مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ ،حکومت نوجوانوں سے بات کرےگی اور اگر انہیں شہریت قانون کو لےکر کوئی بھرم ہے تو اسے دور کرےگی لیکن ان لوگوں سے بات نہیں کرےگی جو آزادی کے نعرے لگاتے ہیں اور‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ کا حصہ ہیں۔
مرکزی وزیر روی شنکر پرساد (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: شہریت قانون (سی اے اے)کو لےکر ملک بھر میں ہو رہے مظاہرے کے بیچ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ وہ سی اے اےکو لےکر نوجوانوں کے ہر بھرم کو دور کرنے کے لیے تیار ہے،لیکن ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ سے وہ بات نہیں کرےگی۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ایک پروگرام میں کہا کہ ‘ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور احتجاج کی آزادی ہے لیکن قومی سلاتی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت نوجوانوں سے بات کرےگی اور اگر انہیں شہریت قانون کو لےکر کوئی بھرم ہے تو اسے دور کرےگی لیکن ان لوگوں سے بات نہیں کرےگی جو آزادی کے نعرے لگاتے ہیں اور‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ کا حصہ ہیں۔
روی شنکر پرساد وشو ہندو پریشد کی جانب سے منعقد ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔ یہ پروگرام پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی استحصال کی وجہ سےمہاجر ہندو، سکھ، بودھ، عیسائی اور جین جو اب شہریت قانون کے تحت ہندوستان کے شہری بن سکتے ہیں، کے اعزازمیں منعقد کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کی ایک تصویر کو ٹوئٹ کرتے ہوئے روی شنکر پرساد نے بتایا کہ ‘اس پروگرام میں مجھے پیاری بٹیا ‘ناگریکتا’سے ملنے کا موقع ملا جو ایک مذہبی استحصال کی شکار ہندو کی بیٹی ہے۔ اس کا جنم اسی دن ہوا جس دن پارلیامنٹ نے شہریت قانون کو پاس کیا۔ اس لیے ان کے گھروالوں نے اس کا نام ‘ناگریکتا’ رکھا۔’
مرکزی وزیر نے یہاں ایک بار پھر صاف کیا کہ ‘سرکار نے باربار کہا ہے کہ یہ قانون ہندوستانی شہریوں پرنافذ نہیں ہوتا۔سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سمیت کانگریس کے رہنما بھی الگ الگ مواقع پر ہندوؤں، سکھوں اور پاکستان –بنگلہ دیش سےہندوستان آئے مظلوم دوسری اقلیتوں کو شہریت دینے کی باتیں کر چکے ہیں۔’واضح ہو کہ مرکزی حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون بنایا ہے اس کے مطابق بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے عیسائی، پارسی، ہندو، بودھ اور سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو بھارت کی شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔
حالانکہ ملک کے الگ الگ حصوں میں اس قانون کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے حکومت مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا چاہتی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)