جو ش نے خود کو شاعر آخر الزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگرحیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
جوش ملح آبادی، فوٹو بہ شکریہ : وکی پیڈیا
جوش ملیح آبادی(5دسمبر 1898- 22فروری1983)ایک ہی وقت میں شاعرِ انقلاب اور شاعر شباب کے طور پر مقبول ہوئے۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے اور اس قدر متنازع کہ بہ قول مشفق خواجہ”اُن کی زندگی ہی میں اُن کے خلاف ایک ادبی رسالے کا ضخیم جوش نمبرشائع ہوا تھاجس میں درجنوں معاصرین نے جوش کے ان ’عیبوں‘ کی نشاندہی کی تھی جو اگر جوش میں نہ ہوتے تو ہم ایک طرح دار اور رنگا رنگ شخصیت سے محروم رہ جاتے۔“
مشفق خواجہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ”جوش صاحب کو اپنے خلاف فضا پیدا کرنے میں مزہ آتا تھا۔“
قمر رئیس نے اپنی ایک تحریر میں بتا رکھا ہے کہ’جوش نے اپنی معتوبی کا سامان بہت پہلے سے جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ کبھی اہل ایماں کو بھڑکا کر، کبھی اہل اقتدار کو آنکھیں دکھا کر،کبھی درجنوں عشق کرکے ہم چشموں کو حاسد بناکر،کبھی درسگاہوں اور خانقاہوں میں فتنے جگا کر، کبھی دیسی ریاستوں میں برہنہ گفتاری کے تماشے دکھا کر، کبھی مرگ ِ انسانیت اور تذلیلِ آدم کا نوحہ پڑھ کر، کبھی آدم نو کی بشارت دے کر، کبھی(آزادی کے بعد)لال قلعہ کے مشاعرے میں آزادی کا مضحکہ اڑا کر اور کبھی ’شاہنامہ اسلام‘ پر کڑی تنقید کرکے۔‘
تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف ایسی فضا بنائی تو ان کے حق میں کوئی بولنے والا کوئی نہ تھا۔ ان کے فن کا اقرار کرنے والے بھی کم نہ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ جوش کی شاعری اور شخصیت کی داستان اُردو شاعری اور ہندوستانی تہذیب کے عروج و زوال کی داستان تھی۔
جوش ملیح آبادی نے رد و قبول کی یہ فضا، اور اپنے فکر اور ذات سے جڑے تضادات بہت محنت سے کمائے تھے۔ اُنہوں نے اپنی پوری زندگی اس میں جھونک دی تو یہ کمائی ہوئی تھی۔ وہ اپنی تخلیقی زندگی کے آغاز میں ایسے نہ تھے اور میں یقین سے یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے جوش کی1920 میں شائع ہونے والی نظم و نثر کی پہلی کتاب”روحِ ادب“ میں اکبر الٰہ آبادی کا یہ کلمہ پڑھ رکھا ہے؛
”کاش! کسی وقت میں،آپ اور اقبال یکجا ہوتے۔“
اکبر الہ آبادی نے یہ تمنا یوں کی تھی کہ وہ جوش کے ہاں اپنا قومی درد اور اقبال کی فکرِجلیل کی جھلک دیکھ چکے تھے اور شاید اُمید بھی لگا بیٹھے تھے کہ جوش کے ہاں یہ روایت آگے چلے گی۔ تاہم ان کے من میں کوئی کھٹکا ضروررہا ہوگا کہ یہ شاعر آگے چل کر بگڑ بھی سکتا ہے تبھی تو ”روح ادب“میں موجود تحریر وہ جوش کو نماز پڑھنے کی تلقین بھی فرما گئے تھے۔
خود جوش نے اسی کتاب میں”باز،گلبانگِ پریشاں می زنم‘ کا عنوان جما کر لکھا تھا کہ وہ ایک مدت تک نماز کے پابند رہے تھے۔ نماز کے وقت خوشبوئیں جلاتے اور کمرہ بند کرکے گھنٹوں رکوع و سجود میں پڑے رہتے۔اس دور میں داڑھی بھی رکھ لی تھی اور بہ قول ان کے صوفیائے کرام جیسی ”تجلیات“ اُن کے قلب کو حاصل تھیں۔
تب وہ محبت کو جنسیات سے برتر ایک مقدس آسمانی چیز سمجھتے تھے۔یہ تو بعد میں ہوا تھا کہ ان کے دماغ میں موجود کوئی خطرناک کمانی کھلی تھی باغیانہ میلان پیدا ہوا اور بدلا ہوا جوش سامنے آکر خود اُن کی راہ روک کر کھڑا ہو گیا تھا۔ یہ نیا جوش ایسا تھا کہ انہیں خط مستقیم کا آدمی بن کر چلنے نہ دیتا تھا۔
اگرچہ جوش صاحب نے نظم و نثر میں اپنے بارے میں کھل کر لکھا ہے مگر میں نے کہا ناں کہ وہ خط مستقیم کے آدمی نہ تھے لہٰذا اُن پر بات کرنا آسان نہیں ہے۔ محض رموزِ فن سے انہیں آنکنا کافی بھی نہیں ہے۔ اپنے زمانے کی عطا کی ہوئی حسیت سے معاملہ اور وہ خاص آہنگ جو انہیں مختلف کرتا گیا یہ سب مل کر جوش کے فن اور شخصیت کی مکمل تصویر نہیں بنا پاتے۔
وہ اپنے لیے مختص کردہ ساری جہتوں میں ایک منضبط بکھراؤ کے ساتھ موجود ہیں۔ آپ اسے بکھراؤ نہ کہیں دومتضاد جہتوں کی جانب جست کہہ لیں، یہ جو آجکل ناقدین فکری باینریز(Binaries)پر موجود سماج کی اُلجھنیں دو متضاد اِنتہاؤں کے اندر تلاش اور شناخت کرتے ہیں تو یوں ہے کہ یہ جوش صاحب کے ایک وجود کے اندر یوں موجود تھیں جیسے ایک مقناطیس کے دوکنارے۔
ان متضاد مگر باہم جڑے ہوئے موضوعات کی جانب فکری رجحان کا اندازہ تو ناقدین نے محض ان کی کتب کے ناموں سے لگالیاتھا:”شبنم و شعلہ“، ”فکرونشاط“، ”جنون و حکمت“، ”عرش و فرش“، ”رامش و رنگ“، ”سنبل و سلاسل“، ”سیف و سبو“، ”سموم و صبا“،”الہام و افکار“ وغیرہ وغیرہ۔ جوش اِن سب انتہاؤں پر ہیں اور ان کے درمیانی علاقے میں بھی مگر یہ درمیانی علاقہ فکری کم اورلسانی معجزوں اورفطرت سے کشید کی گئی جمالیات کا زیادہ ہے۔ ان کی فکر تو ہر دو انتہاؤں پر ہی اپنا آپ دکھاتی رہی ہے۔
جوش صاحب نے کہہ رکھا ہے کہ”کام ہے میرا تغیر،نام ہے میرا شباب“۔ انہوں نے ”یادوں کی بارات“ میں اپنی زندگی کے چار میلانات نشان زد کر رکھے ہیں:شعر گوئی، عشق بازی،علم طلبی اور اور انسان دوستی۔بہ قول اُن کے شاعری ان کی حاکم ہے اور وہ محکوم۔
عشق کو وہ فطرت کا فریب سمجھتے تھے اور یہ فریب ایسا ہے کہ افزائش نسل کے وسیلے سے موت کے مقابلے میں حیات پیدا کی جاتی رہے اور دل لگی کا ساماں بھی ہوتا رہے۔ علم کی طلب میں جوش صاحب جتنے آگے بڑھے اتنے الجھتے گئے حتی کہ یہاں تک کہہ دیا؛”جب‘علم کے سب کھنگال ڈالے قلزم۔ تب‘دولتِ عرفان ِ جہالت پائی“ اور ان کے چوتھے میلان تو یوں ہے اس باب کے موضوعات پرتووہ بہ کثرت کلام کرتے ملیں گے۔ ”جو مشرک یزداں ہے،وہ ناداں ہے فقط۔ جو مشرک ِانساں ہے، وہ انساں نہیں۔“
ناقدین نے جوش کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا ہے؛جذبہ آزادی، حسن پرستی اور انسان دوستی مگر جس طرح مظاہر فطرت کے ساتھ وہ جڑتے ہیں یا جس طرح وہ فکری سطح پر شعلہ و شبنم ہوتے ہیں یا پھر انقلاب اور شباب کے مضامین بلند آہنگ میں برتتے ہیں، وہ میر، غالب، انیس اور اقبال کے بعد توجہ پانے والے شاعروں سے اپنی شناخت الگ بنانے لگتے ہیں۔
جوش صاحب کی یہ شناخت اپنے ہم عصروں کے ساتھ بھی اور اُن سے پچھڑتے ہوئے بھی۔ ساتھ یوں کہ وہ اپنے ہم عصروں کے ساتھ رہ رہے تھے اور شعر کہہ رہے تھے؛ کچھ کم نہ کہہ رہے تھے، افراط سے کہہ رہے تھے۔وہ قادر الکمال تھے، زبان کے استعمال کے قرینوں پرکمال رکھتے تھے اورالفاظ کا ذخیرہ ہو یا نادر لسانی تشکیلات کا، اساطیری حوالے ہوں یا تلمیحاتی حوالے، اِن سب پر اُن کی دسترس حددرجہ غیر معمولی تھی۔جوش اپنے ہم عصروں سے یوں پچھڑے ہوئے ہیں کہ جس طرح اُن کے ہم عصر اُردو دنیا میں اب تک زیر بحث چلے آتے ہیں جوش پر اس طرح بات نہیں ہو رہی اور وقت گزرتا جاتا ہے۔
گوپی چند نارنگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ”کون نہیں جانتا کہ بیسویں صدی میں ٹیگور اور اقبال کے بعد جتنی عزت، شہرت اور مقبولیت جوش کو نصیب ہوئی، کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔“ جو ش نے خود کو ”شاعر آخر الزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگرحیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
نارنگ کا ایک مضمون میں نے کوئی گیارہ بارہ سال پہلے پڑھا تھا۔ وہی جس میں انہوں نے کہا تھا؛ ”جوش اس قدر جلد روایت پارینہ بن جائیں گے آج سے پچیس برس پہلے اس کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔“ تو ایسا کیا ہے کہ جوش جیسے قادرالکلام شاعر کئی دہائیوں سے موضوع بحث نہیں بن پارہے تھے؟
وارث علوی کے مطابق اس کا سبب یہ ہے کہ ’جوش ہماری کلاسیکی شعری روایت کے آخری بڑے شاعر تھے۔ ہماری تنقید، مذاق سخن کی تبدیلی کے سبب، متذبدب رہی ہے کہ جوش کی شاعری کی ناقدانہ تحسین کاصائب طریقہ کون سا ہو سکتا ہے۔‘ مجھے یوں لگتا ہے کہ وارث علوی کی یہ تشخیص بڑی حد تک درست ہے اور یہ بھی ہے کہ اب ہمارا ناقد یہ یقین کیے بیٹھا ہے کہ جوش ہیں نہیں، بس ہماری روایت پارینہ کا روشن حصہ تھے۔
خیر، یہ بات مان لی جائے تو بھی یہ ماننا ہوگا کہ روایت کی ایک خوبی یہ بھی تو ہے کہ موت اس کا مقدر نہیں ہوتی اس میں پھر سے جی اُٹھنے کے امکانات رہتے ہیں۔ گویا معاملہ مذاق سخن کے ایک بار پھر بدلنے کا ہے۔اگر ایسا ہو جاتا ہے(اگرچہ اس ’اگر‘ کے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے) تو جوش اپنے سارے کلام اور پوری قامت کے ساتھ روایت کے اس ناغول سے اُٹھ کر رواں وقت کے وسط میں پہنچیں گے اور پھر سے مرکز نگاہ ہو جائیں گے بالکل ویسے ہی جیسے اپنی زندگی میں مقبولیت کے برسوں میں رہے تھے۔
(مضمون نگار برصغیر کے معروف فکشن رائٹر ہیں)
یہ مضمون 22 فروری 2021 کو شائع کیا گیا تھا۔