آرٹی آئی کے تحت ریزرو بینک سے ڈیفالٹروں کے نام کی جانکاری مانگی گئی تھی۔
نئی دہلی: سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے ریزرو بینک آف انڈیا سے قرض لوٹانے میں ناکام بڑے قرض داروں کے نام کا انکشاف کرنے کو کہا ہے۔ سی آئی سی نے سینٹرل بینک کو ہدایت دی ہے کہ ان قرض دار کے ناموں کا وہ انکشاف کرے جن کے پھنسے قرض کھاتوں کو اس نے بینکوں کے پاس نپٹارے کے لئے بھیجا ہے۔لکھنؤ کی سماجی کارکن نوتن ٹھاکر کی اپیل پر سی آئی سی نے یہ ہدایت دی ہے۔ ٹھاکر نے آر ٹی آئی کے تحت یہ جانکاری مانگی تھی۔انہوں نے اپنی آر ٹی آئی درخواست میں ان میڈیا رپورٹس کا ذکر کیا تھا جس میں ریزرو بینک کے ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ کے 2017 میں ایک تقریر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ کچھ قرض ڈیفالٹر کے کھاتوں کو بینکوں کے پاس تصفیے کے لئے بھیجا گیا ہے۔
آچاریہ نے کہا تھا کہ اندرونی صلاح کار کمیٹی (آئی اے سی) نے سفارش کی ہے کہ ریزرو بینک شروعات میں بڑی رقم کے پھنسے قرض والی جائیدادوں پر دھیان مرکوز کرے۔انہوں نے کہا تھا کہ ریزرو بینک نے اسی کے مطابق بینکوں کو 12 بڑے کھاتوں کے خلاف دیوالہ درخواست کرنے کو کہا تھا۔ بینکوں کی جتنی رقم قرض میں پھنسی ہے اس کا 25 فیصد انہی بڑے کھاتوں پر بقایہ ہے۔ٹھاکر نے اپنے آر ٹی آئی درخواست میں آچاریہ نے تقریر میں جس فہرست کا ذکر کیا تھا اسی فہرست کی تفصیل مانگی ہے۔ انہوں نے ان کھاتوں سے متعلق نوٹ شیٹ اور خط وکتابت کی جانکاری بھی مانگی تھی۔
ریزرو بینک نے ان کو اس کی جانکاری دستیاب کرانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خفیہ اطلاع ہے۔ اس کے بعد ٹھاکر نے سی آئی سی میں اپنی اپیل کی۔انفامیشن کمشنر سریش چندرا نے معاملے پر غور کرتے ہوئے کہا کہ چیف پبلک انفارمیشن افسر (سی پی آئی او) نے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (ڈی) (تجارتی بھروسہ) کے تحت اطلاع دینے سے انکار کیا ہے۔ جبکہ پہلے اپیلی اتھارٹی نے کہا کہ دفعہ 8 (1) (ڈی) کے تحت چھوٹ اس معاملے میں نافذ نہیں ہوتی، لیکن یہ ریزرو بینک قانون کی دفعہ 45سی اور ای کے تحت آتی ہے جس میں تمام بینکوں کے قرض سےمتعلق اطلاع کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔
حق اطلاع کے تحت تنازعہ تصفیہ عمل دو مرحلوں میں ہوتا ہے۔ اسی عمل میں سی پی آئی او کو درخواست پر رد عمل ملتا ہے اور وہ اس کا جواب دیتا ہے۔وہ اگر اطلاع دینے سے انکار کرتا ہے تو اس کو تنظیم کے اندر ہی سینئر افسر جس کو پہلا اپیلی اتھارٹی کہا جاتا ہے، کے سامنے چیلنج دیا جاتا ہے۔ اگر امید وار اس کے بعد بھی مطمئن نہیں ہو پاتا ہے تو دوسری اپیل سی آئی سی کے سامنے کی جا سکتی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)