حزب اختلاف کا کردار اور آر ایس ایس کی وہی پرانی سازش …

اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں طاقتور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف کیےجانے والے سفاک حملوں کی دھارکند کرنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے واجپائی پر اپنی طرف سے منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ آج نریندر مودی کے سامنے بھی مضبوط اپوزیشن ہے، اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اسی تجربے کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں طاقتور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف کیےجانے والے سفاک حملوں کی دھارکند کرنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے واجپائی پر اپنی طرف سے منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ آج نریندر مودی کے سامنے بھی مضبوط اپوزیشن ہے، اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اسی تجربے کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سرسنگھ چالک موہن بھاگوت۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@RSSOrg)

سرسنگھ چالک موہن بھاگوت۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@RSSOrg)

نئی دہلی: کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جیسے ہی ملک کے رائے دہندگان نے اپوزیشن کو طاقت بخشی ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت ‘جمہوری اقدار اور باہمی احترام کے پیروکار’ بن گئے اور اپنے سیاسی محاذ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے ’سپر ہیرو‘  نریندر مودی کو ’آئینہ دکھانے‘کابھرم پیدا کرنے لگے کہ دیر سے ہی صحیح آر ایس ایس اور بی جے پی-مودی کے تضادات کی پرتیں الجھنے اور کھلنے لگی ہیں؟

‘نہیں،قطعی نہیں’۔آر ایس ایس اور بی جے پی کو ٹھیک سے سمجھنے والے مبصرین کے پاس اس سوال کا ایک ہی ‘ڈیفنٹ، سرٹین، پازیٹو اینڈ ایبسولیوٹ’ جواب ہے، ‘یہ اتفاق نہیں، اٹل بہاری واجپائی کے وزارت عظمیٰ میں شروع ہوئے آر ایس ایس کے انتہائی پرعزم  تجربے کا اعادہ ہے اور اس کا واحد مقصد اقتدار کے ساتھ اپوزیشن کے کردار کو بھی اپنے دست تصرف میں لے لینا ہے۔ تاکہ ان میں سے کوئی بھی فریق سنگھ پریوار کی دسترس سے باہر نہ رہے اور دونوں میں اس کی بھرپور رسائی ہو۔

اٹل کے دور اقتدار کے  تجربے کا اعادہ

اٹل کے دور اقتدار میں ہوش سنبھالنے والےقارئین کو  ابھی بھی یاد ہوگا کہ اس وقت کس طرح آر ایس ایس نے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف طاقتور اپوزیشن کی طرف سے کیے جانے والے سفاک حملوں کی دھار کو کند کرنے کے لیے آر ایس ایس نے اپنی طرف سےان  پر منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ اسی سلسلے میں، اس کے مزدور رہنما دتوپنت ٹھینگڑی نے  اٹل کو ‘ہندوستان کی تاریخ کا سب سے کمزور وزیر اعظم’ تک کہہ ڈالا تھا۔ یہی نہیں، اٹل کی حکمرانی کے انداز، یہاں تک کہ وزراء کے انتخاب تک کے حوالے سے بھی سنگھ سفاک  تنقیدی موقف اپناتا تھا۔

مودی خوش قسمت ہیں کہ  وہ اپنے اب تک کے دس سالوں میں سنگھ کے اس نوع کے حملوں سے محفوظ رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس عرصے میں یعنی 2014 اور 2019 کے دونوں لوک سبھا انتخابات میں اٹل کے برعکس انتہائی کمزور اپوزیشن سے ان کا  سابقہ پڑا۔ جس کے باعث  یہ ان کی آسمانی پروازوں کے دن تھے – ‘کانگریس مکت(پڑھیے اپوزیشن سے پاک) بھارت’ کی اپیل کے دن تھے۔ فطری طور پر آر ایس ایس نے اس وقت ایسی بے جان اپوزیشن سے اس کےکردار کو چھیننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ورنہ اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے بھاگوت، مودی اور ان کی حکومت کے جن عزت مآب کا اب ذکر کر رہے ہیں،ان کا جنم اسی دور میں ہوا۔

یہاں ایک اور سوال ہے کہ اگر لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اکثریت سے پیچھے نہ ہوتی اور مودی نے اسے ‘چار سوپار’ لے جانے کا معجزہ انجام دے دیا ہوتا تو کیا موہن بھاگوت ان  کی انانیت ، طور طریقوں  اور منی پور کوسال بھر جلتا چھوڑے رہنے کے بارے میں اتنی ہی بےباکی سے زبان کھولتے؟

نہیں، پچھلے دس سالوں میں ان کا طرز عمل اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس وقت وہ ‘ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی’ پر  عمل کرتے نظر آتے۔تعجب نہیں کہ ان کے قصیدے بھی پڑھتے۔آخر کار، 22 جنوری 2023  کو ایودھیا میں رام للا کی پران—پرتشٹھا کی تقریب  تک تو ان کا یہی  کہنا تھا کہ ‘مودی تپسوی  ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں۔’

اس وقت انہیں سیکولر ہندوستان کے وزیر اعظم کےیکطرفہ طور پر اکثریتی مذہب کا کفیل بن جانے میں کوئی بے حیائی نظر نہیں آئی تھی۔ابھی بھی، ان کے جمبو کابینہ میں مسلمانوں کی برائے نام کی بھی  شرکت کی عدم موجودگی میں کچھ بھی  غیر منصفانہ یا غیر جمہوری نظر نہیں آتا۔

اس وقت تو خاموشی اختیار کر رکھی تھی

ٹھیک ہے کہ اب انہیں اس ‘تپسیا’ پر  اَنا  کا غلبہ نظر آنے لگا ہے، لیکن اس وقت  تو  اپواس بھی تپسیانظر آتی تھی۔ اسی لیے تو انہوں نے ‘ایک سچے سیوک کوگھمنڈ سے  دور رہ کر، دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اور ‘مریادا’کی پیروی کرتے ہوئے کام کرنے’ کی بات نہیں کی۔ لوک سبھا انتخاب کا  مقابلہ جھوٹ پر مبنی ہو گیاتو بھی  انہوں نے یہ کہنے کے لیے نتائج کے اعلان ہونے تک انتظار کیا کہ ‘مریاداکا  خیال رکھا جانا چاہیے تھا’۔

غور کیجیے، اگر وہ اسی وقت مداخلت کرتے جب لوک سبھا کے انتخابات ایک جنگ کی طرح لڑے جا رہے تھے اور مودی اپنے نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اول جلول  کچھ بھی بول کر لگاتار سماجی اور ذہنی دراڑیں بڑھانے اور تفرقہ پیدا کرنے پر اتر آئے تھے، تو ملک اور اس کے اہل وطن کا کتنا بھلا ہوتا! لوک سبھا انتخابات سے پہلے کمزور اپوزیشن بار بار منی پور کا مسئلہ پارلیامنٹ کے اندر اور باہر اٹھا رہی تھی، اور مطلق العنان مودی دونوں جگہوں پر ان سنی کر رہے تھے۔ تب  بھاگوت ایک بار کہہ دیتے کہ منی پور کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا وزیر اعظم کا فرض ہے، تو اس کا آج یہ کہنے سے سو گنا زیادہ اثر ہوتا۔

لیکن انہوں نے اس کے لیے بڑی چالاکی سے سازگار ماحول  کا انتظار کیا، اور منہ کھولا تو  بھی  لوک سبھا انتخابات کے دوران ‘دونوں فریق نے  کمر کس کر حملہ کیا’کہتے ہوئے  ‘موافق سچائی’ سے ہی کام چلایا۔ یہ کہنے کی ہمت نہیں کی کہ حکمران جماعت نےاپنی مطلق العنانیت کی کوئی حد نہیں جانی۔ اورتو اور، ‘ انتخابی مہم میں آر ایس ایس کو غیر ضروری طور پر گھسیٹا گیا اور جھوٹ پھیلایا گیا’، توبھی انتخابی نتائج سے پہلے ان کے ہونٹ نہیں کھلے۔ انہوں نے مختلف مسائل پر اتفاق رائے کی روایت کو بھی اسی وقت یاد کیا جب مودی حکومت این ڈی اے حکومت میں تبدیل ہوگئی۔

کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مودی سرکار  کے  سامنے کوئی اپوزیشن نہ رہنے تک انہیں ہاہمی احترام  کے فقدان اور گھمنڈسے کوئی دقت نہیں تھی، اور اب یہ دقت  اس لیے ہونے لگی ہے کہ وہ طاقتور اپوزیشن سے اس کے کردار کی چمک کو ‘چھین’ لینا چاہتے ہیں؟ کون جانتا ہے کہ اپوزیشن بھی اس بات کو سمجھ رہی ہے یا بہت سے حلقوں کی طرح اسے اپنی طرف پھینکے گئے جال کے بجائے امید کی طرح لے رہی ہے۔ تاہم، اس میں اس کے لیے اتنا بھی امکان نہیں ہے، جتنا  بی جے پی کی عام سی اندرونی  لڑائی یا مودی یوگی تضادات میں  ہو سکتا ہے۔

مخالفین تو کب کے ‘دشمن’ بن چکے

ذرا سوچیے، پچھلے دس سالوں میں اپوزیشن لیڈروں سے دشمنی نبھانے والی مودی حکومتوں کے خلاف ایک لفظ تک نہ بولنے والے بھاگوت اب اپوزیشن کے لیے مخالف کے بجائے حزب اختلاف کا لفظ تجویز کرکے حکمراں  اور اپوزیشن  کوایک ہی سکے کے دو رخ کہہ کر خوش ہو رہے ہیں ، جبکہ کسی بھی جمہوری ملک کو حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے ایک ہی سکے کے دو رخ میں بدل جانے سے ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ صورتحال اسے کسی بھی سماجی یا سیاسی تبدیلی کے امکان سے محروم کرنے کی سمت میں گامزن کر سکتی ہے۔

یقیناً، بھاگوت نے اپنی تقریر میں کچھ ‘بھلی’ باتیں بھی کہی ہیں۔ ویسے ہی ، جیسے پہلے کہتے  رہے ہیں۔ مثال کے طور، پر اس ملک کے تمام لوگ بھائی بھائی ہیں اور ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ لیکن چونکہ ان کا پریوار ایسی ‘بھلی’ باتوں کو زبانی جمع خرچ تک  ہی محدود رکھتا ہے اور عملی جامہ نہیں پہناتا، اس لیے وہ کوئی امید پیدا نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے کہ منواسمرتی اور برہمنی برتری پر مبنی ہندو راشٹر کے قیام کا آر ایس ایس کاہدف ان کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت تو  ان سے کوئی امید ہی نہیں کرتی۔

سچ پوچھیں تو اس بار مودی کے ‘چار سو پار’ کے نعرے نے بھی آر ایس ایس کے اسی مقصد کی قیمت چکائی۔ ووٹروں کو خدشہ تھا کہ بی جے پی کو ‘چار سو بار’ پہنچانے کے بعد مودی آئین میں تبدیلی کر کے ملک کو آر ایس ایس کے خوابوں کا  ہندو راشٹر بنا دیں گے اور انہوں نے اس ڈر کے خلاف مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھاگوت  بول ہی  رہے تھے تو ان کو اس صورتحال پر بھی کچھ کہنا چاہیے تھا، لیکن وہ اس پر ‘دانشمندانہ’ خاموشی   اختیار کیے رہے۔

ہار ٹالتے کہ  اس کے اندیشے اور بڑھاتے؟

یہ بے وجہ نہیں ہے کہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ مودی کی قیادت میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو چکی بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں آر ایس ایس کی مدد کی ضرورت نہ ہونے جیسی جو باتیں بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ‘انڈین ایکسپریس’ سے انٹرویو میں کہیں، وہ ہار کو سامنے کھڑی دیکھ کر آر ایس ایس کوہار کے داغ سے بچانے کی کوشش محض تھیں۔

اب بہت سی باتوں کے درمیان بھاگوت بھی یہی ثابت کر رہے ہیں – یہ کہہ کر کہ ‘ہم سے تو ٹھیک سے کہا ہی نہیں گیا’، ورنہ تکبر اور مجازی پروپیگنڈے کی وجہ سے بی جے پی کی جو  حالت ہوئی ہے،اسے  نہ ہونے دیتے—تو بھی اسی نظریے کی  تصدیق ہوتی ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ طاقتور آر ایس ایس ‘بہت سرگرم’ ہونے کے باوجود بی جے پی کو شکست سے کیسے بچا سکتی تھی؟ ‘چار سو پار’ کے مودی کے نعرے سے جڑے ملک کے آئین اور جمہوریت کے خاتمے کا خوف اوربڑھادیتا اور بی جے پی کی حالت مزید خراب ہوجاتی۔

ظاہر ہے کہ زمینی صورتحال کا جائزہ لینے میں مودی اور بی جے پی نے جو غلطی کی ہے اس میں آر ایس ایس کا بھی حصہ ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی عبرتناک شکست کے بعد یہ لکھتے ہوئے کہ انتخابات جیتنے کے لیے اب ہندوتوا اور مودی کا نام کافی نہیں ہے، اس کے انگریزی ماؤتھ پیس  ’آرگنائزر‘ نے بھی کہا تھا کہ ہندوتوا اور مودی کا نام تب ہی کام کرتا ہے جب ریاستوں میں اچھی حکمرانی ہو۔ لیکن مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت کے بعد  ایسی کوئی سخت بات کہنے سے وہ گریز کرتا رہا۔ اب ضرور پھر سے وہ  اپناتیور دکھا رہا ہے۔

تو ملک کو کیا؟

آخر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مودی کے دس سال کے دور اقتدار میں آر ایس ایس کے سویم سیوکوں  نے تمام جمہوری تقدس کو پامال کرتے ہوئے نہ صرف مرکزی اور بیشتر ریاستی حکومتوں کی قیادت بلکہ اعلیٰ آئینی عہدوں اور اداروں پر بھی قبضہ کر لیا اور لگاتار ان کے وقار کو ختم کرنے میں بھی مصروف رہے، تو بھی  بھاگوت کو  جمہوری قدروں کی یاد نہیں آئی، انہوں نے کبھی یہ اشارہ نہیں دیا کہ آر ایس مطلوبہ ہندو راشٹر کے لیےجمہوری ہندوستان سےکبھی براہ راست  تو کبھی خفیہ دشمنی کی اپنی پرانی پالیسی سے گریز کرے گایا اپنے نقطہ نظر کو رجعت پسندی سے آزاد کرے گا۔

اگر وہ ‘منواسمرتی’ کے دلائل کے ساتھ دلتوں، پسماندہ طبقات، خواتین اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری ماننے کے اپنے بانی ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار اور ‘گرو جی’ یعنی مادھو سداشیو گولوالکر کی سوچ کے دائرہ کار کو پار نہیں کرنا چاہتا تو اور کچھ بے سود ‘بھلی’ باتوں کی مدد سے اپنی جمہوریت کا ایک نیا بھرم پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے ذریعے مودی اور اس کی حکومتوں کے تکبر اور انا پرستی کو تنقید کا نشانہ بنا کر کیا حاصل کرے گا اور ملک کو ان سے کوئی امید کیوں رکھنی چاہیے؟ خاص طور پر جب ملک نے اس کے لیے باقاعدہ ایک طاقتور اپوزیشن کا انتخاب کر لیا ہے۔

ملک اس بھرم کا شکار بھی کیوں ہو کہ بھاگوت بھی اسی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں جس کی اپوزیشن کرتا ہے۔ جبکہ سنگھ کےمتبادل  بالکل واضح ہیں – ہندو جمہوریت، کارپوریٹی جمہوریت،ان  دونوں کا مرکب یا آئینی جمہوریت؟

Next Article

بی جے پی کی کرناٹک اکائی کے ایکس پوسٹ میں ’گوبھی‘ کا معنی و مفہوم کیا ہے؟

کرناٹک بی جے پی کی ایک ایکس پوسٹ میں نکسلائٹ کی قبر کے پاس مرکزی وزیر داخلہ کے کیریکیچرکوایک گوبھی کے ساتھ دکھایا گیاہے۔ گوبھی کو علامتی طور پر 1989 کے بھاگلپور کے مسلم مخالف فسادات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتاہے۔ حالیہ برسوں میں اس علامتی تناظر کو شدت پسند دائیں بازو کے گروہوں کی جانب  سے بڑے جوش و خروش سےپیش کیا گیا ہے۔

ایکس/@بی جے پی کرناٹک کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصویر، جس میں امت شاہ گوبھی پکڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ایکس/@بی جے پی کرناٹک کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصویر، جس میں امت شاہ گوبھی پکڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی کی کرناٹک یونٹ کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے 23 مئی (جمعہ) کو ایک تصویر پوسٹ کی گئی ،جس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک قبر کے پاس گوبھی اٹھائے ہوئے دکھایا گیا ہے،اس قبر پر لکھا ہے – ‘آر آئی پی  نکسل واد’۔

اس پوسٹ کے ساتھ کیپشن تھا، ‘لول(ایل او ایل) سلام، کامریڈ۔’ اس کو  بائیں بازو کے نعرے ‘لال سلام’ کے خلاف طنز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پوسٹ سی پی آئی (ایم ایل) کی جانب سے ‘آپریشن کگار’کے تحت ابوجھاماڑکے جنگلات میں حالیہ ‘انکاؤنٹر’ کی مذمت کرتے ہوئے جاری کیے گئےبیان جواب میں کی گئی ہے۔

معلوم ہو کہ اس آپریشن کونیم فوجی دستوں، ریاستی پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر تلنگانہ اور چھتیس گڑھ کے گھنے اور پہاڑی جنگلات میں انجام دیا تھا، جس میں حکام کے مطابق، 27 مبینہ ماؤنواز کو مار گرایا گیا۔

سی پی آئی (ایم ایل) نے نارائن پور-بیجاپورمیں ماؤنوازوں اور قبائلیوں کے ‘وحشیانہ ماورائے عدالت قتل’ کی مذمت کی ہے ۔

پارٹی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امت شاہ کی جشن مناتی پوسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ‘ریاست آپریشن کگار کو ایک ماورائے عدالت نسل کشی مہم کے طور پر چلا رہی ہے اور شہریوں کے قتل اور کارپوریٹ لوٹ مار اور عسکریت پسندی کے خلاف آدیواسیوں کے احتجاج کو کچلنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔’

گوبھی کا علامتی مفہوم

اس پوسٹ میں گوبھی کے استعمال نے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں کو حیران کردیا۔

گوبھی کا استعمال اب مسلمانوں کی  نسل کشی کے علامتی اظہار کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔

آن لائن ہیٹ اسپیچ سےمتعلق قوانین سے بچنے کی صلاحیت رکھنے والی یہ علامت  (گوبھی)حال ہی میں ناگپور میں ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد بی جے پی کے حامی سیاسی مبصرین نے بڑے پیمانے پر شیئر کی تھی۔

اس علامت کوبہار میں 1989 کے بھاگلپور فسادات سے جوڑکر دیکھا جاتا ہے، جس میں 900 سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔ بھاگلپور کے لوگائن گاؤں میں 110 مسلمانوں کو قتل کر کے کھیتوں میں دفن کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی لاشوں پر بھی گوبھی کے پودے لگائے گئے تھے۔

حالیہ برسوں میں اس علامتی  تناظر کو الٹرا رائٹ  اور ہندوتوا گروپوں، خاص طور پر ٹریڈز نے دوبارہ اٹھایا ہے۔ ان گروہوں کی طرف سے بنائے گئے کچھ گرافکس میں برقع پوش مسلم خواتین کو بھی گوبھی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

بہت سی ہندوتوا ٹریڈز اپنے سوشل میڈیا بایو میں خود کو ‘گوبھی کا کسان’ بتاتے ہیں۔

ہندوتوا ٹریڈز کون ہیں؟

‘ٹریڈز’ کو ہندوتوا کا انتہائی بنیاد پرست طبقہ سمجھا جاتا ہے – وہ نوجوان جو خود کو تہذیب کا جنگجوتصور کرتے ہیں اور آن لائن ‘جنگ’ لڑتے ہیں۔ وہ دائیں بازو کے دوسرے لوگوں کو’انتہائی لبرل’ مانتے ہیں اور انہیں ‘ریتا’ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

یہی نہیں، وہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی کمزور سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق مودی دلتوں کے حوالے سے ‘اپیزمنٹ’ کرتے ہیں اور مسلمانوں پر ‘سخت’ موقف اختیار نہیں کرتے۔

مین اسٹریم کی جانب گامزن ٹریڈکی علامتیں

اب تک، بی جے پی اس طرح کے انتہا پسندانہ ڈسکورس اور ٹریڈکی پرتشدد علامتوں سے دوری بناکر  رکھتی  تھی ، لیکن حالیہ پوسٹ بتاتی ہے کہ پارٹی اب اسے اپنا رہی ہے۔

پچھلے ایک سال میں ٹریڈ کی  علامتوں کو مرکزی دھارے کے ہندوتوا کی زبان میں، خاص طور پر مسلمانوں کے تناظر میں زیادہ آسانی سے شامل کیا گیا ہے۔ جنوری2024 سے اب تک بی جے پی کی طرف سے پوسٹ کیے گئے بہت سے کارٹون میں یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، مثلاً پی ایم مودی کو بھگوا لباس میں مسلمانوں کے ساتھ متصادم دکھانا، یا مسلمانوں کو دلتوں کی جائیداد چھینتے ہوئے دکھانا۔

سال 2022 میں، گجرات بی جے پی کے آفیشیل ایکس ہینڈل سے ایک پوسٹ شیئر کی گئی تھی، جس میں’ستیہ میو جیتے’ کیپشن کے ساتھ درجن  بھرداڑھی ٹوپی والے لوگوں  کو پھانسی پر لٹکتا دکھایا گیاتھا۔ سوشل میڈیا پر اس کا موازنہ نازی کارٹون سے کیا گیا اور بعد میں اس ٹوئٹ کو ہٹا لیا گیا۔

تاہم، بی جے پی کا کہنا تھا کہ وہ کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنا رہی تھی اور یہ پوسٹ 2006 کے احمد آباد دھماکوں میں قصوروار قرار دیے گئے  دہشت گردوں کے حوالے سے تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

بانو مشتاق سے پہلے بھی پی ایم مودی نے دونامور شخصیات کو انٹرنیشنل ایوارڈ پر نہیں دی تھی مبارکباد

کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی’ہارٹ لیمپ’ کو انٹرنیشنل بکرپرائز ملنے پرپی ایم مودی نےانہیں مبارکباد پیش نہیں کی۔ اس سے پہلے انہوں نے رویش کمار کو ریمن میگسیسے ایوارڈ اور گیتانجلی شری کو انٹرنیشنل بکر ایوارڈ ملنے پر بھی مبارکباد نہیں دی تھی۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی عام طور پر بین الاقوامی فورمز پر مختلف شعبوں میں ہندوستانیوں کی حصولیابیوں کو عوامی طور پر تسلیم کرنے اور ان کاجشن منانے کے لیےمعروف ہیں۔ تاہم، اس میں کچھ قابل ذکر مستثنیات ہیں، جہاں ان کی خاموشی کوواضح طور پرمحسوس کیا گیاہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایسی ہی ایک مثال بانو مشتاق کی ہے، جنہیں حال ہی میں بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا، اور پی ایم مودی کی جانب سے انہیں مبارکبادنہیں دی گئی۔

معلوم ہو کہ بانو نے اپنےافسانوں کے مجموعہ’ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔

بانو کے علاوہ، کم از کم دو ایسی مثالیں اورہیں جب پی ایم مودی نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایوارڈ کے ہندوستانی فاتحین کی عوامی طور پر ستائش نہیں کی ۔

ان تینوں معاملوں میں وزیر اعظم مودی کی خاموشی کھیل، سائنس اور دیگر شعبوں میں ہندوستانی حصولیابیوں کا عوامی طور پر جشن منانے کے ان کے معمول کے بالکل برعکس ہے۔

یہ خاموشی ممکنہ طور پرترجیحی ہے، اورممکنہ طور پر ان ایوارڈ یافتگان کے سیاسی نظریات ، آئیڈیالوجی یا ان کے کام کے موضوعات کی وجہ سے بھی ہے، جن میں اکثر مذہبی اکثریت پسندی اورتفرقہ انگیز سیاست کی تنقید اور ہندوستان میں تکثیریت کی وکالت شامل ہوتی ہے۔

رویش کمار – ریمن میگسیسے ایوارڈ (2019)

ہندی کے سینئر صحافی رویش کمار کو 2019 میں باوقار ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اسے ایشیا کا نوبیل انعام بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی سیاسی اسپیکٹرم سے وسیع پیمانے پر مبارکباد کے باوجود وزیر اعظم مودی کی طرف سے  اس کامیابی پررویش کمار کو عوامی طور پر کوئی مبارکبانہیں دی گئی تھی۔

گیتانجلی شری – بین الاقوامی بکر پرائز (2022)

سال 2022 میں گیتانجلی شری کے ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ گیتانجلی شری بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی پہلی ہندوستانی ادیبہ ہیں۔ اس حصولیابی پر وزیر اعظم مودی سمیت مرکزی حکومت اور حکمراں جماعت  قابل ذکر  طور پر خاموش رہی، حالانکہ یہ کتاب جنوب ایشیائی زبان میں ایوارڈ جیتنے والی  پہلی تخلیق تھی۔

مودی حکومت کی جانب سےہندی کو فروغ دینے اور ہندوستانیوں کی کامیابیوں کے لیے بین الاقوامی ایوارڈز کا جشن منانے کے بر عکس اس معاملے پر قابل ذکر طو رپر توجہ نہیں دی گئی۔ گیتانجلی کی یہ کتاب ہندوستانی تکثیریت، سرحدوں کی بے معنویت کی ایک جرٲت مندانہ جستجو ہے اور اس میں ایک مسلمان پاکستانی مرد اور ایک ہندو ہندوستانی عورت کے درمیان مضبوط رشتے کی عکاسی کی گئی ہے۔

بانو مشتاق – بین الاقوامی بکر پرائز (2025)

اسی ہفتے ادیبہ بانو مشتاق نے اپنے افسانوی مجموعے ‘ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔ بنیادی طور پر کنڑ میں لکھی گئی اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں اپوزیشن لیڈر انہیں مبارکباد کے پیغامات بھیجتے رہے،  وہیں پی ایم مودی کی خاموش قابل ذکر طور پرمحسوس کی گئی۔

کنڑ ادب اور ہندوستانی زبان کے لیے ایوارڈ کی تاریخی نوعیت کے پیش نظر یہ کوتاہی کئی معنوں میں حیران کن ہے۔

معلوم ہو کہ یہ مجموعہ جینڈرکے بارے میں بات کرتے ہوئے پدری  نظام پر حملہ کرتا ہے۔

Next Article

راہل گاندھی کا ایس جئے شنکر پر نشانہ، کہا – ہندوستان کی خارجہ پالیسی تباہ ہو چکی ہے

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ایک ڈچ براڈکاسٹرکو دیے گئےانٹرویو کی ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ پاکستان کی مذمت کرنےمیں کسی دوسرے ملک نے ہندوستان کی حمایت کیوں نہیں کی اور کس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جنگ بندی میں ثالثی کرنے کو کہا تھا۔

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

نئی دہلی: حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے جمعہ (23 مئی) کو کہا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ‘تباہ’ ہوگئی ہے ۔

انہوں نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ڈچ براڈکاسٹر کو دیے گئے انٹرویو کی ایک کلپ شیئر کی اور ان سے پوچھا کہ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ کیوں جوڑا گیا ہے، کسی دوسرے ملک نے پاکستان کی مذمت کرنےمیں ہندوستان کی  حمایت کیوں نہیں کی، اور کس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جنگ بندی کی ‘ثالثی’ کرنے کو کہا۔

ایکس  پر ایک بیان میں  راہل گاندھی نے انٹرویو کی ایک کلپ شیئر کی، جس میں جئے شنکر سے ٹرمپ کے دعووں پرجواب دینے کے لیے کہا جا رہا تھا کہ انھوں نے آپریشن سیندور کے بعد چار دنوں کے فوجی تصادم کے بعد 10 مئی کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی’ثالثی’ کی تھی۔

ہندوستان نے تب سے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو ختم کرنے کا فیصلہ’دو طرفہ طور پر’ لیا گیا تھا، لیکن اس نے ٹرمپ کے ان دعووں کا کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا جن میں دونوں ممالک کو جوہری جنگ کے دہانے سے واپس لانا اور جنگ بندی کے لیے تجارت کا استعمال کرنا شامل ہے۔

گاندھی نے کہا، ‘کیا جے جے’بتائیں گے؛ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ  کیوں جوڑ دیا گیا ہے؟ پاکستان کی مذمت کرنے میں ایک بھی ملک نے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتا؟ ٹرمپ کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ‘ثالثی’ کرنے کو کس نے کہا؟ ہندوستان کی خارجہ پالیسی تباہ ہو چکی ہے۔’

حالانکہ گاندھی نے یہ نہیں بتایا کہ ‘جے جے’ کا کیا مطلب ہے۔ لیکن کانگریس کے رہنما جئے شنکر کو ‘جئے چند جئے شنکر’ کہہ رہے ہیں، جو کہ ‘پرتھوی راج راسو’ نظم کا حوالہ ہے، جس میں راجپوت حکمران جئے چند کوایک اور راجپوت حکمران پرتھوی راج چوہان کے خلاف محمد غوری کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔

جئے شنکر سے گاندھی کے یہ سوال وزیر اعظم نریندر مودی سے ایکس پر کئی سوال پوچھنے کے ایک دن بعد آئے ہیں۔

جمعرات (22 مئی) کو راہل گاندھی نے 12 مئی کو مودی کے قوم سے خطاب کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا ، ‘مودی جی، کھوکھلی تقریریں کرنا بند کریں۔ بس مجھے بتائیں؛آپ نے دہشت گردی پر پاکستان کے بیان پر کیوں یقین کیا؟ ٹرمپ کے سامنے جھک کر ہندوستان کے مفادات کو کیوں قربان کیا؟ آپ کا خون صرف کیمروں کے سامنے ہی کیوں ابلتا ہے؟ آپ نے ہندوستان کے وقار کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا!’

اس سے پہلے 17 مئی کو گاندھی نے کہا تھا کہ جئے شنکر کی خاموشی ‘قابل مذمت’ ہے۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ ‘ہم نے کتنے ہندوستانی طیارے کھودیے کیونکہ پاکستان کو پتہ  تھا؟ یہ کوئی غلطی نہیں تھی۔ یہ جرم تھا۔ اور ملک کو سچ جاننے کا حق ہے۔’

گاندھی نے ایک ویڈیو بھی شیئر کیا، جس میں جئے شنکر صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ آپریشن سیندور کے ‘آغاز’ میں پاکستان کو ایک پیغام بھیجا گیا تھا۔

ویڈیو میں جئے شنکر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ‘آپریشن کے آغاز میں ہم نے پاکستان کو پیغام بھیجا تھاکہ ہم بنیادی ڈھانچے  پر حملہ کر رہے ہیں، فوج پر نہیں، اس لیے فوج کے پاس اس عمل میں مداخلت نہ کرنے کا اختیار ہے۔ انہوں نے اچھی  صلاح  نہ لینے کا انتخاب کیا۔’

بی جے پی کا جوابی حملہ

دریں اثنا، جمعہ کو بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کو نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کے بیانات سے مسلح افواج کے مورال کو نقصان پہنچے گا۔

بھاٹیہ نے کہا، ‘جب آپریشن سیندور چل رہا ہے، تب راہل گاندھی لاپرواہی سے بیان دے رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آئی اے ایف کے کتنے جیٹ طیاروں کو مار گرایا گیا ہے۔ 11 مئی کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ایئر مارشل بھارتی نے کہا، ‘ہم جنگ کی صورتحال میں ہیں، اس سوال کا جواب دینا ہمارے لیے عقلمندی نہیں ہے۔ راہل گاندھی پاکستان سے بات چیت میں مصروف ہیں کہ ہندوستان اور فوج کے حوصلے کیسے پست کیے جائیں۔ وہ اس پر دھیان نہیں دیتے اور پوچھتے ہیں کہ کتنے جیٹ طیارے گم ہو گئے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘آج پاکستان کی سینئر رہنما مریم نواز نے بیان دیا کہ 6 اور 7 مئی اور 9 مئی کی درمیانی شب ہندوستان کی کارروائیوں سے پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان خود اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردوں کے 9 پیڈ اور 11 فضائی اڈوں کو تباہ کیا۔ ایسے وقت میں اپوزیشن لیڈر اور نشان پاکستان راہل گاندھی کیا کہہ رہے ہیں؟’

انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کس طرف رہنا چاہتے ہیں۔

Next Article

کیرو ہائیڈرو کیس میں ستیہ پال ملک سمیت 6 دیگر کے خلاف سی بی آئی کی چارج شیٹ، آئی سی یو میں سابق گورنر

کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ معاملے میں سی بی آئی نے تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت  کو سونپے ہیں۔ اس معاملے میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ دریں اثنا ملک نے بتایاہے کہ وہ شدید بیمار ہیں۔

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے جمعرات (22 مئی) کو جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کیس میں چارج شیٹ داخل کی ۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ، سی بی آئی نے اس معاملے میں تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت کو سونپے ہیں۔ یہ چارج شیٹ اس سال 22 فروری کو ملک کے گھر اور دیگر جائیدادوں پر سی بی آئی کے چھاپے کے بعد داخل کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں ستیہ پال ملک کے علاوہ چناب ویلی پاور پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ (سی وی پی پی پی ایل) کے اس وقت کے چیئرمین نوین کمار چودھری ادھیکاری ایم ایس بابو، ایم کے متل اور ارون کمار مشرا کے علاوہ تعمیراتی فرم پٹیل انجینئرنگ لمیٹڈ کا بھی نام لیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ یہ معاملہ 2019 میں جموں و کشمیر کے کشتواڑ ضلع میں ایک ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کے سول کام کے لیے ایک نجی کمپنی کو 2200 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دینے میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔

سال2022 میں کیرو ہائیڈرو پروجیکٹ کیس میں سی بی آئی کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں جموں و کشمیر اے سی بی اور محکمہ بجلی نے تحقیقات کی تھی۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘ان رپورٹس کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ کیرو ہائیڈرو الکٹرک پاور پروجیکٹ کے سول ورکس پیکج کے ای-ٹینڈرنگ سے متعلق گائیڈ لائنز پر عمل نہیں کیا گیا  تھااور چناب ویلی پاور پروجیکٹس کے 47ویں بورڈ میٹنگ میں ریورس آکشن(نیلامی) کے ساتھ ای-ٹینڈرنگ کے ذریعے دوبارہ ٹینڈر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم جاری ٹینڈر کو رد کرنے کے بعد بھی اسے لاگو نہیں کیا گیااور آخر کارٹینڈرمیسرز پٹیل  انجینئرنگ کو دے دیا گیا۔’

یہ بھی کہا گیا ہے کہ 4287 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت والا پروجیکٹ ناقص کام کے الزامات اور مقامی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے برباد ہو گیا۔

معاملے کی اے سی بی جانچ میں پایا گیا کہ چناب ویلی پاور پروجیکٹ کی47ویں بورڈ میٹنگ میں پروجیکٹ کے لیے ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا تھا، لیکن اسے 48ویں بورڈ میٹنگ میں واپس لا کر پٹیل انجینئرنگ کو دیا گیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ 23 اگست 2018 سے 30 اکتوبر 2019 تک جموں و کشمیر کے گورنر رہے ستیہ پال ملک نے خود اکتوبر 2021 میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پروجیکٹ سے متعلق دو فائلوں کو منظوری دینے کے لیے 300 کروڑ روپے کی رشوت کی پیشکش کی گئی تھی  ۔ ان میں سے ایک فائل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متعلق تھی۔

انہوں نے گزشتہ سال سی بی آئی کی تلاشی کے بعد اپنے خلاف کرپشن کے الزامات سے انکار کیا تھا ۔

ہسپتال میں ملک

قابل ذکر ہے کہ اس دوران ملک نے کہا ہے کہ وہ شدید بیمار ہیں اور بدھ (21 مئی) سے ان کی کڈنی کا ڈائلیسس شروع ہو اہے۔

ان کے پرسنل مینیجر کے ایس رانا نے دی وائر کو بتایا،’ستیہ پال ملک کو 11 مئی کو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ پیشاب اور گیس پاس کرنے سے قاصر ہیں، اور 14 مئی کو کرائے گئے کلچر ٹیسٹ میں شدید یورین انفیکشن اورکڈنی کی خرابی کی تصدیق ہوئی ہے۔ کل سے ان کی حالت بگڑ گئی ہے اور ان کے گردے بالکل کام نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت آئی سی یو میں داخل ہیں اور بے ہوشی کی حالت میں زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔’

اس سے قبل فروری میں چھاپے کے بعد ملک نے کہا تھا کہ وہ کسان کے بیٹے ہیں اور چھاپے ماری سے ڈریں  گے نہیں۔

انہوں نے  ٹوئٹ کیا تھا،’میں نے بدعنوانی کےملزم لوگوں کے خلاف شکایت کی تھی۔ لیکن سی بی آئی نے ان کی تلاش کے بجائے میرے گھر پر چھاپہ مارا۔ میرے گھر سے آپ کومیرے 4-5 کرتے پاجامے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ تاناشاہ سرکاری اداروں کا غلط استعمال کر کے مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں کسان کا بیٹا ہوں، میں ڈروں گا  نہیں اور جھکوں گا نہیں۔’

سی بی آئی نے جنوری میں اس کیس کے سلسلے میں پانچ دیگر افراد کے احاطے کی بھی تلاشی لی تھی۔ الزام ہے کہ ملک کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرنے کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

Next Article

’ای ڈی ساری حدیں پار کر رہا ہے‘، سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کارپوریشن کے خلاف جانچ پر روک لگائی

سپریم کورٹ نے جمعرات کو تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور ای ڈی کو حدیں پار کرنے پر سرزنش کی۔ عدالت نے کہا کہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (22 مئی) کو ریاست کے زیر انتظام تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) کو’سار ی حدیں پار کرنے’ پر سرزنش کی۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح  کی بنچ تمل ناڈو حکومت اور ٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، جس میں 23 اپریل کو مدراس ہائی کورٹ کی جانب ان کی درخواست کو خارج کیے جانے  کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں سے 6 اور 8 مارچ 2025 کے درمیان ٹی اے ایس ایم سی ہیڈکوارٹر پر ای ڈی  کے چھاپوں کو غیر قانونی قرار دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سی جے آئی گوئی نے مرکزی تفتیشی ایجنسی کی نمائندگی کررہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے پوچھا،’آپ افراد کے خلاف تومقدمات درج کر سکتے ہیں لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمات درج نہیں کر سکتے؟ آپ کاای ڈی  ساری  حدیں پار کر رہا ہے۔’

سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے فیصلےکو چیلنج کرنے والےٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر ایس ایل پی پر ای ڈی کو نوٹس جاری کیا۔

ٹی اے ایس ایم سی اور اس کے ملازمین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل اور مکل روہتگی نے دلیل دی کہ ایجنسی نے بغیر کسی ضابطے کے موبائل فون کی کلوننگ کرکے اور ذاتی آلات کو ضبط کرکے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔

سبل نے کہا، ‘ہم نے پایا کہ جن لوگوں کو آؤٹ لیٹ دیے گئے ہیں ان میں سے کچھ حقیقت میں نقد لے رہے ہیں۔ اس لیے ریاست نے خود کارپوریشن کے خلاف نہیں بلکہ 2014-21 سے افراد کے خلاف 41 ایف آئی آر درج کیں۔ ای ڈی  2025 میں سامنے آتا ہے اور کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم سی) اور ہیڈ آفس پر چھاپہ مارتا ہے۔ سارے فون لے لیے گئے، سب کچھ لے لیا گیا۔ سب کچھ کلون کیا گیا۔’

اس پر سی جے آئی نے پوچھا، ‘کارپوریشن کے خلاف جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ افراد کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟’

انہوں نے کہا کہ ‘آپ ملک کے وفاقی ڈھانچے کی مکمل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔’

سبل نے عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ ای ڈی کو فون اور آلات سے کلون شدہ ڈیٹا کے استعمال سے روکے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ پرائیویسی  کا معاملہ ہے!’ تاہم، بنچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کو عبوری راحت پہلے ہی دی جا چکی ہے اور وہ مزید کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔

مدراس ہائی کورٹ کی بنچ نے 23 اپریل کوٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے اپنے ہیڈکوارٹر میں ای ڈی  کی طرف سے کی گئی تلاشی اور ضبطی کی کارروائی کے خلاف دائر تین رٹ درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ بنچ نے درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ چھاپوں اور اچانک معائنہ کے دوران ملازمین کو حراست میں لیناضابطے کا معاملہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ای ڈی نے حال ہی میں تمل ناڈو میں کئی مقامات پر نئے سرے سےچھاپے مارے، جن میں ٹی اے ایس ایم سی کے منیجنگ ڈائریکٹر ایس وسکن اور فلمساز آکاش بھاسکرن کے گھر بھی شامل ہیں۔وسکن سے مبینہ طور پر تقریباً 10 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔