جانے کے خلاف پاکستانی خاتون راحیلا وکیل نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے۔حفیظ آباد کی رہنے والی راحیلا  وکیل کے والد کی 2007  میں ہوئے اس بلاسٹ میں موت ہو گئی تھی۔

جن ستا کی ایک خبر کے مطابق؛راحیلانے اپنے کاؤنسل مومن ملک کے ذریعے یہ  عرضی دی ہے۔حالانکہ تکنیکی وجوہات سے ابھی تک ہائی کورٹ کے رجسٹری ڈپارٹمنٹ نے اس کو شنوائی کے لیے منظوری نہیں دی ہے۔راحیلا کی ترجمانی کر رہے مومن ملک نے کہا،’ہم نے اپیل فائل کی ہے اور اس پر جلد شنوائی کی امید ہے۔’واضح ہو کہ این آئی اے یا مرکزی حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی۔

غور طلب ہے کہ ہ دہلی -لاہور سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 18 فروری 2007کو پانی پت کے قریب 2 بم بلاسٹ ہوئے تھے جن میں 68 لوگ مارے گئے تھے،ان میں زیادہ تر پاکستانی تھےاور 12 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔اس کے بعد ہریانہ پولیس نے ایک معاملہ درج کیا تھا اور جولائی 2010 میں جانچ این آئی اے کو سونپ دی تھی۔ بنا کمار سرکار عرف سوامی  اسیمانند،لوکیش شرما،کمل چوہان اور راجندر چودھری عدالت میں پیش ہوئے تھے ۔

اس سے پہلے سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ  معاملے میں سوامی اسیمانند اور تین دیگر ملزمین کو بری کرنے والی پنچکولہ کی اسپیشل کورٹ نے کہا  تھا کہ قابل اعتماد اور قابل قبول ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم کے کسی گناہ گار کو سزا نہیں مل پائی۔اس معاملے میں چاروں ملزمین سوامی اسیمانند، لوکیش شرما، کمل چوہان اور راجیندر چودھری کو عدالت نے گزشتہ 20 مارچ کو بری کر دیا  تھا۔

این آئی اے کورٹ کے جج جگدیپ سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، ‘ مجھے شدید رنج اور تکلیف کے ساتھ فیصلے کو ختم  کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ قابل اعتماد اور قابل قبول ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم میں کسی کو گناہ گار نہیں ٹھہرایا جا سکا۔ استغاثہ کے ثبوتوں میں تسلسل کی کمی تھی اور دہشت گردی کا معاملہ ان سلجھا رہ گیا۔ ‘

جج جگدیپ سنگھ نے 160 صفحے  کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ استغاثہ  نے سب سے مضبوط ثبوت عدالت میں پیش نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد گواہوں کی کبھی تفتیش نہیں کی گئی۔انہوں نے 28 مارچ کو عام کئے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا، ‘ عدالت کا فیصلہ عام نظریہ یا سیاست سے متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو موجودہ ثبوتوں پر توجہ دیتے ہوئے آئینی اہتماموں اور اس کے ساتھ طے قوانین کی بنیاد پر آخری نتیجہ پر پہنچنا چاہیے۔ ‘