دارالعلوم کے انچارج نے بتایا ،’دو سال پہلے یوم جمہوریہ کے موقع پر پولیس نے مدرسے کے طلبا کو حراست میں لیا تھا اور میڈیا نے ان کو دہشت گرد بتا دیا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیں : کیا دارالعلوم دیوبند واقعی دہشت گردی کا اڈہ ہے؟
قاسمی نے کہا، ‘ مدرسے کے طلبا پر گزشتہ سال سہارن پور اور باغپت میں ٹرینوں اور پلیٹ فارم پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سال 2017 میں سہارن پور میں بھی ان پر حملہ کیا گیا تھا لیکن ان تینوں ہی معاملوں میں ملزمین کی پہچان نہیں کی گئی۔ ‘ دارالعلوم کے ایک سینئر ایڈمنسٹریشن آفیسر اشرف عثمانی نے کہا، ‘ یہ باقاعدہ طور پر جاری کی جانے والے ہدایتوں کی طرح ہی ہے اور اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے۔ ہم طلبا کی حفاظت چاہتے ہیں اس لئے قومی تہواروں کے موقع پر ان کو باخبر کرتے رہتے ہیں۔ ‘ وہیں، صحافیوں کے سوالوں پر سہارن پور ضلع کے ایک پولیس افسر نے ایسی کسی ہدایت کی جانکاری ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ بتا دیں کہ دیوبند لکھنؤ سے 600 کلومیٹر دور سہارن پور ضلع میں واقع ہے۔ اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر پولیس افسر نے کہا، ‘ ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے ان واقعات کو زیادتی سمجھا گیا ہو جب سکیورٹی ایجنسی کوئی لاپروائی نہ برتنا چاہتی ہوں اور شک کی بنا پر طلبا کو حراست میں لے لیا ہو۔ ایسا کوئی نوٹس جاری کرنے کے بجائے مدرسہ انتظامیہ کو ایڈمنسٹریشن کے پاس آنا چاہیے اور مخالفت درج کرانی چاہیے۔ ‘ بی جے پی کی اقلیتی سیل کے مقامی رہنما محمد انور نے ہدایت کو عجیب بتاتے ہوئے کہا، ‘ ہم یوم جمہوریہ اور آزادی کے دن پر سفر کرتے ہیں۔ قومی تہواروں کے موقع پر ہماری خواتین بھی برقع پہنکر باہر جاتی ہیں۔ پولیس یا اکثریتی کمیونٹی کے لوگ کبھی بھی ان کو پریشان نہیں کرتے ہیں۔ دارالعلوم کو ڈر کا ماحول نہیں بنانا چاہیے۔’ The post دارالعلوم دیوبند کی ہدایت؛ یوم جمہوریہ پر سفر کرنے سے پرہیز کریں طلبا appeared first on The Wire - Urdu.