پانچ جنوری کی رات ویب پورٹل ‘دی کشمیر والا’سے وابستہ ٹرینی صحافی اورطالبعلم سجاد گل کو مجرمانہ طور پر سازش کرنے کے الزام میں ضلع باندی پورہ میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ضمانت ملنے کے بعد پولیس نےانہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کرکے جیل بھیج دیا ہے۔
صحافی سجاد گل (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
جموں و کشمیر کی ضلع عدالت کی جانب سے 15 جنوری کو
23 سالہ صحافی سجاد گل کو مجرمانہ طور پر سازش کرنے کے معاملے میں ضمانت دینے کے ایک دن بعدان کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت معاملہ درج کرکے جموں کی کوٹ بھلوال جیل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔
پورٹل ‘دی کشمیر والا’ سے وابستہ ایک ٹرینی صحافی اور طالبعلم گل کو باندی پورہ ضلع کے حاجن علاقے میں ان کے گھر سے 5 جنوری کی رات کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ان پر آئی پی سی کی دفعہ 120 بی (مجرمانہ طور پر سازش کرنے)، 153 بی (قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے) اور 505 بی (عوام میں خوف و دہشت پھیلانے) کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔
مقامی عدالت نے پولیس کو ہدایت دی کہ اگر وہ کسی اور جرم میں ملوث نہیں ہے تو اسے 30000 روپے کے مچلکے پر رہا کیا جائے، لیکن انہیں رہا نہیں کیا گیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ گل کا نام اس ماہ کے شروع میں آئی پی سی کی دفعہ 153بی(قومی یکجہتی کے خلاف اثر ڈالنے والے بیان دینے)، 147(فسادات)، 148(فساد، مہلک ہتھیاروں سے لیس)، 149 (فسادات اور شرپسندی سے متعلق معاملے)اور 307 (قتل کی کوشش)کے تحت درج معاملے میں سامنے آیا۔
پی ایس اے کے تحت کسی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے تین سے چھ ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے گل کے وکیل عمر این رونگا نے بتایا کہ پولیس ان کے خلاف کوئی معاملہ نہیں بنا سکی اس لیے اس قانون کے تحت ان کے خلاف معاملہ درج کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا، یہ سب بے بنیادمعاملے ہیں۔ وہ صرف معمولی معاملوں میں اسے جیل میں نہیں رکھ سکتے۔ پولیس کے پاس واحد اختیاراس کے خلاف پی ایس اے لگانے کا ہے۔ وہ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
رونگا کا خیال ہے کہ گل کو تازہ ترین معاملے میں بھی ضمانت مل جاتی اگر پولیس ایک اور مقدمے کی منظوری دیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ، یہ سب جھوٹے مقدمے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ معاملے اوندھے منھ گر جائیں گے۔ پولیس کا واحد مقصد میرے موکل کو جیل میں رکھنا ہے۔
رونگا نے دی وائر کو بتایا،اس سے قبل پولیس نے تین الگ الگ مقدمات درج کیے تھے، جو سب بے بنیاد ہیں۔ وکیل نے اس ایف آئی آر کو رد کرانے کے لیے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
اہل خانہ کی تشویش
گل کی ماں نے 16 جنوری کو یہ سوچ کر اس کے لیے پکوان تیار کیے تھے کہ ان کا بڑا بیٹا جلد ہی گل کو گھر لے کر آئے گا، جو حاجن پولیس اسٹیشن میں اس کی رہائی کا انتظار کر رہا تھا۔
گل کی بڑے بھائی ظہور احمد نے دی وائر کو بتایا،انہوں نے جشن کی تمام تیاریاں کر رکھی تھیں۔ ہم صبح سے خوش تھے کہ اسے رہا کر دیا جائے گا لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس پر پی ایس اے لگاکر حراست میں رکھا جائے گا۔
احمد نے گل کوچار دن سے نہیں دیکھا ہے۔ 2008 میں ان کےوالد کی موت کے بعد سے احمد نےہی گل کی دیکھ بھال کی ہے۔ احمد کہتے ہیں،وہ میرے بیٹے جیسا ہے۔
جب گل کے اہل خانہ ضمانت کی درخواست لے کر تھانے پہنچے تو انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ احمد نے کہا کہ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک پولیس والوں کا پیچھا کرتے رہے جبکہ اس دوران انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا ۔
انہوں نے کہا، وہ (پولیس اہلکار)آپ کے ساتھ آوارہ کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اس وقت تک انتظار کرایا جب تک کہ ایک پولیس افسر نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ گل کو آج رہا نہیں کیا جائے گا اور مجھے وہاں سے جانے کو کہا گیا۔
احمد کو بتایا گیا کہ گل کے خلاف ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی ہے لیکن تفصیلات نہیں بتائی گئی۔
انہوں نے کہا، جب میں نے اسے دیکھا تو وہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ اس کا وزن کم ہو گیا تھا اور اسے اس حالت میں دیکھنا مشکل تھا۔ پولیس اسے (گل) ایک وین میں کہیں لے گئی۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اسے جموں کی کوٹ بھلوال جیل بھیج دیا گیا ہے۔
اہل خانہ کو گل کے خلاف درج پی ایس اے کے بارے میں بعد میں پتہ چلا اور تب سے وہ فکرمند ہیں۔
احمد نے کہا، وہ ہماری آخری امید ہے اور ہم نے خواب دیکھا تھا کہ وہ گھر کے لیے کچھ اچھا کرے گا لیکن پولیس نے وہ تمام خواب چکنا چور کر دیے۔
ان کے والد کی موت کے بعد مالی دباؤ کے باوجود احمد نے اس بات کو یقینی بنایا کہ گل تعلیم سے محروم نہ رہے۔ احمد کہتے ہیں،وہ اپنے کام میں اچھا کر رہا تھا لیکن پولیس نے سب کچھ برباد کر دیا۔
پہلے کے الزام
آٹھ جنوری کو جموں و کشمیر پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھاکہ انہوں نے گل کو مبینہ طور پر لوگوں کو تشدد کےلیے اکسانے اور عوامی امن وامان کو خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گل نے شالیمار سری نگر میں دہشت گرد سلیم پرے کی ہلاکت کے دن کچھ خواتین کےذریعے ملک مخالف نعرے لگائے جانے کےقابل اعتراض ویڈیوز اپ لوڈ کیے تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ، یہ شخص صحافت کی آڑ میں عوام کوتشدد پر اکسانے اور عوامی امن وامان کو خراب کرنے کے لیے حکومت کے خلاف بد نیتی پیدا کرنے کے ارادے سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعےجھوٹا پروپیگنڈہ یا جھوٹا بیانیہ پھیلانے کا عادی ہے۔
گل کی گرفتاری کے بارے میں
دی وائر کی پچھلی رپورٹ میں باند ی پورہ ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا تھا کہ گل نے ایسے ٹوئٹ کیے تھے، جن سے علاقے میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوسکتے تھے اور پولیس کسی کو بھی امن وامان خراب کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
دی وائر نے گل کے معاملے میں ان کے جواب کے لیے انسپکٹر جنرل آف پولیس سے رابطہ کیا لیکن ان کا جواب نہیں مل سکا۔ ان کا جواب موصول ہونے پر خبر کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
پریس کی آزادی
پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے، ڈرانے دھمکانے اور گرفتار کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
سال 2019 میں کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعدسے صحافیوں نے بار بار حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی جائے۔
صحافیوں کو پولیس کی طرف سے جسمانی حملوں، دھمکیوں اور سمن کاسامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے بارے میں کشمیر کے صحافیوں کا خیال ہے کہ اس کا مقصد پریس کا گلا گھونٹنا ہے۔
جنوری 2020 میں مرکزی حکومت نے ایک
میڈیا پالیسی جاری کی تھی، جس سے حکومت کو وادی میں اخبارات کو سینسر کرنے کے زیادہ اختیارات ملے تھے۔ مقامی پریس پر اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ بہت سے اخبارات نے ایسی خبریں دینا بند کر دیں جن کے بارے میں انہیں لگتا تھا کہ وہ مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔
گل کی گرفتاری کی دنیا بھر کے صحافیوں اور کارکنوں نے مذمت کی ہےاور ان کی فوراً رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سینئر صحافی اور مصنف گوہر گیلانی نے دی وائر کو بتایا کہ، تنازعات والے علاقوں میں صحافت کبھی بھی آسان نہیں رہی، لیکن ان کا خیال ہے کہ کشمیر کی صورتحال مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ،ان سخت قوانین کی مدد سے ایک ابھرتے ہوئے صحافی کا کیریئر تباہ کر دیا گیا، جو یہاں کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ آزادی صحافت کو دبانے کے لیے ہے، لوگوں کو صحافت کو بطور کیرئیر منتخب کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے اور اس کے لیے اس صحافی (گل) کے معاملے کو بطور مثال استعمال کیا گیا۔
کشمیر والا کے چیف ایڈیٹر فہد شاہ نے دی وائر کو بتایا کہ قانون کا استعمال دراصل گل کو زمین سے دور رکھنے کے لیے کیا گیا کیونکہ انتظامیہ اسے ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہی تھی۔
انہوں نے گل پر پی ایس اے کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے کہا، وہ حال ہی میں ہم سے جڑا تھا اور ماضی میں وہ کئی اداروں کے ساتھ کام کر چکا تھا۔ ہم اس کی حراست کو رد کرنے کی کوشش کریں گے۔
گل کی گرفتاری کے فوراً بعد کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)نے صحافی کی فوراً رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بتادیں کہ گزشتہ سال جون میں اقوام متحدہ نے خطے میں صحافیوں کی مبینہ من مانی حراست اور دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے اس بیان میں خطے کے دیگر صحافیوں کی مثال پیش کرنے کے علاوہ گل کےمعاملے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)