کہا جاتا ہے کہ بنگال میں بائیں مورچے کی لمبی حکومت نے کسی ایسے پلیٹ فارم کو ابھرنے نہیں دیا، جس کا استعمال فرقہ وارانہ طاقتیں سیاسی فائدے کے لئے کر سکتی تھیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زمین پر ہندومسلم کشیدگی نہیں تھی۔ ریاست کے موجودہ سیاسی مزاج کو اسی کشیدگی کے اچانک پھوٹ پڑنے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیا آسام کی طرح ہندوتوا کی سیاست کےسہارے بی جے پی بنگال میں کامیاب ہونا چاہتی ہے؟
بھدرلوک نے مقامی سماجی اور سیاسی بےاطمینانی کا استعمال بھی ایک فرقہ وارانہ ایجنڈے کو کھڑا کرنے کے لئے کیا۔حقیقت میں، جیسا کہ چٹرجی دھیان دلاتی ہیں، انہوں نے بنگال کی تقسیم کے لئے ہندو مہاسبھا اور بنگال کانگریس کی مدد قبول کی؛’نچلے درجے والے مسلمانوں کے حاکم ہونے سے انکار کرنا-تقسیم اور ایک الگ ہندو ہوم لینڈکے مطالبے کی طرف ایک چھوٹا قدم تھا۔ ‘ کئی دانشوروں کے مطابق 1857 سے 1947 کے درمیان، بھدرلوک راشٹرواد شری اروند کے سیاسی وژن سے راغب تھا جس میں ملک کو ماں کالی کا روپ مانا گیا تھا۔ قومی تحریک کے ایک اہم رہنما بپن چندر پال نے کالی پوجا اور شیواجی تہوار کو راشٹروادی منصوبہ میں شامل کیا۔چترنجن داس جیسے کئی دیگر لوگ ویشنو مت سے متاثر تھے، جبکہ سبھاش چندر بوس رام کرشن اور وویکانند کے شاگرد تھے۔ 1940 کی دہائی تک، آر ایس ایس سے متعلق کئی رضاکار تنظیم پورے بنگال میں وجود میں آ گئے تھے۔ اس لمبی فہرست میں باگ بازار ترون ویایام کمیٹی، آریہ ویر دل (پارک سرکس)، سلکیا ترون دل (ہاورا) اور 24 پرگنہ میں ہندو سیوا سنگھ شامل ہیں۔ ان میں سے کئی تنظیم-مثال کے طور پر بھارت سیواشرم سنگھ-کو مارواڑی اور دوسرے کاروباری کمیونٹی کا تحفظ ملا تھا۔بنگال میں کام کر رہے آر ایس ایس کے رہنما لوگوں کو کبھی بھی یہ یاد دلانا نہیں بھولتے ہیں کہ سنگھ پریوار کے دیوکل کے اہم نام شیاما پرساد مکھرجی بنگال سے تھے۔ وہ جواہرلال نہرو کابینہ میں وزیر تھے۔ نہرو سے اختلاف ہونے کے بعد مکھرجی نے کانگریس سے الگ ہو گئے اور 1951 میں بھارتی جن سنگھ کی تشکیل کی، جس کا دوسرا جنم بھارتیہ جنتا پارٹی کے طور پر ہوا۔وہ1943 سے 1946 تک کل ہند ہندو مہاسبھا کے صدر رہے۔ یہاں یہ درج کیا جانا چاہیے کہ ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ نے ملکر بنگال کے پہلے اسمبلی انتخابات میں 13 سیٹیں جیتی تھیں۔ بعد میں ایک طرف بایاں محاذکے ابھار اور دوسری طرف 1953 میں شیاما پرساد مکھرجی کی موت نے بنگال میں رائٹ ونگ کی ترقی کو روک دیا۔ لیکن، آر ایس ایس کے ذریعے چلائی جانے والی تنظیموں ، بالخصوص ر اسکولوں کا نیٹ ورک زمین پر کام کرتا رہا۔دوسری طرف کمیونسٹ پارٹیوں نے مشرقی بنگال سے آنے والے ہندو پناہ گزینوں کے درمیان اپنی بنیاد تیار کی اور لینڈ ریفارم کے لئے جدو جہد کی قیادت کی اور اس طرح سے بنگال کے کسانوں کے درمیان اپنے لئے ایک ٹھوس رائےدہندگان کا طبقہ تیار کیا۔ یہ طبقہ 30 سال سے زیادہ وقت تک بائیں بازو کے ساتھ کھڑا رہا۔ نریندر مودی کی حکومت کے آنے سے پہلے زمینی طور پر بنگال میں ایسا کافی کم تھا، جس کو ہندو رائٹ ونگ کا حوصلہ بڑھانے لائق کہا جا سکتا ہو۔ اس وقت یقینی طور پر بی جے پی نے یہ اندازہ نہیں لگایا ہوگا کہ وہ ایک ایسی ریاست میں اہم اپوزیشن ہو سکتی ہے، جہاں وہ سیاسی بات چیت کا بھی حصہ نہیں ہے۔لیکن تب کچھ ایسا ہوا جس کی امید کسی کو نہیں تھی۔ 2014 کے انتخابات میں ریاست میں پارٹی کو 16.8 فیصد ملے۔ کمزور ہو چکے بایاں محاذ اور محدود ہوچکی کانگریس اور پارٹی بدلنے والوں کی مسلسل آمد سے بی جے پی نے مقامی انتخابات میں اپنے لئے جگہ بنانا شروع کر دیا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما سے بات کیجئے تو وہ آپ کو بتائیںگے کہ اس گھڑی کا انتظار وہ سالوں سےکر رہے تھے۔ وہ آپ کو بتائیںگے کہ کیسے پچھلے پانچ سالوں میں آر ایس ایس کی شاخوں میں اضافہ ہوا ہے اور اسکولوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ جہاں پہلے بنیاد تھی، وہاں محل بنانے کا کام شروع ہو گیا ہے۔اس طرح ماضی کا گہرا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بنگال کی موجودہ سیاسی صورت حال طویل اور جبریہ تواریخ کا اظہاریہ ہے۔