وہ برقع کی روایت کے خلاف ‘ برقع وگینزا ‘ ڈرامہ کھیلکر پاکستان کے شدت پسند ملا او مولوی کے سینے پر مونگ دل رہی تھیں۔ ہائے توبہ مچی تو حکومت نے اس ڈرامے پر پابندی لگا دی لیکن وہ اس کے باوجود یہ ڈرامہ کھیلتی رہیں۔
(مدیحہ گوہر ،فوٹو:ڈیلی ٹائمس ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے)
پاکستان کی مشہور اسٹیج ڈائریکٹر مدیحہ گوہر نہیں رہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں میں محبت اور امن کی آواز بلند کرنے والی ایک اور کڑی ٹوٹ گئی۔ وہ 62 سال کی تھیں۔ پچھلے چار سالوں سے کینسر سے جوجھ رہی تھیں۔تھیٹر شروع کرنے سے پہلے وہ ایک کالج میں پڑھاتی تھی، احتجاج میں حصہ بھی لیتی تھی اور سرکاری پالیسیوں کے خلاف کھلکر بولتی تھیں، اس لئے ان کو نوکری سے برخاستگی کا انعام دیا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت کے خلاف بولنے کی وجہ سے ان کو جیل بھی جانا پڑا۔
14 اگست کو سرحد پر موم بتی جلانے پہنچیں تو پاکستانی شدت پسندوں اور پولیس کی لاٹھیاں کھائیں۔ لیکن امن کا پیغام دینا نہیں چھوڑا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پنپ رہی مذہبی شدت اور فرقہ وارانہ طاقتوں کے خلاف 1983 میں انہوں نے اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی ۔انہوں نے اپنے ڈراموں کا سفر بادل سرکار کے لکھے ڈرامہ ‘ جلوس ‘ سے شروع کیا۔ پہلی بار لاہور میں ‘ جلوس ‘ کھیلنے کی کوشش کی تو اس پر پابندی لگا دی گئی ۔ لیکن انہوں نے اس کو ماں کے آنگن میں کھیلا اور آگے بڑھتی گئیں۔ دونوں ہی ممالک کے درمیان اسٹیج کے مشترکہ سفیر کی طرح کام کرتی رہیں۔
رہتی وہ لاہور میں تھی لیکن ہر دوسرے چوتھے دن امرتسر آ جایا کرتی تھیں۔ جیسے جسم لاہور میں ہوتا تھا لیکن دل امرتسر میں ہی رہ جاتا تھا۔مدیحہ دونوں ممالک کی مشترکہ ثقافتی وراثت کو بڑھاوا دینے کے لئے آئے دن میلوں کا انعقاد کرتی رہتی تھی۔ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے ڈراما گروپس کو لاہور بلا لیتی اور کبھی ‘ پنج پانی تھیٹرفیسٹیول’، کبھی ‘ ہمسایا تھیٹرفسٹیول ‘، کبھی ‘ زنانی تھیٹرفیسٹیول ‘، کبھی ‘ دوستی تھیٹرفیسٹیول ‘ تو کبھی ‘ امن تھیٹرفیسٹیول ‘ کرتی رہتی تھی۔دونوں ممالک کے فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے انہوں نے ‘ آل پرفارمنگ آرٹس نیٹ ورک ‘ (APAN) کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم تھا۔
1956 میں کراچی میں پیدا ہوئی گوہر نے اپنے ڈراموں میں خاص طور پر فرقہ پرستی کے مدعوں کے ساتھ ساتھ خواتین سے متعلق مدعوں کو بھی اٹھایا۔ انہوں نے سماجی، جاگِير داری، سیاسی برائیوں اور دہشت گردی کے خلاف ڈراموں کے ذریعے لڑائی جاری رکھی۔’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘، ‘ بُلا ‘، ‘ دارا ‘، ‘ میرا رنگ دے بسنتی چولا ‘، ‘ کون ہے یہ گستاخ ‘ ان کے اہم ڈراموں میں ہیں۔ ان کے ڈرامے آج بھی ہندوستان کے تھیٹر کے پرستاروں کے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ تھیٹر کے میدان میں ان کی غیر معمولی خدمات کے لئے 2006 میں ان کو نیدرلینڈ کے مشہور پرنس کلاج ایوارڈ سے نوازا کیا گیا تھا۔ 2005 میں ان کو نوبل امن انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
وہ کینسر جیسی نامراد بیماری سے متاثر تھیں لیکن مسلسل بغیر تھکے بغیر رکے اسٹیج پر فعال تھیں، ناٹک میلے لگا رہی تھیں، سمیناروں میں حصہ لے رہی تھی۔ انہوں نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر اعلان کیا تھا کہ میرا تھیٹر’ تھیٹراگینسٹ طالبان’ ہے۔وہ برقع کی روایت کے خلاف ‘ برقع وگینزا ‘ ڈرامہ کھیلکر پاکستان کے شدت پسند ملا او مولوی کے سینے پر مونگ دل رہی تھیں۔ ہائے توبہ مچی تو حکومت نے اس ڈرامے پر پابندی لگا دی لیکن وہ اس کے باوجود یہ ڈرامہ کھیلتی رہیں۔
لاہور میں جب یہ کہہکر بسنت میلے پر پابندی لگا دی گئی کہ یہ ہندوؤں کا تہوار ہے تو اس نے اس کے خلاف ڈرامہ کھیلا ‘ لو پھر بسنت آئی ‘۔ بھگت سنگھ کی سوانح عمری پر ڈرامہ ‘ میرا رنگ دے بسنتی چولا ‘ کھیلکر نہ صرف انہوں نے پاکستان میں لوگوں کو بھگت سنگھ کی زندگی سے واقف کروایا بلکہ تاریخ جو پاکستان میں لکھی جا رہی ہے اس کو ری رائیٹ کیا اور آج عالم یہ ہے کہ پاکستان میں بچہ بچہ بھگت سنگھ کے نام سے واقف ہے۔ایک دفعہ مدیحہ گوہر ہندوستان آئی ہوئی تھیں تو یہاں کیرل میں ان کا صوفی بابا بلہے شاہ پر ڈرامہ ‘ بلا ‘ کھیلا جانا تھا۔ 3000 لوگ یہ ڈرامہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ مدیحہ اس بات کو لےکر فکرمند تھیں کہ پتہ نہیں لوگوں کو یہ ڈرامہ جو پنجابی میں ہے وہ سمجھ آئےگا یا نہیں۔
جب ڈرامہ شروع ہونے والا تھا تو کچھ ہندووادی وہاں آکر پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ہنگامہ کرنے لگے کہ کسی بھی پاکستانی ٹیم کو یہاں ڈرامہ نہیں کرنے دیا جائےگا۔ منتظمین نے گھبراکر مدیحہ سے کہا کہ آپ ان سے ایک بار مل لیں تو شاید بات بن جائے۔مدیحہ ان سے بے خوف ہوکر ملیں، ان کو سمجھایا اور ان کو بھی ڈرامہ دیکھنے کی دعوت دی۔ بہر حال ڈرامہ کھیلا گیا اور جب ڈرامہ ختم ہوا تو وہاں آئے ہوئے ہزاروں لوگوں نے تالیاں بجاکر اس ڈرامے کو سراہا تبھی وہ بھلا مانس جو ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، وہاں آئے اور اسٹیج پر آکر مدیحہ کو بڑی گرم جوشی سے مبارکباد دی۔
اس حادثے کو مدیحہ کبھی بھلا نہیں پائیں اور تھیٹرکی طاقت پر اپنا بھروسہ سدا بنائے رکھا۔ مشہور پنجابی تھیٹر صرف دھالیوال کے ساتھ وہ ایک لمبے عرصے سے جڑی ہوئی تھیں۔ہرسال جون کے مہینے میں ایک مہینے کے لئے وہ پاکستان سے نئے فنکاروں کو ٹریننگ کے لئے صرف دھالیوال کے پاس امرتسر بھیجتی تھیں۔ امرتسر اور لاہور کے فنکاروں نے ملکر ایک ڈرامہ ‘ یاترا-1947 ‘ تیار کیا تھا جس کے ابھی تک وہ کئی شو کر چکے ہیں۔11 دسمبر 2017 کو وہ آخری بار یہاں آئی تھیں۔ صرف دھالیوال سے جاتے جاتے پھر آنے کا وعدہ کر گئی تھیں لیکن وہ اپنا وعدہ نہیں نبھا پائیں۔ صرف دھالیوال کے الفاظ میں ‘ حیوانیت کے دور میں وہ انسانیت کی جیتی جاگتی مثال تھیں۔ ‘
The post
مدیحہ گوہر : حیوانیت کے دور میں انسانیت کی جیتی جاگتی مثال appeared first on
The Wire - Urdu.