ہم ساوتری بائی پھولے کو صرف ڈاک ٹکٹ کے لئے یاد نہ کریں۔یاد کریں تو اس لئے کہ اس وقت کا سماج کتنا گھٹیا اور ظالم تھا۔ اس سماج میں ایک دلیر خاتون بھی تھیں جن کا نام ساوتری بائی پھولے تھا۔
یہ بھی پڑھیں : رقیہ بیگم کا سوال،اس تہذیب یافتہ سماج میں ہماری حیثیت کیا ہے؟
ساوتری بائی نے پہلا اسکول نہیں کھولا، پہلی استانی نہیں بنیں بلکہ ہندوستان میں عورتیں اب ویسی نہیں دکھیںگی جیسی دکھتی آئی ہیں۔ اس کا پہلا جیتا جاگتا بنیادی چارٹر بن گئیں۔ انہوں نے ہندوستان کی مری ہوئی اور مار دی گئی عورتوں کو دوبارہ سے جنم دیا۔ مردوں کا چور سماج پونے کی بیواؤں کو حاملہ کرکے خودکشی کے لئے چھوڑ جاتا تھا۔ ساوتری بائی نے ایسی حاملہ بیواؤں کے لئے جو کیا ہے اس کی مثال دنیا میں شاید ہی ہو۔
1892 میں انہوں نے مہیلا سیو امنڈل کے طور پر پونے کی بیوہ خواتین کی اقتصادی ترقی کے لئے ملک کی پہلی خاتون تنظیم بنائی۔اس تنظیم میں ہر 15 دنوں میں ساوتری بائی خود تمام غریب دلت اور بیوہ خواتین سے گفتگو کرتیں، ان کے مسائل سنتی اور اس کو دور کرنے کی تدبیر بھی سجھاتی۔میں نے یہ حصہ فارورڈ پریس میں سجاتا پارمیتا کے مضمون سے لیا ہے۔ سجاتا نے ساوتری بائی پھولے کی سوانح عمری تفصیل سے لکھی ہے۔ آپ اس کو پڑھیےاور ٹیچر ہیں تو کلاس روم میں پڑھکر سنائیے۔یہ حصہ زور زور سے پڑھیے-پھولے میاں بیوی نے 28 جنوری 1853 میں اپنے پڑوسی دوست اور تحریک کے ساتھی عثمان شیخ کے گھر میں بال ہتیا پرتی بندھک گریہہ قائم کی۔ جس کی پوری ذمہ داری ساوتری بائی نے سنبھالی۔ وہاں تمام بےسہارا حاملہ خواتین کو بغیر کسی سوال کے شامل کرکے ان کی دیکھ بھال کی جاتی، ان کی زچگی کر کے بچوں کی پرورش کی جاتی، جس کے لئے وہیں پالنا گھر بھی بنایا گیا۔ یہ مسئلہ کتنا بڑا تھا اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض 4 سالوں کے اندر ہی 100 سے زیادہ بیوہ خواتین نے اس گھر میں بچوں کو جنم دیا۔ دنیا میں لگاتار ترقی یافتہ اور بولڈ ہو رہی ناری وادی سوچ کی ایسی پختہ بنیاد ساوتری بائی اور ان کے شوہر جیوتی با نے ملکر ڈالی۔ دونوں آکسفورڈ میں نہیں گئے تھے۔ بلکہ غلط رواج کو پہچانا، مخالفت کی اور حل پیش کیا۔ میں نے کچھ نیا نہیں لکھا ہے۔ جو لکھا تھا اس کو ہی پیش کیا ہے۔ بلکہ کم لکھا ہے۔ اس لئے لکھا ہے تاکہ ہم ساوتری بائی پھولے کو صرف ڈاک ٹکٹ کے لئے یاد نہ کریں۔ یاد کریں تو اس بات کے لئے کہ اس وقت کا سماج کتنا گھٹیا اور ظالم تھا۔ اس ضعیف الاعتقاد سماج میں کوئی منطقی اور دل والی ایک خاتون بھی تھی جس کا نام ساوتری بائی پھولے تھا۔ (یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)