آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ سازشری رام مادھو نے مسلمانوں کو ایک تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے جس سے وہ ہندوستان میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں کہ مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور مسلمان جہاد کے نظریے سے خودکو الگ کریں۔
رام مادھو/ فوٹو: بہ شکریہ فیس بک
ہندوستان کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کے ذریعے ٹی وی کے ایک لائیو شو میں پیغمبر اسلام کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے خلاف عالم عرب کے رد عمل نے عرب دنیامیں ہندوستانی سفارت کاری کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے۔
دس دن تک ہندوستان میں مسلمان نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے خلاف کاروائی کی مانگ کر رہے تھے، مگر ان کو عرب دنیا کے رد عمل کے بعد ہی پارٹی سے معطل کر دیا گیا۔
پاکستان، ترکی، ملیشیا بشمول آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے احتجاجات کو ہندوستانی عموماًحکومتیں نظر انداز یا مسترد کرتی تھیں، مگر عالم عرب کے رد عمل کی وجہ سے آجکل آئے دن مشرق وسطیٰ میں موجود ہندوستان کے سفارت کار ان ملکوں کے متعلقہ فارن آفیسز، میڈیا کے نمائندوں، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افرادکے دروازوں پر دستک دےکر یہ پیغام دینے کی کوششیں کررہے ہیں کہ بی جے پی کے ترجمانوں کا رد عمل اضطراری تھااور حکومت کا ان کے اس عمل کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے اوران کو اس کے لیے سزا بھی دی گئی ہے۔
کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں عالمی فورمز پر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے 2019سے سزا کے بطور ہندوستانی وزارت خارجہ نے ترکی کے ساتھ فارن آفس ڈائیلاگ کو معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ مگر اس قضیہ کے بعد آناً فاناً وزارت خارجہ میں سکریٹری ویسٹ سنجے ورما نے انقرہ کا دورہ کرکے اس ڈائیلاگ کا احیا ء کر دیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں ترکی بھی عربوں کی طرح سرکاری طور پر احتجاج نہ درج کروادے۔
سینکڑوں سالوں کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں یا ان کے حکمرانوں نے عصبیتوں اور ذاتی فوائد سے بالاتر ہوکر ایک جسد واحد کی حثیت سے عمل یا ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، تو اس کے خاصے دیرپا اور مثبت نتائج نکلے ہیں۔ عالم عرب کے اس رد عمل نے ہندوستان میں ہندو قوم پرستوں کی نیندیں بھی حرام کر کے رکھ دیں ہیں۔
اس سے قبل چاہے بابری مسجد کی مسماری کا ایشو ہو یا فرقہ وارانہ فسادات، ان کے فوراً بعد ہی کسی جید عالم دین یا دینی تنظیم کے رہنماؤں کو حکومت کی طرف سے مسلم ممالک کا دورہ کرواکے وہاں کے حکمرانوں تک پیغام پہنچایا جاتا تھا کہ یہ بس چند شر پسندوں کی کارستانی تھی اور یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور حکومت اس سے احسن و خوبی کے ساتھ نپٹ رہی ہے۔ان کو یہ بھی باور کرایا جاتا تھا کہ ان کی مداخلت سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوسکتی ہے۔
مگر چونکہ اس وقت معاملہ پیغمبر اسلام کا تھا، اور شاید اب جید عالم دین یا دینی تنظیم کے لیڈر وں کو اس حد تک کنارے لگایا جا چکا ہے کہ وہ اب مسلم ملکوں میں ہندوستانی حکومت کی غیر سرکاری سفارت کاری کرنے سے گریزاں ہیں، اس لیے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے سفارت کار عالم عرب میں برپا ہونے والے رد عمل کی روک تھام نہیں کر پا رہے ہیں۔
یہ رد عمل کس حد تک چبھ رہا ہے کہ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ سازشری رام مادھو نے مسلمانوں کو ایک تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے جس سے وہ ہندوستان میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں کہ مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور مسلمان جہاد کے نظریے سے خودکو الگ کریں۔
پہلی اور تیسری شرط کے لیے مشاہرین اورعلماء کو رام مادھو کو جواب دینا چاہیے، دوسری شرط یعنی مسلمانوں کے امت کے تصورسے ہمیشہ ہی نہ صر ف ہندو قوم پرست بلکہ لبرل عناصر بھی نالاں رہے ہیں اور ایک عرصہ سے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس کو رد کردیں۔
مجھے یا د ہے کہ ایک بار کشمیر کے بارے میں نئی دہلی میں محکمہ دفاع کی ایک تھنک ٹینک نے ایک سمینار کا انعقاد کیا تھا۔ جہاں ایک سرونگ برگیڈیر نے امت کے اس تصور کو ہی کشمیر کے ایشو کی جڑ قرار دےکر تجویز دی کہ اس کو بیج کنی کرنی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے مکہ میں فریضہ حج ادا کرنے سے بھی اس تصور کو تقویت ملتی ہے۔ اس لیے ان کی تجویز تھی کہ ہندوستان میں ہی مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کرکے یا مسلمانوں کو ہر سال سعودی عرب جانے کے بجائے درگاہ اجمیر جانے کی ترغیب دلائی جائے۔
اسی طرح ایک بار ایک ٹریک ٹو ڈائیلاگ میں بظاہر نہایت ہی لبرل کشمیری پنڈت دانشور نے بھی مسلمانوں کے امت کے تصور کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ بس یہی ایک چیز بین المذاہب ڈائیلاگ میں رکاوٹ آتی ہے۔ ان دنوں فرانس میں سکھوں کی پگڑی پہننے کا معاملہ درپیش تھا،اور ہندوستانی حکومت نے اس کو حکومت فرانس کے ساتھ اٹھایا تھا اور چین کے کیلاش پہاڑوں میں ہندوؤں کی مانسرور یاترا کی تیاریا ں بھی ہو رہی تھیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آخر ان دونوں معاملات پر پھر ہندوستانی حکومت کیوں اتنی زیادہ فعال ہے؟ اس تصور کو تو پھر ہندو ازم سے بھی خارج کرنا ضروری ہے۔
2007میں سمجھوتہ ٹرین دھماکوں کے بعد جب ہندو دہشت گردی کی بازگشت سنائی دینے لگی تو میں نے جنوبی دہلی میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ہیڈ کوارٹر میں ہندو قوم پرستوں کے شعلہ بیان لیڈر ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا کا انٹرویو کیا۔
وہ اس وقت تنظیم کے انٹرنیشنل جنرل سکریٹری تھے۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیاکہ،آپ توایک ڈاکٹرہیں اور وہ بھی کینسر اسپیشلیسٹ۔ آپ انسانوں کے جسم سے کینسر دور تو کرتے ہیں، مگر سوسائٹی میں کیوں کینسر پھیلاتے ہیں۔ تو ان کا جواب تھاکہ ہم ہندوستانی سوسائٹی میں مدرسہ اور مارکسزم کو کینسر مانتے ہیں اور ان دونوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے وچن بند ھ ہیں۔ چاہے اس کے لیے سرجری کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے۔
کئی اور سوالوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ ہندوستان میں تو تقریباً 15کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ اور ان سبھی کو تو آپ ختم نہیں کرسکتے۔ کیا کوئی شکل نہیں کہ ہندو اور مسلمان شانہ بہ شانہ پرامن زندگی گزارسکیں۔تو اپنے مخصوص انداز میں میز پر مکہ مارتے ہوئے انہوں نے کہا،ہاں ہاں کیوں نہیں،ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستان کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں اعانت کی ہے۔ مگر ہمیں شکایت مسلمانوں کے رویہ سے ہے۔
وہ اپنے مذہب کے معاملے میں احساس برتری کا شکار ہیں۔ وہ ہندوؤ ں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزت نہیں کرتے۔ ہمیں مسلمانوں سے کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں۔
میں نے ان سے پوچھا، کہ آیا ہندو جذبات سے ان کی کیا مراد ہے توان کا کہنا تھاکہ ہندو کم و بیش 32کروڑدیو ی دیوتاوں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ ہی اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں ۔
اپنے دفتر کی دیوار پر سکھ گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، توگڑیا نے کہاکہ دیگر مذاہب یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوؤ ں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا۔
اور تو اور مسلمان محمود غزنوی، اورنگ زیب، محمد علی جناح، اور دہلی کے امام احمد بخاری کو اپنا رہنما مانتے ہیں، یہ سبھی ہندو رسوم و رواج کے قاتل تھے۔ شاید ہی کوئی مسلمان عبدالرحیم خان خاناں، امیر خسرویا اسی قبیل کے دانشورں کو قابل تقلید سمجھتا ہے۔ یہ سبھی شخصیتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں، مگر بخاری اور امام علی نہیں ہوسکتے۔
اسی طرح ایک روز ہندوستانی پارلیامان کے سینٹرل ہال میں میں نے صوبہ اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ، جو ان دنوں ممبر پارلیامنٹ تھے سے پوچھاکہ،آپ آئے دن مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے۔ ان کو تو ختم کیا جاسکتا ہے نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بہ شانہ پرامن زندگی گزارسکیں؟ تو انہو ں نے کہاکہ ہندو کبھی متشدد نہیں ہوتا ہے۔
تاریخی حوالے دےکر وہ کہنے لگے، ہندو حکمرانوں کے کبھی بھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں۔مگر اب و ہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں۔ اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ ہندوؤ ں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں۔ ہندوؤ ں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزت نہیں کرتے اور ہندو جذبات کا خیال نہیں رکھتے۔
لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جارہی تھی، مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی۔ یوگی جی اب ایوان میں جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ مگر جاتے جاتے پروین توگڑیا کا جملہ دہرایاکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں۔
اسی طرح غالباً گجرات فسادات کے بعد 2002 میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر فتر ناگپور چلا گیا۔ جس میں اعلیٰ پایہ مسلم دانشور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کے لیڈر شپ کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔
جب اس وفد نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔
اسلام ہی حق ہے کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جارہا ہے۔ آرایس ایس علماء دانشوروں پر مبنی اُس وفد کواُس وقت قائل نہیں کرسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور اُس مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا، اس بات کی بھی وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔
اپنی سوانح حیات’یادوں کی برات’ میں معروف شاعر جوش ملیح آبادی ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے ساتھ اپنی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
انہوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا، آپ نے سنا ہوگا کہ میں مسلمان کا دشمن ہوں آپ جس قدر خوفناک برہنہ گفتار آدمی ہیں، اسی قدر میں بھی ہوں، اس لیے آپ سے صاف صاف کہتا ہوں میں آپ کے ان تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں، جن کے خاندان باہرسے آکر، یہاں آباد ہو گئے ہیں، لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا، جن کا تعلق ہندوقوم کے شودروں اور نیچی ذاتوں سے تھا، اور مسلمانوں کی حکومت کے اثر میں آکر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، یہ لوگ دراصل نہایت متعصب، شریر، اور فسادی ہیں، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود، ہندو اکثریت کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
سردار پٹیل کا یہ جملہ ہندو قوم پرستوں کی پوری ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کو امت کے تصور سے زیادہ اسلام کے آفاقی سماجی انصاف کے نظام سے خطرہ لاحق ہے، جو حج کے وقت یا امت کے تصور چاہے وہ تخیلی ہی کیوں نہ ہو، سے ظاہر ہوجاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ پچھلے ایک ہزار برسوں سے اس خطے پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمان جنوبی ایشیاء میں اس سماجی انصاف کے نظام کو لاگو نہیں کرپائے، بلکہ خود ہی طبقوں اور ذاتوں میں بٹ گئے، ورنہ شاید اس خطے کی تاریخ اور تقدیر ہی مختلف ہوتی۔