سمبھاونا ٹرسٹ کلینک کے ڈاکٹر رگھورام نے کہا ہے کہ گردے سے متعلق بیماریاں، جو ممکنہ طور پر زہریلی گیس لگنے کے کچھ وقت بعد شروع ہوگئی تھیں، گیس ٹریجڈی کے متاثرین میں سات گنا زیادہ پائی جا رہی ہیں۔
(فائل فوٹو بہ شکریہ: sambhavnabhopal.org)
نئی دہلی: 2-3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات بھوپال میں یونین کاربائیڈ فیکٹری سے میتھائل آئسوسائنیٹ گیس کے اخراج کو انسانی تاریخ کی بدترین صنعتی تباہی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس سانحہ نے ہزاروں جانیں لے لیں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو مستقل طور پر متاثر کیا۔ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی متاثرین کی صحت پر اس سانحے کے اثرات برقرار ہیں۔
سانحہ کے 40 سال مکمل ہونے پر سمبھاونا ٹرسٹ کلینک کے اراکین نے ایک پریس کانفرنس کی اور گزشتہ 16 سالوں میں 16305 بھوپال گیس سانحہ کے متاثرین اور 8106 دیگر مریضوں کے طبی ڈیٹا کا تجزیہ پیش کیا۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شرح اگرچہ بلند ہے، لیکن بہت سی نئی بیماریاں ہیں جو عام آبادی کے مقابلے اس سانحے سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ شرح پر پائی جاتی ہیں۔
سمبھاونا ٹرسٹ کلینک کے مطابق، ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہے کہ بھوپال گیس سانحہ کے متاثرین کو مسلسل جانچ اور علاج کی ضرورت ہے۔
بتادیں کہ سمبھاونا ٹرسٹ ایک رجسٹرڈ این جی او ہے، جس کا قیام بھوپال میں یونین کاربائیڈ حادثے کے متاثرین کو صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔ ٹرسٹ کا دعویٰ ہے کہ پچھلے 28 سالوں میں سمبھاونا کے زیر انتظام کلینک نے 37 ہزار سے زیادہ لوگوں کو طویل مدتی طبی علاج فراہم کیا ہے۔
گیس سانحے کے متاثرین صحت کے کن مسائل سے دوچار ہیں؟
پریس کانفرنس میں کلینک کی معالج ڈاکٹر اوشا آریہ نے کہا، ‘گیس کے سانحہ میں مبتلا مریضوں میں سانس کی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ گیس کے سانحے کے متاثرین میں ڈپریشن2.7 گنا زیادہ پایا گیا۔ پچھلے 16 سالوں میں ایسے مریضوں میں شوگر اور ہائی بلڈ پریشر میں بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ گیس کے سانحے میں مبتلا مریضوں میں دیگر مریضوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ شوگر پائی گئی۔ اسی طرح بلڈ پریشر تین گنا زیادہ پایا گیا۔’
ڈاکٹر سونالی متل نے کہا کہ گیس کے سانحے سے متاثرہ خواتین میں کئی بیماریاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ وقت سے پہلے رجونورتی(انقطاع حیض) جیسے ہارمونل مسائل دیگر خواتین مریضوں کے مقابلے میں گیس ٹریجڈی سے متاثرہ خواتین میں 2.6 گنا زیادہ پائے گئے۔
گیس سانحے کے متاثرین کی بیماریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کلینک کے ڈاکٹر رگھورام نے کہا کہ ‘گردوں سے متعلق بیماریاں جو ممکنہ طور پر زہریلی گیس لگنے کے کچھ وقت بعد شروع ہوگئی تھیں، گیس کے سانحے کے متاثرین میں سات گنا زیادہ عام ہیں۔’
سمبھاونا ٹرسٹ کے بانی ٹرسٹی اور مشیر ڈاکٹر ستی ناتھ نے کہا، ‘ہمارا ڈیٹا واضح طور پر حادثے کے بعد چوتھی دہائی میں بھی گیس متاثرین کے درمیان معلوم اور ابھرتی ہوئی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ایک مستقل نمونہ ظاہر کرتا ہے۔ یہ مشاہدات بھوپال گیس متاثرین کے لیے خصوصی علاج کی مسلسل اور اہم ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔’