پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں پی آئی ایل دائر کر کےسبھی مذہبی مقامات کو کھولنے اور کو رونا انفیکشن کی وجہ سے مذہبی اداروں پر لگائی گئی پابندیوں کو غیرآئینی قرار دینے کی مانگ کی گئی تھی۔
امرتسرواقع سورن مندر(فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے سنیچر کو کہا کہ مذہبی مقامات پر پابندی لگانے کا فیصلہ عوامی مفادمیں ہے اور مذہبی مجالس کے انعقاد پر لگی پابندیوں میں ڈھیل نہیں دی جا سکتی ہے۔پوجا پاٹھ کے لیے لاک ڈاؤن میں چھوٹ دینے کی مانگ والی عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے جسٹس راجیو شرما اور اجئے تیواری کی بنچ نے کہا، ‘مذہب کی آزادی عوامی انتظام ، اخلاقیات اور عوامی صحت کے ماتحٹ ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ سماج کے صحت کی حفاظت کے لیے، مذہبی مجالس/تقاریب کے انعقاد سمیت عوام کے لیے سبھی مذہبی مقامات پر پابندی لگائی گئی ہیں۔’
انڈین ایکسپریس کے مطابق عدالت نے آگے کہا کہ یہ پابندی کسی کمیونٹی کے مذہبی معاملوں میں دخل اندازی ہے اور یہ پابندی سبھی مذاہب کے مذہبی مقامات پر لگائی گئی ہے۔کورٹ نے اپنے آرڈر میں کہا، ‘کو رونا وائرس کے پھیلاؤ کی مدت کے دوران مذہبی مقامات کو بند کرنا، وہ بھی ایک عارضی تدبیرکی صورت میں، ایک ریگولیشن ہے، پابندی نہیں۔وزارت داخلہ کی جانب سے لگائی گئی پابندی عرضی گزاریا کسیدوسرے شخص کے بنیادی یا قانونی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔’
یہ دیکھتے ہوئے کہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت ریاست کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ‘پبلک آرڈر، صحت اور اخلاقیات کی بنیاد پر’ پابندی لگا سکتے ہیں، ڈویژن بنچ نے کہا کہ پابندیوں کو لاگو کرنا بڑے پیمانے پر سماج کے اجتماعی مفاد میں ہے۔کورٹ نے آرڈرمیں آگے کہا، ‘چونکہ کچھ شعبوں میں چھوٹ دی گئی ہے، مذہبی مقامات پر لگی پابندیوں میں ڈھیل دینے کی یہ بنیاد نہیں ہو سکتی ہے۔ مذہبی مجالس/تقاریب کے انعقاد پر پابندی لگانے اور پوجا پاٹھ کے مقامات کو کھولنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ دانشمندی سے لیا گیا ہے۔’
ہائی کورٹ نے جمعہ کو اس پی آئی ایل پر شنوائی کی جس میں یہ مانگ کی گئی تھی کہ عیدالفطر اور گرو ارجن دیو کے یوم شہادت پر سبھی مذہبی مقامات جیسے مسجدوں، گردواروں اور مندروں کو کھولا جائے۔وکیل راجویندر سنگھ بینس کے ذریعے مبین فاروقی کی جانب سے دائرپی آئی ایل میں یہ بھی مانگ کی گئی تھی کہ عبادت گاہوں پر شہریو ں کے پوجا اور عبادت کرنے کے حق پر لگائی گئی پابندیوں کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔