سنبھل میں مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے خلاف احتجاج کرنے والی بھیڑکی پولیس کے ساتھ 24 نومبر کو ہوئی جھڑپ میں تین مسلمانون کی موت ہوگئی۔ مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ تینوں پولیس فائرنگ میں مارے گئے، جبکہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھیڑ کے درمیان کراس فائرنگ کا شکار ہوئے۔
سنبھل میں ایک کار کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین گریب)
نئی دہلی: 24 نومبر کو اتر پردیش کے سنبھل میں مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے خلاف احتجاج کرنے والے ہجوم کی پولیس کے ساتھ جھڑپ میں تین مسلمان ہلاک ہو گئے۔
مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ تینوں افراد پولیس کی فائرنگ میں مارے گئے، جبکہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ہجوم کے ارکان، جنہوں نے تینوں اطراف سے پولیس پر پتھراؤ کیا اورگولیاں چلائیں، کے درمیان ہوئی کراس فائرنگ میں مارے گئے۔
ایک سینئر سرکاری اہلکار نے کہا کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے اور ہجوم کے پتھراؤ کے بعد سروے ٹیم کو علاقے سے باہر نکالنے کے لیے صرف آنسو گیس کے گولے اور پلاسٹک کی گولیوں کا استعمال کیا۔
مراد آباد کے ڈویژنل کمشنر آنجنیا کمار سنگھ نے بتایا کہ فائرنگ کے واقعہ میں ہلاک ہونے والے تین افراد کی شناخت نعیم، نعمان اور بلال کے طور پر ہوئی ہے۔
اہلکار نے بتایا کہ پتھر بازی میں 15-20 پولیس کانسٹبل زخمی ہوگئے، سنبھل ضلع کے پولیس سربراہ کے تعلقات عامہ کے ایک افسر کے پیر میں گولی لگ گئی، ایک ڈپٹی کلکٹر کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور ایک پولیس سرکل افسر کوچھرے لگے۔
سنگھ نے بتایاکہ تشدد کے دوران چھت سے پولیس پر پتھراؤ کرنے پر دو خواتین سمیت 15 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اہلکار نے بتایا کہ ہجوم نے علاقے میں کھڑی تین سے چار کاروں اور کچھ موٹر سائیکلوں کو بھی آگ کے حوالے کر دیا۔
پولیس نے کہا کہ وہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے کی فوٹیج کی بنیاد پر پتھراؤ کرنے والوں کی تلاش کر رہے ہیں اور ان کے خلاف سخت قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ سنبھل کرشن کمار بشنوئی نے کہا، ‘انہوں نے پولیس اور انتظامیہ کو ہدف بناکر چیلنج کیا اور یہ کسی بے قابو ہجوم کا کام نہیں تھا۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ ہجوم مسجد کے سروے میں خلل ڈالنا چاہتا تھا۔
شاہی جامع مسجد کےقریب کی گلیوں میں تشدد اس وقت شروع ہوا جب مقامی عدالت کی طرف سے مقرر کردہ ایڈوکیٹ کمشنر مقامی انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں سروے کر رہے تھے۔ عدالت نے 14 نومبر کو کچھ ہندو کارکنوں کی طرف سے دائر درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مغل حکمران بابر کے دور میں تعمیر کی گئی مسجد دراصل بھگوان وشنو کے کالکی اوتار کو وقف ایک قدیم ہندو مندر تھا۔
عدالتی حکم کے چند گھنٹوں کے اندر مسجد کا ابتدائی سروے کرنے کے بعد سروے ٹیم فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کے دوسرے دور کے لیے 24 نومبر کی صبح مسجد پہنچی تھی۔
سنگھ نے بتایا کہ صبح تقریباً 7.30 بجے شروع ہونے والا سروے دو گھنٹے تک پرامن طریقے سے جاری رہا، لیکن پھر وہاں بھیڑ جمع ہو گئی اور نعرے لگانے لگی۔
پولیس نے الزام لگایا کہ بھیڑ نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ صبح 11 بجے کے قریب صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب سروے ٹیم مسجد میں کام مکمل کرنے کے بعد علاقہ سے جانے لگی۔
مہلوکین میں سے ایک نعیم کے چچا ارشاد حسین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مسجد سے کچھ فاصلے پر جمع ہجوم اس وقت قابو سے باہر ہو گیا، جب پولیس نے انہیں جارحانہ انداز میں پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ حسین نے کہا، ‘پولیس نے اس کی شروعات کی۔’
ایس پی بشنوئی نے کہا کہ ‘مسلم برادری’ کے ہجوم نے پولیس پر گولیاں چلائیں اور پتھراؤ کیا۔ تفصیلات بتائے بغیر انہوں نے کہا کہ ‘پولیس نے جوابی کارروائی کی۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ ہجوم نے ایک پولیس افسر کی نجی کار کو بھی آگ کے حوالے کر دیا۔
مٹھائی کی دکان چلانے والے مہلوک نعیم کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے پیٹ میں گولی مار کر قتل کیا۔ اس کے بھائی تسلیم اور چچا حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ موقع پر موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس نے مقامی سرکل آفیسر کے حکم پر اسے گولی ماری۔
ان الزامات کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈویژنل کمشنر سنگھ نے صحافیوں کو بتایا،’کسی نے کچھ نہیں دیکھا۔ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ ہمارے پاس آئیں۔ ہم شواہد کی بنیاد پر کارروائی کریں گے۔’
افسر نے مہلوک پر ہجوم کا حصہ ہونے کا الزام لگایا۔ تاہم، نعیم کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ وہ کچھ کریانہ کا سامان خریدنے گئے تھے۔
سینئر افسر نے یہ بھی الزام لگایا کہ مظاہرین نے ایک دوسرے پر گولیاں چلائیں، حالانکہ اس کا کوئی ویڈیو گرافک ثبوت نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ویڈیو،جس میں سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو کا شیئر کیا گیا ویڈیو بھی شامل ہے، میں پولیس کو بھیڑ پر گولی چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس میں ایک افسر کو تمام پولیس والوں کو مبینہ طور پران پر پتھراؤ کرنے والوں پر گولی چلانے کی ہدایات دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
تاہم، دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ یہ ربڑ کی گولیاں تھیں یا اصلی گولیاں۔
سنگھ نے کہا کہ ہجوم نے پولیس پر تین اطراف سے حملہ کیا – بائیں سے، دائیں اور درمیان سے۔ انہوں نے کہا، ‘تینوں گروہ آمنے سامنے تھے۔ اس دوران گولیاں بھی چلائی گئیں۔ کس گروپ نے کس پر فائرنگ کی… یہ کیسے ہوا… انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیا کیا… فائرنگ ہوئی۔ پولیس اپنے پاؤں پر گولی نہیں مارے گی، یہ سوچنے والی بات ہے۔’
سنگھ نے کہا کہ پولیس نے بھیڑ کے خلاف آنسو گیس اور پلاسٹک کی گولیوں کا استعمال کیا۔ انہوں نے کہا، ‘الزامات لگانے سے پہلے انہیں (مہلوک کے خاندان کو) پوچھنا چاہیے کہ ان کے بچے وہاں پتھراؤ کرنے کیوں گئے تھے۔ وہ کسی مذہبی یا مقدس کام یا پیشہ ورانہ ذمہ داری کو پورا کرنے نہیں جا رہے تھے۔
پولیس اور انتظامیہ نے کہا کہ پتھراؤ اور ہجوم کا اجتماع ‘اشتعال انگیزی’ کا نتیجہ لگتا ہے۔
ایس پی بشنوئی نےبتایا کہ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ہلکی طاقت کا استعمال کیا، کیونکہ کچھ لوگ اچانک گلیوں سے نکل آئے اور 10-15 سیکنڈ تک پولیس والوں پر پتھراؤ کیا۔ تاہم، علاقے میں امتناعی احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔
بشنوئی نے کہا، ‘جن لوگوں نے انہیں اکسایا ان کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج سے کی جائے گی اور ان کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے گی کہ وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔’
واضح ہو کہ سول جج سینئر ڈویژن آدتیہ سنگھ نے 24 نومبر کو مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ آٹھ مدعیان نے مسجد میں داخلے کے حق کا دعویٰ کرنے کے لیے سول مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان مدعیان کی قیادت ہندوتوا کے حامی وکیل ہری شنکر جین اور ہندو سنت مہنت رشی راج گری کر رہے تھے۔
سنبھل ضلع کی سرکاری ویب سائٹ پر ایک ‘تاریخی یادگار’کے طور پر دکھایا گیا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کی ہدایات پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم، ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ مسجد و وشنو کے آخری اوتار کالکی کو وقف ایک قدیم مندر کی جگہ تھی۔ اس معاملے میں وکیل اور کلیدی مدعی ہری شنکر جین کے بیٹے وشنو شنکر جین کا کہنا ہے کہ 1529 میں بابر نے ہری ہری مندر کو جزوی طور پر گرا کر مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس حوالے سے عدالت نے مسجد کا سروے کرانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ جگہ کی رپورٹ پیش کرنے سے عدالت کو کیس کا فیصلہ کرنے میں سہولت مل سکتی ہے۔
اپنے مقدمے میں مدعی نے کہا کہ مسجد قدیم یادگاروں کے تحفظ کے ایکٹ 1904 کے سیکشن 3 (3) کے تحت ایک محفوظ یادگار ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں مسجد تک ‘رسائی سے محروم’ کیا جا رہا ہے، کیونکہ آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا نے قدیم یادگاروں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ، 1958 کی دفعہ 18 کی دفعات کے مطابق عام لوگوں کے داخلے کی اجازت دینے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔
مدعی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ جگہ کالکی کو وقف صدیوں پرانا ہری ہری مندر تھا اور جامع مسجد کیئر کمیٹی کے ذریعہ ‘زبردستی اور غیر قانونی طور پر اس کااستعمال ‘کیا جارہا ہے۔
سنبھل سے ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق، جنہوں نے اس بنیاد پر سروے کی مخالفت کی ہے کہ مسجد عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے تحت محفوظ ہے۔ انہوں نے تشدد کے بعد امن کی اپیل کی۔ انہوں نے پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران ‘پولیس کی بربریت’ کے خلاف آواز اٹھانے کا وعدہ کیا۔
ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا کہ سروے کا کام مکمل ہو چکا ہے اور اب ایڈوکیٹ کمشنر کو عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں )