رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔
اُردو کے بزرگ صحافی، شاعر، مترجم اور کئی کتابوں کے مصنف رضوان اللہ صاحب (91) کا آٹھ اکتوبر کو نئی دہلی میں انتقال ہو گیا۔
رضوان اللہ فاروقی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز آزادی سے قبل کلکتہ میں روزنامہ ‘عصر جدید’ سے کیا تھا۔وہ احمد سعید ملیح آبادی کے اخبار روزنامہ’آزاد ہند’ سے بھی ایک عرصے تک وابستہ رہے۔
انھوں نے کلکتہ واقع امریکی سفارت خانے کے دفتر یو ایس آئی ایس میں بھی جزوقتی کام کیا۔ 1975 میں دہلی واقع امریکی سفارت خانے میں اردو ایڈیٹر کے طور پر ان کی تقرری ہوئی۔یہاں انھوں نے 1992 تک اُردو ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔
فاروقی نے اردو صحافت کے ساتھ ساتھ کئی قابل قدرتصنیفی کارنامے انجام دیے۔اس حوالے سے’کلکتہ کی اُردو صحافت اور میں’ ان کی گراں قدر تصنیف ہے۔ابھی حال ہی میں میں ان کی خود نوشت ‘اوراق ہستی’ منظر عام پر آئی تھی۔اُردو کے علاوہ انگریزی میں ان کی چھ کتابیں شائع ہوئیں۔ انہوں نے اُردو، انگریزی اور فارسی میں شاعری بھی کی ۔
امریکی سفارت خانے سے شائع ہونے والے رسالے ‘اسپین’ کے لیےانہوں نے ترجمے کاکام بھی کیا،اس کے علاوہ انگریزی ہفت روزہ’ملی گزٹ’ کے لیے کالم نگاری کی۔
پسماندگان میں چار بیٹیاں ہیں،سب سے چھوٹی بیٹی ڈاکٹر زہرا فاروقی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ فارسی میں استاد ہیں۔ اُردو کے معروف ادیب اور نقادشمس الرحمن فاروقی آپ کے چچا زاد بھائی تھے۔
یہاں قارئین کے لیے ان کی کتاب اوراق مصورکے حوالے سے ممتاز نقاد حقانی القاسمی کا ایک مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ اس مضمون کے علاوہ دی وائر کے ساتھ ان کی بات چیت کا ویڈیو بھی یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔(ادارہ)
کچھ کتابیں نقاد کی چند مبہم اور مغلق سطروں میں ہی زندہ رہتی ہیں۔ سطروں کے معدوم اور مضمون کے مرحوم ہوتے ہی اس کتاب کی بھی موت ہوجاتی ہے۔ مگر کچھ خوش بخت کتابیں منت طفلاں اٹھائے بغیر بھی زندہ و تابندہ رہتی ہیں۔ زمانے کے سرد و گرم جھیلتی ہوئی کئی یگوں کا سفر طے کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں جس کتاب کا یہاں ذکر کررہا ہوں اُس کو نہ کسی نقاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی تنقیدی فتویٰ یا فرمان کی۔
اس کتاب یعنی ’اوراق مصور‘ کو اگر مستقبل بعید کے تناظر میں پڑھا جائے توشاید اِس کی معنویت اور زیادہ روشن ہوگی۔ کیونکہ جس طرح آج ہمارے لیے تزک بابری، گلبدن بیگم کا ہمایوں نامہ! فاہیان،میگستھنیزبرنیر کے سفرنامے بہت اہمیت کے حامل ہیں یا زمانے کے حالات نے ان کی اہمیت دو چند کردی ہے۔
اسی طرح آنے والے زمانے میں جب کلکتہ کا کولاژ تیار کیا جائے گا تو اس کتاب کی اہمیت مترشح ہوگی کیونکہ اوراق مصور میں رضوان اللہ کی آنکھیں، ان کی دھڑکنیں اور ان کا سوز و ساز بھی شامل ہے اور یہ ایک چشم دید بیانیہ ہے اور آنکھوں دیکھا منظرنامہ جسے کسی طرح مسخ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی ملاحظہ کریں:’جب ہندوستان کی ساری صحافت آزاد ہوئی اردو صحافت گونگی ہوگئی‘
کتابوں کی قرأت کے کئی تناظر ہوتے ہیں۔ امیر خسرو کی مثنوی کو ہم ماضی کے تناظر میں پڑھتے ہیں تو ہمیں ‘دلی’ قبۃ الاسلام نظر آتی ہے اور آج کے تناظر میں پڑھتے ہوئے افسردگی کا احساس ہوتا ہے۔
میں پھر زور دے کر یہ کہنا چاہوں گا کہ رضوان اللہ صاحب کی کتاب ’اوراق مصور‘ کو آج کے تناظر میں نہیں بلکہ مستقبل بعید کے تناظر میں پڑھا جائے تو زیادہ افادی پہلو نظر آئیں گے کیوں کہ اس کی ایک ایک سطر میں ہمارے لیے ایک ایسے شہر کی تاریخ اور تہذیب کا حوالہ موجود ہے جو آج زندہ ہے مگر آج کی یک قطبی دنیا میں کوئی بعید نہیں بلکہ بہت ممکن ہے آنے والے کل میں کلکتہ بے نام و نشان ہوجائے۔
تب یہی ’اوراق مصور‘ حرمت الاکرام وکلکتہ: ایک شہر رباب دی سٹی آف جوائےاور دِگر کتابیں اس نسل کی رہنمائی کریں گی جس نسل نے کلکتہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں ہے۔
میں نے بھی بغداد نہیں دیکھا ہے مگر میں ابھی تک بغداد میں ہوں۔ میرا دل دجلہ و فرات میں ہے۔ خطیب البغدادی کی ‘تاریخ البغداد’ میں جو چودہ ضخیم جلدوں پر محیط ہے اور میں اس مدینہ السلام جیتے جاگتے شہر کو کھنڈر میں تبدیل ہوتے بھی دیکھ رہا ہوں۔
خطیب البغدادی کی تاریخ میں جو بغداد ہے وہ تاریخ و تہذیب کا محور ہے۔ حمورابی تہذیب کے شہر بابل و نینوا کا مرکز۔ اب خطیب البغدادی کا وہ بغداد نہیں رہا جو شاید المدینۃ الفاضلہ کا مثالی ماڈل تھا۔ اب صرف ایک تاریخ رہ گئی ہے۔
جب کسی شہر کا قتل ہوتا ہے تو اس کی تہذیب بھی دم توڑ دیتی ہے۔ شہر سوجاتے ہیں تو تہذیبیں بھی خوابیدہ ہوجاتی ہیں۔ کسی کسی شہر میں تو سویرا ہی نہیں ہوتا۔ رات ہی طاری ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ میرتقی میر کے زمانے کی جو دلی تھی اس پہ رات حاوی تھی، ناصر کاظمی نے لکھا ہے کہ:
میر صاحب کے زمانے اور ہمارے زمانے میں بڑا بعد ہے۔ دنیا اتنی بدل چکی ہے کہ آج کے شاعر کے سامنے پہلے سے بھی کہیں وسیع منظر حیات کھل گیا ہے مگر واقعات کی مماثلت کی وجہ سے میر صاحب کا زمانہ ہمارے زمانے سے مل گیا ہے۔ میر کا زمانہ رات تھا۔ ہم نے صبح کی روشنی میں آنکھ کھولی ہے۔نیا سورج ناچ رہا ہے۔ ہمیں للکار رہا ہے اور یہ رات میر کی شاعری میں زندگی کا استعارہ ہے۔
رات آرام کے لیے ہے مگر میر کے زمانے میں یہ رات گزار لینا بھی بڑا کام تھا۔ انہوں نے اس رات کو محض رو پیٹ کر نہیں گزارا بلکہ اس ویران رات کے سناٹے میں کچھ شب چراغ روشن کیے۔ وہ شاعر تھے۔ تلوار لے کر بھی نکلتے تو کیا کرتے۔ کوئی کفن بھی نہ دیتا۔
انہوں نے اپنے معاشرے کو آئینہ دکھا کر عبرت دکھائی۔ جگانے کی کوشش کی۔ میر ہمیں اس رات میں چھوڑ گئے مگر علم اور عرفان کی شمع جلا گئے۔ سر سید اور اُن کے رفقاء نے اس رات کو گزارنے کا منصوبہ بنایا اور اقبال آئے تو رات کا خاصا حصہ گزر گیا تھا۔ اقبال نے دن کے قدموں کی آواز سنی تھی۔
میں نے میر کے زمانے کو رات کہا تھا۔ یہ رات ہمارے زمانے کی رات سے آملی ہے۔ قافلے کے قافلے اس رات میں گم ہوگئے اور جو بچ نکلے وہ اُس سے اب تک لڑ رہے ہیں۔ یہ روحانی واردات جو بیک وقت انفرادی بھی تھی اور اجتماعی بھی جو ہماری فضائے یاد میں اظہار کے لیے بے چین ہے۔
میر کے زمانے کی یہ رات اب ناصر کاظمی کے عہد سے گزر کر ہمارے عہد میں بھی داخل ہوگئی ہے اور ہم ابھی تک اس رات کی ہولناکیوں اور سناٹوں میں ہیں اور اپنے شہروں کی سیاہی میں تہذیب کی تاریکی کو محسوس کررہے ہیں۔ تکشلا، متھرا، بندرابن، کلکتہ، دلی، بغداد، غرناطہ، قرطبہ، اشبیلیہ صرف شہر نہیں بلکہ تہذیبی استعارے ہیں اور وحشی قبائل اور غیرمتمدن اقوام نے ہمیشہ ان تہذیبی استعاروں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ہے اور کوششیں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔
ہندوستان کی ایک وشال سبھیتا ہے، ایک عظیم سنسکرتی ہے اور اس ملک کا شہر کلکتہ ایک تہذیبی ثقافتی محور ہے۔ ہمارے تہذیبی اور سیاسی عروج و زوال کا گواہ، سیاسی اور اجتماعی انتشار کی آماجگاہ بھی۔ لارڈ کلائیو کی گوری حسینائیں بنگال کے ساحل پہ نہ اترتیں تو شاید ہماری قسمت میں غلامی کی تاریکی نہ ہوتی۔ ہمارے ضمیر ان کی زلفوں کے اسیر نہ ہوتے۔ ہماری زمین میں برطانیہ کا سورج نہیں اپنے آسمان کا سورج طلوع ہوتا۔
مجھے آج بھی لگتا ہے جیسے ہمارے آسمان میں سورج کسی اور ملک کا طلوع ہورہا ہے۔ کلکتہ کی طرح دلی بھی محض ایک شہر نہیں ایک تہذیب ہے اور اس نے اپنی آنکھوں سے تہذیب کا عروج و زوال بھی دیکھا ہے۔ اس کے سینے میں بھی بہت سارے زخم اور دل میں درد ہیں جس کی کراہ کو ہم ابھی تک محسوس کررہے ہیں۔ اس کے چپے چپے پر ہمارے تہذیبی نقوش کندہ ہیں جنہیں مٹانے کی کوشش محض اس لیے کی جاتی ہے کہ ہمیں تاریخ و تہذیب سے جلا وطن کردیا جائے۔
ہمارے تہذیبی استعارے جو شہروں کی شکل میں ابھرتے تھے، وہ سب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ذہنی افق سے ہمارے تہذیبی حوالے منہدم ہوتے جاتے ہیں۔ اصفہان، شیراز، سمرقند و بخارا یہ سب ہماری تہذیب کے گہوارے اور استعارے تھے۔ ان شہروں کی زندگی میں ہماری تہذیب زندہ تھی اور شہروں کی موت سے ہی ہماری تہذیب پہ مرگ طاری ہوا۔ بغداد کی موت صرف ایک شہر کی نہیں بلکہ تاریخ اور تہذیب کی موت ہے۔
کلکتہ بھی ایک ایسا شہر ہے جس کے پاس اب صرف کڑوا کسیلا کلچر ہی رہ گیا ہے۔ ودیا ساگر، اسوتوش، رابندر ناتھ اور سبھاش چندر بوس کاکلکتے کے کالے بال اب سفید ہونے لگے ہیں۔ اس کا سینہ سوز سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں اب وحشت کا طوفان ہے۔
دلی اور کلکتہ تہذیب کے دو محوروں کا وصال۔ دو معاشرت، سماج اور سیاست کا اتصال ہے۔ رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔
’اوراق مصور‘ میں تاسیس کلکتہ، قحط بنگال، 1946 کے فسادات، تقسیم ہند، نکسلی دور، ہڑتال کا بیان بھی ہے اور ہوڑہ پل، کلکتہ میدان، چورنگی، سونا گاچھی، وکٹوریہ میموریل، ٹرام وے، مسجد ناخدا، رکشے، درگا پوجا، محمڈن اسپورٹنگ کی جھلکیاں بھی اور کلکتہ کی ادبی، ثقافتی کا تذکرہ خیر بھی، دلی کے تاریخی کھنڈرات، 1984کے فسادات اور تازہ ترین صورتِ حال کا بیان بھی ہے اور یہ سب معلومات اس مثنوی کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگاکہ بہت سے شہروں کا سراغ شاعری ہی سے ملا ہے۔ شاعری روز نامچہ بھی ہے، تاریخ بھی۔
امرؤ القیس کی شاعری سے بھی بہت سے شہروں کے سراغ ملتے ہیں جب وہ محبوب کے دیار کا ذ کر کرتا ہے تو اس میں بھی کچھ شہر روشن ہوجاتے ہیں۔ بہت سے مقامات کی تعین اور تشخیص میں شاعری سے مدد لی گئی ہے۔ حتیٰ کہ ارباب تاریخ نے عربی قصائد سے عرب جغرافیے کی تشکیل کی ہے۔
دورِ جاہلی کے بہت سے قصائد ایسے ہیں جن میں معشوق کے دیار کا ذکر ملتا ہے۔ اُن سے بھی جغرافیہ نویسی میں مدد لی گئی۔ عربوں میں ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنی تمدنی اور تہذیبی تاریخ کی تشکیل میں بہت ہی مستعدی کا ثبوت دیا۔ اُن مقامات، آثار کی تلاش و تفتیش کی جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ اور قابل فخر بات یہ ہے کہ تمدنی، عمرانی تاریخ اور تہذیبی شعور کو بیدار کرنے میں عرب مفکرین کا ہی نمایاں کردار رہا ہے۔ ابن خلدون اور ابن رشد نے ہی تہذیبی اور تاریخی انجماد کو توڑا ہے۔
اشپنگلر اور ٹائن بی تو بعد کی پیداوار ہیں جنہوں نے تہذیبی عروج و زوال کی نشان دہی کی، ابن رشد تو اتنا نمایاں نام ہے کہ اس نے تو مغربی تہذیب کے جمود کو توڑا، جس کا اعتراف، بیکن اور توماس اکویناس نے بھی کیا ہے۔ ابن الحوقل کی ‘کتاب المسالک’ میں عرب کے پہاڑ، راستے، ریگستان۔ بشاری مقدسی کی کتاب ‘احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم’ میں کھنڈرات، عمارات، معدنیات کا بیان ہے۔
یاقوت کے ‘معجم البلدان’ ابوالفدا کے ‘تقویم البلدان’ میں عرب کے طول وعرض بلد کا ذکر ہے۔ مسعودی کی ‘مروج الذہب’ میں بھی وہاں کا جغرافیہ ہے۔ حتیٰ کہ عرب جغرافیہ نویسوں میں سے ابن حائک ہمدانی نے ‘صفۃ جزیرۃ العرب’ میں نہ صرف قبائل اور اقوام کا ذکر کیا ہے بلکہ حیوانات، پہاڑ، تالاب، چراگاہ، وادی، معدنیات اور آثار قدیمہ کا بھی بیان کیا ہے۔ محمود بن عمر زمخشری نے ‘کتاب الامکنۃ والمیاہ، والجبال’ میں عرب کے تالاب، پہاڑ اور مقامات کا ذکر کیا ہے۔
حسن بن محمد نے ‘کتاب الاودیۃ والجبال’ ابوسعید حسن السکری نے ‘کتاب المنابل والقریٰ’ میں عرب کی گھاٹیوں کا ذکر کیا ہے۔ سعدان بن مبارک نے ‘کتاب الارضین والمیاہ والجبال’ ابوسعید الاسمعی نے’کتاب میاہ العرب’ نضر بن شمیل اور ابوزیاد کلابی نے ‘کتاب النوادر’، ‘کتاب الصفات’ لکھ کر نہ صرف اپنی جغرافیہ نویسی کا ثبوت دیا بلکہ ان کی کتابوں میں تمدنی اور تہذیبی شعور کی روشنی بھی ہے۔
قومیں مٹ گئیں، تہذیبیں نیست و نابود ہوگئیں، یونان مصر و روما سب تہذیبوں کا خاتمہ ہوا۔ مگر اب بھی اس کے آثار موجود ہیں۔ ملکہ بلقیس کا شہر سبا آج بھی زندہ ہے۔ آج بہت سے شہروں کا خارجی وجود ختم ہوچکا ہے۔ مگر ان کا وہ معنوی وجود روشن ہے۔
قرآن کریم میں بہت سے شہروں کے تذکرے ہیں۔ مگر اُن کے نشانات معدوم ہیں یا ان مقامات کی تعیین دشوار ہے۔ اب ماہرین آثار قدیمہ اُن شہروں کی شناخت کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دراصل تاریخ اور جغرافیہ ہی ہماری تہذیب کو زندہ رکھنے کا کام کرتے ہیں۔
شہر شناسی ایک بہت بڑا فن ہے۔ ہمارے عرب مؤرخین نے شہر نگاری کی ایک اچھی روایت قائم کی۔ رضوان اللہ صاحب نے اوراقِ مصور میں دراصل اُس شہر کے ایک ایک منظرنامے کو حیات نو عطا کرنے کی کوشش کی ہے جو ہمارے ہندوستان کی سانسوں میں دھڑکتا ہے۔ اُس کے لیے انہوں نے مثنوی کی صنف کا سہارا لیاہے۔ مثنوی کا مروجہ فارم کیا ہے یااُس کی ہیئت کیا ہے اِس بحث سے قطع نظر رضوان اللہ کی یہ مثنوی اپنے مفاہیم اور معانی کی ترسیل میں مکمل طور سے کامیاب ہے۔
رضوان اللہ صاحب نے اس مثنوی میں اپنے شہر ہجر کو ہمارے شہر وصال میں بدل دیا ہے۔ مگر بقول جگر مرادآبادی ہمارا وصال بھی ہجر سا ہے اور اُن کا ہجر بھی وصال سا ہے۔ اُن کے ذہن اُن کی دھڑکنوں میں اب بھی کلکتہ بستا ہے۔ کلکتے کی دھڑکنیں اب بھی سنائی دیتی ہیں اور ہمارے لیے کلکتہ ہنوز دور است ہے۔
غالب نے کلکتہ کا ذکر کیا تو ایک عجب وارفتگی اور والہانہ کیفیت کے ساتھ اور میرکے یہاں جو دلی ہے وہ ان کا دل بن جاتی ہے۔
رضوان اللہ صاحب کی اس مثنوی میں صرف تاریخیت نہیں ہے بلکہ ایک پراسرار شمولیت بھی ہے۔ جب شہر کی سانس میں اپنی سانس شامل ہوجائے تو پھر شہر، آدمی کی سانسوں کی طرح دھڑکنے اور مہکنے لگتا ہے۔ یہ اسی طرح کا تجسیمی عمل ہے جیسے ناصر کاظمی کے اِس شعر میں ہے… میرا دل تو اُداس ہے ناصر… شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے۔ یا جیسے میر نے کہا جس کا مفہوم ہے کہ جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے۔
دلی سے دل کی تجسیم کا یہ عمل دراصل یہی وہ پراسرار شمولیت ہے جو کسی بھی تخلیق کو اعتبار اور جاودانی عطا کرتی ہے۔ مجید امجد اپنے وجود کے حوالے سے درخت کی شناخت کرتے تھے اور درخت کے کاٹے جانے کے عمل کو اپنے قتل سے تعبیر کرتے تھے۔ تو یہ احساس حساس ذہنوں میں ہی ہوتا ہے۔ یہ فنائیت بہت ہی مخصوص دلوں کو حاصل ہوتی ہے۔
کلکتہ شہر کی شناخت میں اپنی شمولیت رضوان اللہ صاحب نے بہت ہی کمالِ ہنرمندی سے دکھائی ہے۔ اِسی طرح اُن کا دلی نامہ محض دلی کا ایک منظرنامہ نہیں ہے بلکہ دلی نامہ اور مثنوی کلکتہ میں ان کے دل کی دھڑکنیں ہیں جن میں بہت سے معانی اور مفاہیم مضمر ہیں جن کی تفہیم وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی جائے گی۔
’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں… اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔کلکتہ کا کولاژبنانے والے رضوان اللہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے ، لیکن ان کے صحافتی اور تصنیفی کارنامے آنے والے وقتوں میں ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔