آر ٹی آئی کارکن پی پی کپور نے جموں و کشمیر پولیس اور لیفٹیننٹ گورنر کے پاس دائر ایک درخواست میں کشمیری پنڈتوں کے خلاف تشدد، ان کی نقل مکانی اور بازآبادی سے متعلق جانکاری مانگی تھی ۔ اس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ تشدد یا تشدد کی دھمکیوں کی وجہ سے وادی چھوڑکر نقل مکانی کرنے والے 1.54 لاکھ افراد میں سے 88 فیصد ہندو تھے، لیکن 1990 کے بعد سے تشدد میں مرنے والے زیادہ تر لوگ دوسرے مذاہب سے تھے۔
نئی دہلی: ایک آر ٹی آئی کارکن کی طرف سے دائر درخواست کے جواب میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر سے تشدد یا تشدد کی دھمکیوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے 1.54 لاکھ لوگوں میں سے 88 فیصد ہندو تھے،لیکن 1990 کے بعد سے تشدد میں ہلاک ہونے والے لوگوں میں سب سے زیادہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔
کشمیری پنڈتوں کی حالت زار کی طرف مبینہ طور پرتوجہ مبذول کروانے کے لیےبنائی گئی ایک فلم کی ریلیز کے بعدپیدا ہوئے جنون کے سلسلے میں یہ نتائج ایک نئے تناظر کو پیش کرتے ہیں۔ حالاں کہ، ان نتائج میں اہم تفصیلات شامل نہیں ہیں۔
پچھلے سال ہریانہ کے سمالکھا کے رہنے والے آر ٹی آئی کارکن پی پی کپور نے جموں و کشمیر پولیس اور صوبے کے لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ایک آر ٹی آئی دائر کی تھی، جس میں کشمیری پنڈتوں کے خلاف تشدد، ان کی نقل مکانی اور باز آبادی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جانکاری طلب کی گئی تھی۔
کپور کو دستیاب کرائے گئے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ تشدد اور تشدد کی دھمکیوں کی وجہ سے وادی کشمیر سے 1.54 لوگ بے گھر ہوئےتھے، جن میں سے تقریباً 88 فیصد ہندو تھے۔ تاہم ان متاثرہ افراد میں سے جن لوگوں کی موت ہوئی ، ان میں زیادہ تر ہندو نہیں تھے۔
کپور نے حال ہی میں ان نتائج کو عام کیا ہے، لیکن انہوں نےاس حقیقت کا ذکر نہیں کیا کہ انہیں فراہم کردہ ڈیٹا میں 1989 میں جموں و کشمیر میں 100 سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کے قتل کی کوئی تفصیلات موجود نہیں ہے۔
ان کے آر ٹی آئی کے نتائج صرف 1990 سے جولائی 2021 کے عرصے کے لیے ہیں۔
کپور نے کہا، 1990 میں جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے عروج کے ساتھ، جب بے گناہ لوگوں کی ہلاکتیں شروع ہوئی تھیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی نے ان ہلاکتوں کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں کشمیری پنڈتوں کے سب سے بڑے قتل عام کے طور پر پیش کرنا شروع کیا۔ ایک منصوبہ بند پروپیگنڈے کے تحت کشمیری مسلمانوں کو ولن اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔ آر ایس ایس، بی جے پی نے اس طرح کے دعوؤں کی تشہیر کرکے سماج کو پولرائز کرنے اور انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے اپنے ایجنڈے کو نافذ کیا۔
کپور نے 22 جولائی 2021 کو جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر میں ایک درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں 10 سوال پوچھے گئے تھے۔ یہ درخواست جموں و کشمیر کے راج بھون نے 6 اگست کو سری نگر میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ریلیف، بحالی اور تعمیر نو کے محکمے کو سونپی تھی۔
بے گھر ہونے والے 1.54 لاکھ لوگوں میں سے 12000 سے زیادہ مسلمان تھے
ان کے سوال کے جواب میں جموں کے ریلیف اور بحالی کمشنر کے دفتر نے 9 ستمبر کو بتایا کہ کشمیری پنڈتوں کو وادی میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے 1990 میں جموں و کشمیر سے بے گھر ہونا پڑا تھا۔
کپور نے کہا،محکمہ کی طرف سے نقل مکانی اور بازآبادی کے حوالے سے فراہم کردہ تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں کل 1.54 لاکھ بے گھر ہوئے ہیں جن میں سے 135426 (88 فیصد) ہندو تھے۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ میں 44283 خاندان اور 154161 افراد رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے کل 21192 خاندانوں اور 70218 افراد کو سرکاری امداد فراہم کی جارہی ہے۔ ان میں 53978 ہندو، 1112 مسلمان، 5013 سکھ اور 15 دیگر شامل ہیں۔
تقریباً نصف بے گھر افراد کوکوئی سرکاری امداد نہیں
جواب میں کہا گیا کہ بے گھر ہونے والوں میں سے 23091 خاندانوں اور 83943 افراد کو کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی۔ اس میں 81448 ہندو، 949 مسلمان، 1542 سکھ اور چار دیگر ہیں۔
بے گھر افراد کو مالی امداد سمیت سہولیات فراہم کرنے کے سوال پر محکمہ نے کہا، ہر رجسٹرڈ شخص کو نقد امداد کے طور پر 3250 روپے ماہانہ دیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر خاندان کو نو کلو چاول، دو کلو آٹا اور ایک کلو چینی ہر ماہ دی جا رہی ہے۔
آر ٹی آئی کارکن کپور نے دی وائر کو بتایا کہ نریندر مودی حکومت یا جموں و کشمیر انتظامیہ نے ابھی تک اس اعداد و شمار کا انکشاف نہیں کیا ہے کہ نقل مکانی کرچکےکتنے کشمیری پنڈت کو جموں و کشمیر میں دوبارہ بسایا گیا ہے۔
اموات کی تعداد
اس کے علاوہ سری نگر کے ڈی ایس پی اور کشمیر میں سینٹرل انفارمیشن آفیسر کے ذریعہ کپور کو فراہم کی گئی معلومات سے یہ بات سامنے آئی کہ 1990 سے 2021 کے دوران ریاست میں دہشت گردوں کے ہاتھوں کل 1724 افراد ہلاک ہوئے۔ جواب میں کہا گیا کہ ان میں سے 89 کشمیری پنڈت تھے جبکہ باقی 1635 دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔
کپور نے کہا کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1990 میں عسکریت پسندی شروع ہونے کے بعد سے وادی میں مارے گئے زیادہ تر لوگ مسلمان تھے۔
انہوں نے کہا کہ صرف کشمیری پنڈتوں کو جموں و کشمیر میں تشدد کے سب سے بڑے شکار کے طور پر پیش کرنا غلط ہوگا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہےکہ کپور کے حاصل کردہ اعداد و شمار 1990سے ہیں اور ان میں 1989 میں ریاست میں مارے گئے تقریباً 100 کشمیری پنڈتوں کے قتل کی کوئی تفصیلات نہیں ہے۔
حال ہی میں ایک میڈیا ہاؤس کی فیکٹ چیکنگ ٹیم نے کچھ وضاحتوں کے لیے کپور سے رابطہ کیا تھا۔
ان کےنتائج سے دو پہلو سامنے آئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل کے اعداد و شمار پوری ریاست کے لیے تھے نہ کہ صرف سری نگر کے اور یہ کہ 1989 میں ہونے والی ہلاکتیں (جب اجتماعی قتل کا آغاز ہوا) اس میں شامل نہیں ہیں۔
دی ہندو کے لیے کی گئی شجاعت بخاری کی 2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق، 1989 کے بعد سے وادی میں 219 کشمیری پنڈت مارے گئے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس وقت کے سابق ریونیووزیر رمن بھلا نے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 1989 سے 2004 کے دوران کشمیر میں 219 پنڈتوں کو قتل کیا گیا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)