مؤرخ اوررائٹر آروی اسمتھ نے تقریباً ایک درجن کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے اکثر دہلی کے بارے میں ہیں۔ وہ ایک صحافی بھی تھے اور زندگی کے آخری دنوں تک مختلف اخباروں کے لیے لکھتے رہے تھے۔
آروی اسمتھ(فوٹوبہ شکریہ: سنجے کپور)
نئی دہلی: دہلی کے معروف مؤرخ اور رائٹر رونالڈ ووین اسمتھ کاجمعرات کو ایک ہاسپٹل میں انتقال ہو گیا۔ وہ 83 سال کے تھے۔اسمتھ کی فیملی نے بتایا کہ پچھلے چار مہینے سے وہ بڑھتی عمر کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں سے جوجھ رہے تھے۔ان کے بیٹے ٹونی اسمتھ نے بتایا،‘سوموار کو سانس لینے میں پریشانی ہونے کے بعد انہیں ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا تھا۔صحت سے متعلق کئی پریشانیوں، سانس سے متعلق انفیکشن اور کڈنی فیل ہونے کی وجہ سے آج (جمعرات)صبح ساڑھے سات بجے ان کاانتقال ہو گیا۔’
آگرہ میں 1938 میں پیدا ہوئےا سمتھ گوالیار آرمی کے کرنل سلواڈور اسمتھ (1783-1871)کی فیملی سے ہیں۔ کرنل اسمتھ نے گوالیار کے اس وقت کے راجہ دولت راؤ سندھیا کی فوج کو ٹریننگ دی تھی۔اسمتھ نے اپنی تعلیم آگرہ کے سینٹ پیٹرس کالج اور سینٹ جانس کالج سے حاصل کی، جہاں سے انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری لی۔ 50 کی دہائی میں وہ دہلی آ گئے۔ انہوں نے 1956 سے ہی اخباروں کے لیے لکھنا شروع کر دیا تھا۔
صحافی والد تھا مس اسمتھ سے متاثر ہونے والے اسمتھ نے بھی وہی پیشہ چنا اور دہلی میں خبررساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا(پی ٹی آئی)اور د ی اسٹیٹس مین اخبار کے لیے کام کیا۔ 1961 میں انہوں نے خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی جوائن کیا تھا۔ 1996 میں وہ نیوز ایڈیٹرکےعہدے سےسبکدوش ہوئے۔
حالانکہ انہوں نے لکھنا نہیں چھوڑا اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک (25 اپریل، 2020 تک)دی ہندو اور دی ا سٹیٹس مین اخباروں کے لیے لکھتے رہے۔وہ آؤٹ لک میں بھی
‘ہیڈس اینڈ ٹیلس’ نام سے ہفتہ وار کالم لکھ چکے تھے۔ان کی اہم کتابیں ہیں ‘دیلہی: اننون ٹیلس آف اےسٹی’، ‘د ی دیلہی دیٹ نو ون نوز’، ‘لنگرنگ چارم آف دیلہی: متھ، لور اینڈ ہسٹری’ وغیرہ ۔ انہوں نے تاج محل پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق،ا سمتھ نے تقریباً ایک درجن کتابیں لکھیں، جن میں سے اکثر دہلی کے بارے میں ہے۔ ان میں سے ایک رومانی ناول بھی ہے، جس کا نام ‘جیسمن نائٹس اینڈ د ی تاج’ ہے۔ اس کے علاوہ ایک بھوت پریت کی کہانیوں پر مبنی کتاب ہے اور نظموں کی دوحصے میں کتابیں بھی شامل ہیں۔
اسمتھ نے ایک بار خود کہا تھا کہ وہ ایک بھوت والے گھر میں پلے بڑھے، جو 1860 کی دہائی کے آس پاس بنایا گیا تھا اور جس میں کہانیوں، بھوتوں اور آتماؤں کا بھی حصہ تھا۔ ان کی چاچیاں اور بڑی بہنوں نے انہیں بتایا تھا کہ کیسے سفید ساڑی میں بہنے والی خواتین ان کے گھر کی اندھیری کوٹھری میں دکھائی دیتی تھیں۔
آروی اسمتھ کو تاریخ ، آثار قدیمہ، مصر کی زبان،تاریخ اورتہذیبی مطالعہ کی جانکاری حاصل کرنا اور ان پر لکھنا پسند تھا۔انہیں کینن ہالینڈ پرائز اور روٹری ایوارڈ فار جنرل نالج اور 1997 98 میں کولکاتہ کے مائیکل مدھو سودن اکادمی کی جانب سےجرنلزم ایوارڈسے نوازا جا چکا ہے۔
وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ان کے انتقال پرصدمے کا اظہار کرتے ہوئے جانکاری دی تھی کہ وہ کچھ وقت سے بیمار تھے۔
کیجریوال نے ٹوئٹ کیا،‘ہمارے شہر کے کرانیکلر آروی اسمتھ کاانتقال ہو گیا۔ ان کے کام نے ہمارے شہر کی یادوں اور کہانیوں کو زندہ رکھا ہے۔ ان کا جانا دہلی والوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میری تعزیت ان کی فیملی اوردوستوں کے ساتھ ہے۔’اسمتھ کے بارے میں کبھی خشونت سنگھ نے کہا تھا کہ بات جب دہلی کے معلوم ، کم معلوم اورنامعلوم میموریل کے بارے میں لکھنے کی آتی ہے تو آروی اسمتھ سے بہتر اس کام کو اور کوئی نہیں کرتا۔
کرانیکلر یا مؤرخ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بھی زمانے کے واقعات کو بنا کسی سیاق یاتناظر کے سیدھے سیدھے، سلسلےوار طریقے سے لکھتا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)