کیا ہے رویش کی طاقت؟ زمین پر لگے ان کے کان؟ وہ ہے! خبر کی پہچان؟ وہ تو ہے ہی! لیکن ان سب سے بڑھکر محنت! کسی موضوع پر بات کرنے کے پہلے اس کو سمجھنے کی خاکساری۔ سطحی پن سے جدو جہد! گہرائی میں جانے کی کوشش!
صحافی رویش کمار(فوٹو: دی وائر)
ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ خبرنویس خود خبر بن جائے۔ گزشتہ چند دنوں سے
ایک خبرچی ہی خبر ہے: رویش کمار۔
یاد آتی ہے کوئی 18 سال پہلے کی رویش سے ایک ملاقات۔ ‘دقت یہ ہوئی ٹیلی ویژن کی دنیا میں کہ جس کو خبر دکھانے کا کام ہے، وہ سوچ بیٹھا ہے کہ لوگ اخبار نہیں، اسے دیکھنے ٹی وی کھولتے ہیں۔ ‘ رویش نے کہا۔ اس وقت وہ رپورٹنگ کا کام کر رہے تھے۔ہم نے مہاتما گاندھی انٹرنیشنل یونیورسٹی میں اپنی جدو جہد اور تحریک کو لےکر ان سے رپورٹنگ کی گزارش کی تھی۔ رپورٹ بنی، لیکن رویش نے کہا،’معاف کیجئے، کمزور رپورٹ ہے!کوئی نامہ نگار یہ کہے،اس وقت بھی یہ سوچنامشکل تھا، آج تو ہے ہی۔
تب سے وقت کتنا بدل گیا ہے۔ تب سے اب تک کافی خون ہندوستان کی سڑکوں پر بہہکر سوکھ چکا ہے۔ کافی نفرت ہماری نسوں میں بیٹھ چکی ہے اور حماقت ہمارے ذہنوں میں جڑکر چکی ہے۔جو طاقتور مانے جاتے تھے، بز دلی نے ان کی ریڑھ توڑ دی ہے، اسی لئے اپنی بز دلی کو ہم نے زیور بنا لیا ہے اور جو بزدل نہیں ہے اس سے ہم نفرت کرنے لگے ہیں۔
اداروں نے، چاہے وہ یونیورسٹی ہوں، یا عوامی ترسیل کے ذرائع اپناکردار بدل لیاہے۔ ہم جو اس بھلاوے میں تھے کہ ہم دلیل دینے والے لوگ ہیں، پیروکاروں میں بدل گئے ہیں۔زبان،جس کا کام حق کو دکھانے کا تھا، وہ ڈھکنے کا پردہ بن گئی ہے۔ تجسس جرم بن گیا اور تنقید دہشت گردانہ سازش۔
یہی وقت تھا جس میں رویش آہستہ آہستہ نکھرکر منظرنامہ پر ابھر آئے۔ جو انہوں نے کہا تھا، استہزائی طریقے سے ان پر نافذ ہونے لگا۔ لاکھوں لاکھ لوگ رات کے نو بجے رویش کمار کو دیکھنے کے لئے ٹی وی کھولنے لگے۔بہار ہو یا بنگال، اڑیسہ ہو یا کیرل، گجرات ہو یا مہاراشٹر، ہرجگہ، ہوائی اڈہ ہو یا ٹرین، میٹرو ہو یا بس، کوئی نہ کوئی آکے آپ سے رویش کمار کا حال چال ضرور پوچھ لیتا ہے۔ کئی لوگ آکر ان کی خیریت کی دعا کر جاتے ہیں۔
میں نے نامور سنگھ کو اتنا پریشان نہیں دیکھا تھا جتنا پٹنہ کے ہوٹل میں رات کے نو بجے این ڈی ٹی وی ہندی نہ ملنے پر وہ ہوئے تھے۔ یہ کوئی معجزہ نہیں۔رویش کمار نے چونکہ اپنا مذہب نہیں چھوڑا، لوگوں نے ان پر یقین کیا۔ مذہب صحافت کا تھا۔
تقریباً سو سال پہلے ماکھن لال چترویدی نے لکھا تھا، صحافی کا کام تو ایک اکادمک شخص سے بھی زیادہ ذمہ داری کا ہوتا ہے۔ اکادمک تحریر میں بھول چوک کو دوسرا اسی شعبے کا ماہر درست کر لےگا۔ لیکن اگر اخبار میں چوک ہو گئی تو اس کو پڑھنے والوں کے پاس اس کو سدھارنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔
اس لئے اس ہندوستانی روح نے صحافیوں کو ان کا فرض یاد دلایا، ان کو اضافی شرم کرنا ہے، دوگنی احتیاط برتنی ہے۔ وہ لاکھوں لوگوں کا نظریہ جو بنا رہے ہیں!وہی ماکھن لال چترویدی اگر 20ویں صدی کی آخری دہائی کا ہندی اخبار پڑھتے تو ان کا سر شرم سے جھک جاتا۔ یہاں چوک نہ تھی۔ سوچا-سمجھا فیصلہ تھا، جھوٹ بولنے کا، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا۔
یہ ہندی صحافت کی عادت بن گئی۔ رام جنم بھومی تحریک کے دوران رگھوویر سہائے کی قیادت میں ایڈیٹرس گلڈ کی رپورٹ میں یہ بات تکلیف سے درج کی گئی۔اور پھر ساتھ ساتھ ٹی وی بھی آیا۔ ٹی وی خبر دکھانے کی جگہ رائے دکھانے لگا بلکہ رایوں کے درمیان کشتی کرانے لگا۔ خبر دینا اس کا کام نہ رہ گیا۔
ٹی وی میں اینکر نامی ایک ادارہ نے جنم لیا۔ اس گمان کے ساتھ کہ وہ سماج کا نظریہ طے کر رہا ہے۔ اس غرورکے ساتھ کہ وہ امپائر ہے۔ وہ بھول گیا اپنے آباء و اجداد کے انتباہ کو۔صحافی کا کام سماج کو خبردار کرنے کا ہے۔ وہ پہریدار بھی ہے۔ ‘ جاگتے رہو ‘ کی پکار لگاتے رہنا اس کا فرض ہے۔
صحافی قدرتی طور پر انصاف کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کمزور کا حامی ہوتا ہے۔ وہ اقتدار، چاہے وہ کوئی بھی ہو، دولت کی یا سیاست کی، اس کی فکر مخالف ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں، وہ ناقد کے علاوہ اور کچھ ہو نہیں سکتا۔ تقاضہ اس کا کام نہیں۔ تنہائی اس کا مقدرہے۔
‘
اسپاٹ لائٹ ‘ فلم کا منظر یاد آتا ہے جس میں طاقتور چرچ کا پادری مدیر سے دوستانہ انداز میں کہتا ہے کہ آپ کا اخبار اور ہمارا چرچ، دو عظیم ادارے ہیں۔ کیسا رہے اگر دونوں ملکر کام کریں! اور مدیر عاجزی سے جواب دیتا ہے کہ اخبار بہتر کام تبھی کرتا ہے جب وہ اکیلے کام کر رہا ہو۔
کسی ایک صحافی کو اس وقت کتنا اکیلاپن محسوس ہوتا ہوگا جب اس کے سارے ہم پیشہ خود کو معمار قوم یا ملک کامحافظ مان بیٹھے ہوں! رویش کمار اسی بڑھتے اکیلے پن کے درمیان اسی کو اپنی طاقت بناکر کام کرتے رہے۔یہ مشکل تھا۔ یہ بنجر میں پھول کھلانے جیسا کام تھا لیکن رویش نے اپنی کھرپی یا کدال نہیں چھوڑی۔ وہ زمین توڑتے رہے۔
رویش آج کیا کہنے والے ہیں؟ یہ تجسس تو ہر رات ان کے ناظرین کو رہتا ہی ہے، آج کا ان کا انداز کیا ہے، یہ تجسس بھی ان کو رہتا ہے۔ شاید ہی کسی صحافی کو، وہ بھی ویڈیو ذرائع ابلاغ کے، اسلوب سازکے طورپرشہرت ملی ہے۔کیا ہے رویش کی طاقت؟ زمین پر لگے ان کے کان؟ وہ ہے! خبر کی پہچان؟ وہ تو ہے ہی! لیکن ان سب سے بڑھکر محنت! کسی موضوع پر بات کرنے کے پہلے اس کو سمجھنے کی خاکساری۔ سطحی پن سے جدو جہد! گہرائی میں جانے کی کوشش!
رویش کا ناظر صرف ان کی طرفداری کی وجہ سے نہیں، ان کی صحیح سیاست کی وجہ سے نہیں،ان کے انہی اوصاف حمیدہ کی وجہ سے ان کے مرید بنے ہیں۔اس سبب بھی کہ رویش کمار میں اخلاقی جرأت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قتل اور ظلم میں قاتل کے حزب کو سمجھنے کی جب وکالت کی جاتی ہے، جب تشدد کو تنازعے کا موضوع بنا دیا جاتا ہے تو یہ جانب داری نہیں، دھوکہ دھڑی ہے!
اگر اس ملک کے بےروزگار نوجوان، ملک بھر کے خستہ حال کالجوں میں پڑھنے اور پڑھانے والے، بینک ملازم، ریلوےملازم، مزدور، کسان، دلت، عیسائی اور مسلمان رویش کمار سے پیار کرتے ہیں تو کیوں؟کیونکہ رویش کمار ہندوستان کا دکھتا ہوا دل ہے۔
مکتی بودھ کے لفظوں میں وہ ہردیہ جو رکت کا اُبلتا ہوا تالاب ہے۔ وہ روشنی جو خود کو جلاکر پیدا کی جاتی ہے۔آئیے، دعا کریں کہ یہ چراغ روشن رہے۔ جب تک وہ جلتا ہے، ہندوستان کی سانس چلتی ہے!
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)