رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس نے پریس کی آزادی کو کنٹرول کرنے والے 37ممالک کے سربراہوں یاقائدکی فہرست جاری کی ہے، جس میں شمالی کوریا کے کم جونگ ان اور پاکستان کے عمران خان کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کا نام شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ سب وہ ہیں جو ‘سینسرشپ کا میکانزم بناکر پریس کی آزادی کو روندتے ہیں،صحافیوں کو من مانے ڈھنگ سے جیل میں ڈالتے ہیں یا ان کے خلاف تشددکو ہوا دیتے ہیں۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی ان 37ممالک کے سربراہوں یا حکومت کے قائدکی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں،جنہیں عالمی ادارہ رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس (آرایس ایف )نے پریس کی آزادی کو کنٹرول کرنے والوں (پریڈیٹرس)کےطورپر پہچانا ہے۔
مودی کے(اس فہرست میں)داخلے سے پتہ چلتا ہے کہ کیسےمیڈیا کی وسیع ترسلطنت کے مالک ارب پتی تاجروں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات نے ان کی انتہائی تقسیم کاری اور توہین آمیزخطابات کےمسلسل کوریج کےتوسط سے سےان کی قوم پرست پاپولسٹ(nationalist-populist) نظریے کو پھیلانے میں مدد کی ہے۔
آر ایس ایف کے 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان 180ممالک میں سے 142ویں نمبر پر ہے۔ آر ایس ایف دنیا کا سب سے بڑا این جی او ہے جو میڈیا کی آزادی کوتحفظ فراہم کرانے میں مہارت رکھتا ہے، جسے باخبر رہنے اور دوسروں کو باخبرکرنے کا ایک بنیادی انسانی حق مانا جاتا ہے۔
مودی پاکستان کے عمران خان،سعودی عرب کے کراؤن پرنس محمد بن سلمان، میانمار کےفوجی سربراہ من آنگ ہلنگ اور شمالی کوریا کے کم جونگ ان کے ساتھ ساتھ 32دوسرے لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ‘سینسرشپ میکانزم بناکر پریس کی آزادی کو روندتے ہیں، صحافیوں کو من مانے ڈھنگ سے جیل میں ڈالتے ہیں یا ان کے خلاف تشددکو ہوا دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر خون نہیں ہے کیونکہ انہوں نے براہ راست یا بالواسطہ طورپرصحافیوں کوقتل کی طرف دھکیلا ہے۔’
سال 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب آر ایس ایف اس طرح کی فہرست شائع کر رہا ہے۔ ‘پریڈیٹرس’ کے طورپر پہچانے جانے والے سربراہوں میں سے سترہ نئے لوگ ہیں۔فہرست میں شامل 37 میں سے 13 ایشیا پیسیفک سے ہیں۔
فہرست کے سات عالمی رہنما سال 2001 میں پہلی بار شائع ہونے کے بعد سے ہی اس کا حصہ رہے ہیں اور اس میں شام کے صدر بشار الاسد، ایران کے علی خامنہ ای، روس کے ولادمیر پتن اور بیلاروس کے الیگزینڈر لوکاشینکو شامل ہیں۔
نقاد اور صحافی رومن پروٹاسیوچ کو پکڑنے کے لیے ایک جہازکا ڈرامائی طور پر راستہ بدلنے کے بعد سے الیگزینڈر لوکاشینکو نے ایک ‘پریڈیٹر’ کےطور پر پہچان حاصل کی ہے۔
بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ اور ہانگ کانگ کی کیری لیم دو ایسی خاتون سربراہ ہیں، جن کی پہچان ‘پریڈیٹرس’ کے طورپر کی گئی ہے۔
آر ایس ایف کی پریس ریلیز کے مطابق،ہر پریڈیٹرس کے لیےآر ایس ایف نے ان کے‘پریڈیٹرطریقے’ کی پہچان کرتے ہوئے ایک فائل مرتب کی ہے۔
فہرست اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ کیسےہر‘پریڈیٹر’ صحافیوں کو سینسر کرتا ہے اور ان کو ہراساں کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کس طرح کے صحافی اور میڈیا آؤٹ لیٹ کو پسند کرتے ہیں، ساتھ ہی خطاب یاانٹرویو کے حوالے جس میں وہ اپنےپرتشدد سلوک کو مناسب ٹھہراتے ہیں۔
مودی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ 26 مئی، 2014 کو وزیر اعظم بننے کے بعد سے ایک پریڈیٹر رہے ہیں اور اپنے طریقوں کو ‘نیشنلسٹ پاپولرازم اور پروپیگنڈہ’کی صور ت میں لسٹ کرتے ہیں۔
آر ایس ایف کہتا ہے، ‘ان کے پسندیدہ اہداف‘سیکلر’ اور ‘پریسٹیٹیوٹس’ ہیں۔ پہلا ایک ایسا لفظ ہے جس کا استعمال ہندو رائٹ ونگ اور مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کےحامی سیکولر’ نظریات کی تنقیدکرنے کے لیے کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسالفظ جو ہندوستانی آئین کی تمہید میں بھی ہے اور ظاہری طور پر ہندو مذہب کی پیروی کرنے والے رائٹ ونگ اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔’
وہیں، دوسرا لفظ‘پریس اور پراسٹیٹیوٹ کا مرکب’ہے جو عورت سے تعصب کے ساتھ یہ اشارہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ مودی مخالف میڈیا بک چکا ہے۔
آر ایس ایف نے آزاد پریس پر مودی کے اثرات کی تفصیلات اس طرح دی ہے:
سال 2001 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے اس مغربی صوبے کونیوزاورانفارمیشن کنٹرول کے طریقوں کے لیے ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا اور اس کا استعمال انہوں نے 2014 میں ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر چنے جانے کے بعد کیا۔
ان کااہم ہتھیار مین اسٹریم کے میڈیا کو خطابات اور اطلاعات سے بھر دینا ہے، جو ان کے نیشنلسٹ پاپولرازم اور پروپیگنڈہ کو قانونی حیثیت دیتے ہیں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے ارب پتی تاجروں کے ساتھ قربی تعلقات بنائے ہیں، جن کے پاس وسیع تر میڈیا سلطنت ہیں۔
یہ کپٹی حربہ دو طرح سے کام کرتا ہے۔ ایک طرف اہم میڈیا آؤٹ لیٹس کے مالکوں کے ساتھ اپنے صاف طور پرتعلق بنانے سے ان کے صحافی جانتے ہیں کہ اگر وہ سرکار کی تنقید کرتے ہیں تو انہیں برخاستگی کا جوکھم ہوتا ہے۔
دوسری طرف، اکثر پروپیگنڈہ کرنے والے ان کے انتہائی تقسیم کاری اور توہین آمیز خطابات کی کوریج میڈیا کو ریکارڈ ناظرین کی سطح کو حاصل کرنے میں اہل بناتا ہے۔
مودی کو اب صرف ان میڈیا آؤٹ لیٹس اور صحافیوں کو بےاثر کرنا ہے جو ان کے ان طریقوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
اس کے لیے اس کے پاس عدالتی ہتھیار ہے جس میں ایسےاہتمام ہیں جو پریس کی آزادی کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرصحافی سیڈیشن کے بےحد مبہم الزام کے تحت عمر قید کے خطرے کو اٹھاتے ہیں۔
اس کو بند کرنے کے لیے مودی کے جنگجو کے طورپر جانے جانے والے آن لائن ٹرولز کی ایک فوج، جنہیں یودھا کہا جاتا ہے، پر بھروسہ کر سکتے ہیں، جو ان صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلاتے ہیں، جنہیں وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔ ایسی مہم جن میں لگ بھگ باقاعدگی سے صحافیوں کو مارنےکی اپیل شامل ہوتی ہیں۔
نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2017 میں صحافی گوری لنکیش کے قتل، ہندوتوا (وہ نظریہ، جس نے ہندونیشنلسٹ تحریک کو جنم دیا، جو مودی کی پوجا کرتا ہے) کا ایک اہم شکار تھیں۔
اس میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ مودی کی تنقید رعنا ایوب اور برکھا دت جیسی خاتون صحافیوں کو ڈاکسنگ (بدنیتی پر مبنی انٹرنیٹ انٹرنیٹ سرچ)اور گینگ ریپ کی اپیل جیسےشدید حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک ضابطہ کے طور پر کوئی بھی صحافی یا میڈیا آؤٹ لیٹ جو وزیر اعظم کے خیالات او ر نظریے پر سوال اٹھاتے ہیں، انہیں جلدی سے ‘سیکلر’(بیمار اورسیکولرلفظ کا ایک مرکب) کے طور پر برانڈیڈ کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ان بھکتوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے، جو ان پر مقدمے دائر کرتے ہیں، مین اسٹریم کے میڈیا میں انہیں بدنام کرتے ہیں اور ان کے خلاف آن لائن حملوں کو مربوط کرتے ہیں۔
حال ہی میں آر ایس ایف نے دی وائر، ٹوئٹر انڈیا، صحافی رعنا ایوب، صبا نقوی اور محمد زبیر کے خلاف غازی آباد میں ایک بزرگ مسلمان کے خلاف حملے پر ٹوئٹ اور رپورٹ کے سلسلے میں مجرمانہ سازش کے بے تکےالزامات کی تنقید کی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)