روپیش اور دیگر تمام صحافیوں کی رہائی نہ صرف صحافت بلکہ جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہے

روپیش کمار سنگھ کی دوبارہ گرفتاری کو ایک سال ہو گیا ہے اور اس دوران انہیں چار نئے مقدمات میں ملزم بنا دیا گیا ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم مودی کے امریکہ دورے کے موقع پر 'واشنگٹن پوسٹ' نے پورے صفحے پر ہندوستانی جیلوں میں بند صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ہندوستان میں بھی اس نوع کا مطالبہ ضروری ہے۔

روپیش کمار سنگھ کی دوبارہ گرفتاری کو ایک سال ہو گیا ہے اور اس دوران انہیں چار نئے مقدمات میں ملزم بنا دیا گیا ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم مودی کے امریکہ دورے کے موقع پر ‘واشنگٹن پوسٹ’ نے پورے صفحے پر ہندوستانی جیلوں میں بند صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ہندوستان میں بھی اس نوع کا مطالبہ ضروری ہے۔

روپیش کمار سنگھ۔

روپیش کمار سنگھ۔

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی21 جون کو امریکہ کے دورے پر گئے ۔ 22 جون کی صبح امریکہ میں ہندوستان میں بند 6 صحافیوں کی رہائی کی مانگ کی گئی تھی۔ امریکہ کے مؤقر اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ نے پورے صفحے پر ہندوستانی جیلوں میں بند صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ہندوستانی جیلوں میں بند ان چھ صحافیوں میں آزاد صحافی روپیش کمار سنگھ بھی شامل ہیں، جن کی دوبارہ گرفتاری کوایک سال ہورہے ہیں۔ انہیں17 جولائی کو جھارکھنڈ میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم مودی کے دورے کے وقت ہی صحافیوں کی تنظیم ‘سی پی جے’ کے صدر جوڈی جنسبرگ نے 21 جون کو ایک بیان جاری کیا، جس میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ  ہندوستان کے وزیر اعظم پر دباؤ ڈالا جائےکہ وہ ہندوستان میں میڈیا پر حملے بند کرے اور جیل میں ڈال گئے چھ صحافیوں کورہا کرے۔ روپیش سمیت تمام صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی تصاویر ٹرکوں پر لگا ئی گئی تھیں۔

تقریباً دو ماہ قبل ریلیز ہونے والی فلم ‘اسکوپ’کے آخر میں حکومت  کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائے گئے اور جیل میں بند جن صحافیوں کو یاد گیا ان میں صحافی روپیش کمار سنگھ بھی ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر مہم چلانے کے باوجود حکومت ان کی رہائی کی طرف بڑھنے کے بجائے ان کے خلاف مسلسل نئے مقدمے ڈالتی جا رہی ہے۔ان مقدموں کے بارے میں  ان کے اہل خانہ اور ان کے وکیلوں کو اس وقت پتہ چلتا ہے،  جب انہیں  پولیس  ریمانڈ پر کہیں لے جایا جاتاہے۔

پولیس ریمانڈ سے جوڈیشل ریمانڈ پر واپس آنے کے بعد روپیش خود اس  بات کی جانکاری وکیلوں اور گھر کے لوگوں کو دیتے ہیں۔ ان نئے تھوپے جانے والے مقدمات کے بارے میں پیشگی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وکیل کہیں بھی ان کی  پولیس ریمانڈ کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں، یہ بذات خود عدالتی عمل کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن یہ بار بار کیا جا رہا ہے۔ 17 جولائی 2022 سے اب تک انہیں کل 5 مقدمات میں ملزم بنایا جا چکا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 17 جولائی 2022 کی صبح میں ہی روپیش کے رام نگر  واقع گھر میں جھارکھنڈ پولیس کا ایک بھاری جتھا تلاشی کے نام پر پہنچ گیا۔ تلاشی کے نام پر انہوں نے پورے گھر کو الٹ پلٹ  کر رکھ دیا، ان  کے گھر سے دو لیپ ٹاپ اور دو موبائل فون اپنے قبضے میں لیا اور دوپہر بعد پہلے سے تیارجیب میں رکھا گرفتاری وارنٹ دکھا کرروپیش کو اپنے ساتھ لے گئے۔

غور طلب ہے کہ 61/21 کی اس پرانی ایف آئی آر کے تحت روپیش کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 420، 467، 468، 471، (تمام جعلسازی)، 17 سی ایل اے (ماؤنوازوں کے لیے جھارکھنڈ ریاست کا خصوصی دفعہ) اور بدنام زمانہ قانون یو اے پی اے کی دفعہ 14 اور 17 (غیر قانونی اشیاء رکھنا اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ لیکن انہیں روپیش کے خلاف ثبوت نہیں  ملے ، اس لیےانہوں نے روپیش کی بیوی اپسا شتاکشی کو بار بار پریشان کرنا شروع کردیا۔

جھارکھنڈ پولیس نے انہیں بار بار پوچھ گچھ کے لیے بلایا اور ان کے پورے گھر کی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات مانگ کر انہیں ذہنی طور پر کافی ہراساں کیا۔ اس طرح بار بار پوچھ گچھ کی وجہ سے ان کی  نوکری چھوٹ گئی ۔ وہ ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں اور گھر میں ٹیوشن کلاسز بھی چلاتی تھیں۔ اسی سال یکم مئی کو جھارکھنڈ پولیس دوبارہ ان کے گھر کی تلاشی لینے پہنچی تھی۔

دراصل کوئی  آزاد صحافی ڈھنگ سے گزر بسرکر رہا ہو تو یہ بھی حکومت کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔ وہ بھی اگر آزاد صحافی حکومت کے خلاف لکھتا ہے تو وہ اسے ‘جرم’ بنا دیتے ہیں۔ روپیش پر یو اے پی اے کی دفعہ 14 اور 17 لگانے کے پس پردہ مقصد یہ ہے کہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ان کی صحافت اور بیوی کی نوکری کے بجائےٹیررفنڈنگ کے طور پر دکھایا جاسکے۔

اپسا ہی نہیں، ان کی بہن ایلیکا، جو اپسا اور روپیش کے چھوٹے بچے کی دیکھ بھال کے لیے اکثر رام نگر میں ہی رہتی تھی، انہیں بھی کئی بار پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا۔ اس طرح جھارکھنڈ پولیس نہ صرف صحافی روپیش کو بلکہ ان کے پورے خاندان کوباربار پریشان کر رہی ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ روپیش کو دو بار جیل میں کیوں ڈالا گیا؟ روپیش کمار سنگھ کو جب  2019 میں یو اے پی اے کے تحت جیل بھیجاگیا ، اس کے کچھ دیر پہلےہی  روپیش نے پارس ناتھ میں سی آر پی ایف کے ذریعے  ‘انکاؤنٹر’ میں مارے گئے  ایک قبائلی نوجوان موتی لال باسکے کےسلسلے میں  مختلف جگہوں پر کئی رپورٹ میں حقائق کے ساتھ اس کو’فرضی انکاؤنٹر’ ثابت کر دیا تھا اور اسے پوری ریاست کے لیے ایک بڑا ایشو  بنا دیا تھا۔

اس وقت ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی اور رگھوبر داس وزیر اعلیٰ تھے۔ آج کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اس وقت روپیش کی صحافت کی بنیاد پر ہی موتی لال باسکے کے اہل خانہ کی حمایت میں کھڑے تھے، لیکن اب جبکہ حکومت ان کی ہے، توانہوں نے روپیش کی اسی صحافت کو مجرمانہ فعل قرار دے کر انہیں  جیل بھیج دیا۔

اس بار جب وہ 17 جولائی کو گرفتار کیے گئے ، اس کے پہلے 15 جولائی کو ان کی  ایک اہم رپورٹ چھپی تھی، جس میں انہوں نے نہ صرف جھارکھنڈ میں کارخانوں کی آلودگی سے متاثر ہونے والےگاؤں  اور افراد کے بارے میں رپورٹنگ کی ، بلکہ رپورٹنگ کے بعد ایک متاثرہ غریب گھر کی بچی کے لیے فنڈ کلیکشن میں  بھی لگ گئے تھے۔اس کی  اپیل انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی ڈالی تھی۔ ممکنہ طور پر یہ ‘فنڈ کلیکشن’ ہی حکومت کی نظر میں ‘دہشت گردانہ  کے کام کے لیے فنڈکلیکشن’ ہے۔

جب انہیں 2019 میں یو اے پی اے کے تحت جیل بھیجا گیا تھا، تو ان کے خلاف ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے پولیس وقت پر چارج شیٹ ہی داخل نہیں کر سکی اور انہیں چھ ماہ کی ڈیفالٹ ضمانت مل گئی۔ اس بار جھارکھنڈ کی پولیس نے پوری تیاری کے ساتھ انہیں جیل میں ڈالا ہے۔

ان کا نام یکے بعد دیگرے پانچ مقدمات میں ڈالنے کا مقصد انہیں برسوں تک جیل میں بند رکھنا اور اہل خانہ کو ہراساں کرنا ہی ہے، کیونکہ ثبوت تو اس بار بھی ملنا نہیں ہے ۔ایک  صحافی کے خلاف ثبوت صرف اس کی رپورٹنگ ہو سکتی ہے، جو سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے جھارکھنڈ کی خطرناک آلودگی سے لے کر فرضی انکاؤنٹر، گرفتاریاں، حکومتی پابندیاں، قبائلی زمینوں کی لوٹ مار، حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کو اپنی رپورٹنگ کا حصہ بنایا۔ یہی ان کا قصور ہے۔

روپیش کمار سنگھ اور ان کی اہلیہ اپسا کا ایک گناہ یہ بھی ہے کہ جب ان دوں  کے فون میں ‘پیگاسس مالویئر’ ڈالے جانے کی بات سامنے آئی تو  دونوں نے اس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درحقیقت روپیش کو انہی جرأت مندانہ کاموں کی سزا دی جا رہی ہے، لیکن ان ‘جرائم’ کے لیے قانون میں کوئی دفعہ کھلے طور پرنہیں ہے، اس لیے ان پر چھپے ہوئے سیکشن لگائے گئے ہیں۔

یو اے پی اے بنا ہی اس لیے ہے۔ خود روپیش نے بھی اس کے خلاف لکھا ہے۔ ہمارے ملک میں سچ کہنے، لکھنے اور بولنے والوں کو اس قانون کے ذریعے ایسی ہی سزا مل رہی ہے، جن کی تعداد آج کل بڑھ گئی ہے۔

سی پی جے کے صدر جوڈی جنسبرگ نے 21 جون کو امریکہ میں جاری کردہ  ایک بیان میں  یہ بھی کہا تھا کہ،’2014 سے جب سے مودی حکومت میں آئے ہیں، تب سےہندوستانی میڈیا پر جبر پہلے سے کہیں زیادہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حکومت اور بی جے پی پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے، ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے آزاد اور منصفانہ میڈیا کو یقینی بنانا ایک لازمی شرط ہے۔ ہمیں امید ہے کہ امریکہ اس بات کو مذاکرات میں ایک اہم پہلو بنائے گا۔’

سی پی جے نے اپنے اس بیان میں کہا ہے کہ واشنگٹن کو ہندوستان سے چھ صحافیوں— آصف سلطان، گوتم نولکھا، سجاد گل، فہد شاہ، روپیش کمار سنگھ اور عرفان مہراج کی رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے، جنہیں ان کی  صحافت کے لیےبدلہ لینے کے مقصد سےکئی سخت  حفاظتی قوانین کے تحت اسیری میں  رکھا گیا ہے۔

آج جبکہ روپیش کمار سنگھ کی دوبارہ گرفتاری کو ایک سال پورے ہوگئے  ہیں، اس دوران انہیں چار نئے مقدمات میں ملزم بنایا جا چکا ہے، ان کی رہائی کا مطالبہ اپنے ملک میں بھی کیا جانا چاہیے۔ ان کی اور تمام صحافیوں کی رہائی آزاد صحافت ہی نہیں ،  بلکہ جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد  کا ایک لازمی حصہ ہے۔