رکن پارلیامانوں کو لکھے ایک خط میں سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے کہا،’میں پارلیامنٹ کے ہرایک ممبر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ آر ٹی آئی کو بچائیں اور حکومت کو انفارمیشن کمیشن اور اس اہم حق کو مارنے کی اجازت نہ دیں۔ ‘
سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو۔ (فوٹو بشکریہ : فیس بک)
نئی دہلی: سابق مرکزی انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے رکن پارلیامان سے آر ٹی آئی(ترمیم) بل، 2019 کو پاس کرنے سے روکنے کی اپیل کی اور کہا کہ مجلس عاملہ قانون ساز مجلس کی طاقت کو چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔سبھی رکن پارلیامان کو لکھے ایک کھلے خط میں، آچاریہ لو نے شفافیت کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے مودی حکومت آر ٹی آئی قانون کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس کے ذریعے آر ٹی آئی کے پورے نظام کو مجلس عاملہ کی کٹھ پتلی بنانا چاہ رہی ہے۔
شری دھر آچاریہ لو نے خط میں لکھا، ‘ راجیہ سبھا کے ممبروں پر ذمہ داری زیادہ ہے کیونکہ وہ ان ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جن کی آزاد کمشنر کو تقرری کرنے کی طاقت مرکز کو دی جا رہی ہے۔ میں پارلیامنٹ کے ہرایک ممبر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ آر ٹی آئی کو بچائیں اور حکومت کو انفارمیشن کمیشن اور اس قیمتی حق کو مارنے کی اجازت نہ دیں۔ ‘
اگر
آر ٹی آئی ترمیم بل پاس ہو جاتا ہے تو مرکزی انفارمیشن کمشنر (سی آئی سی)، انفارمیشن کمشنروں اور ریاست کے چیف انفارمیشن کمشنروں کی تنخواہ اور مدت کار میں تبدیلی کرنے کی اجازت مرکز کو مل جائےگی۔ آر ٹی آئی قانون کے مطابق؛ ایک انفارمیشن کمشنر کی مدت کار پانچ سال یا 65 سال کی عمر، جو بھی پہلے پورا ہو، کی ہوتی ہے۔
ابھی تک چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کی تنخواہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کی تنخواہ کے برابر ہے۔ وہیں ریاستی چیف انفارمیشن کمشنر اور ریاستی انفارمیشن کمشنر کی تنخواہ الیکشن کمشنر اور ریاستی حکومت کے چیف سکریٹری کی تنخواہ کے برابر ہے۔آر ٹی آئی ایکٹ کے
آرٹیکل 13 اور 15 میں مرکزی انفارمیشن کمشنر اور ریاستی انفارمیشن کمشنر کی تنخواہ، الاونس اور دیگر سہولیات متعین کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ مرکز کی مودی حکومت اسی میں ترمیم کرنے کے لئے بل لےکر آئی ہے۔
آر ٹی آئی کی سمت میں کام کرنے والے لوگ اور ادارے اس ترمیم کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کو لےکر شہری سماج اور سابق کمشنر نے سخت اعتراض کیا ہے۔آچاریہ لو نے اپنے خط کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ مودی حکومت انفارمیشن کمیشن کو ملے آئینی تحفظ کو ختم کر دےگی اور اس کی وجہ سے کمیشن کی آزادی اور خودمختاری سرکاری محکموں کی کٹھ پتلی بنکر رہ جائےگی۔
آر ٹی آئی ترمیم کے ذریعے انفارمیشن کمیشن کا درجہ کم کرنے پر آچاریہ لو نے کہا، ‘ سپریم کورٹ نے آر ٹی آئی کو آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت آئینی حق قرار دیا ہے، جو کہ بولنے اور اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن حقِ رائے دہندگی کو نافذ کرتا ہے، جو کہ آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت اظہار رائے کا حصہ ہے۔سابق انفارمیشن کمشنر نے آگے لکھا، ‘ ایک طرح سے، مرکزی الیکشن کمیشن اظہار رائےکے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو نافذ کرتا ہے جبکہ مرکزی انفارمیشن کمیشن اظہار رائے کے وسیع پہلو، رائٹ تو انفارمیشن کو نافذ کرتا ہے۔ انفارمیشن حاصل کئے بنا کوئی بھی شہری اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا ہے یا حکومت کی غلط پالیسیوں کی تنقید نہیں کر سکتا ہے۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘ اگر قانون کے مطابق آر ٹی آئی درخواست کا جواب دیا جاتا ہے، تو یہ سیدھے حکومت، خاص طورپر عوامی سہولیات کے نظام اور بد عنوانی کو اجاگر کرےگا۔ ‘وہیں، آر ٹی آئی کی سمت میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم این سی پی آرآئی نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کر کے مجوزہ آر ٹی آئی ترمیم بل کی سخت تنقید کی ہے۔
آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت انفارمیشن کمیشن اطلاع پانے سے متعلق معاملوں کے لئے سب سے بڑا اور آخری ادارہ ہے، حالانکہ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔سب سے پہلے امید وار سرکاری محکمے کے پبلک انفارمیشن آفیسر کے پاس درخواست دیتا ہے۔ اگر 30 دنوں میں وہاں سے جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار پہلے اپیلیٹ اتھارٹی کے پاس اپنی درخواست بھیجتا ہے۔
اگر یہاں سے بھی 45 دنوں کے اندر جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار سینٹرل انفارمیشن کمیشن یا ریاستی انفارمیشن کمیشن کی پناہ لیتا ہے۔ لیکن ملک بھرکے انفارمیشن کمیشن کے حالات بےحد خراب ہیں۔
(سابق مرکزی انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو کے پورے خط کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)