وزیر اعظم کی وجہ سے الیکشن کمیشن ہر دن اپنا بھروسہ کھو رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اڑیسہ کے آبزرور محمد محسن کو برخاست کر دیا۔ وزیر اعظم مودی کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی کی وجہ سے کمیشن نے جن اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے محسن کو برخاست کیا ان کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آتا ہے۔
آپ سبھی لوگ 18 اپریل کے الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس کا ویڈیو دیکھیے۔ یہ ویڈیو کمیشن کے زوال کا دستاویز (Document of decline) ہے۔جس وقت کمیشن کا سورج ڈوبتا نظر آ رہا تھا اسی وقت ایک کمشنر کے ہاتھ کی انگلیوں میں لعل و یاقوت کی انگوٹھیاں چمک رہی تھیں۔ دفتر میں بیٹھا اچانک نیوز ایجنسی کے ذریعے آ رہے لائیو فیڈ کو دیکھنے لگا تھا۔ صرف دو سوالوں کے جواب میں کمشنر کے جواب اور ان کی نگاہیں دیکھ لیجیے۔ وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی اور بالاکوٹ کے نام پر ووٹ مانگنے پر کیا کارروائی ہوئی ہے، ان کے جواب کو سنیے، آپ کو واضح ہو جائےگا کہ الیکشن کمیشن کا سورج دھندلا ہو گیا ہے۔
لعل و یاقوت سے لیس ایک کمشنر کی دونوں انگوٹھیاں آنکھوں میں کھٹکنے لگیں تو کسی کو فون کرنے لگا کہ ہرے رنگ کی یاقوت اور ہلکے لال رنگ کا لعل کب پہنتے ہیں۔ جواب ملا کہ عقل اور سورج کمزور ہو تو اس کو تیز کرنے کے لئے پہنتے ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ شخص آئین کے مطابق کمشنر بنا ہے یا پھر جیوتش کے اتفاق سے۔ اگر ا س کے کیریئر میں صرف جیوتش کی اتفاقیہ شراکت ہے تو ہم امید کیوں کر رہے ہیں کہ کمشنر جی آئینی وقار کے لئے تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں۔
9 اپریل کو مہاراشٹر کے لاتور کی انتخابی ریلی میں دئے گئے وزیر اعظم مودی کے بیان پر کمیشن ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لے پایا ہے۔ اس ریلی میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ پہلی بار ووٹ کرنے والے ووٹرس کیا اپنا ووٹ پلواما کے شہیدوں اور بالاکوٹ ایئر اسٹرائک میں شامل بہادر جوانوں کو وقف نہیں کر سکتے۔ اس بیان پر کمیشن ابھی تک کارروائی نہیں کر سکا۔ مہاراشٹر کے چیف الیکشن افسر سے جواب مانگا تھا۔ صحافیوں نے پوچھا کہ اس پر کیا کارروائی ہوئی تو جواب ملا کہ وزیر اعظم کی تقریر کا صرف ایک پیراگراف آیا تھا۔ پوری تقریر کی مستند کاپی مانگی گئی تھی جو آ گئی ہے۔ اس کی جانچ کی جا رہی ہے۔
اسکول کی عادتیں زندگی بھر نہیں چھوٹتی ہیں۔ ہوم ورک نہیں کرنے پر ہوم ورک کی کاپی گھر چھوٹ گئی ہے، کا جواب الیکشن کمشنر کے جواب میں جھلک رہا تھا۔ جس وقت کمشنر گنا رہے تھے کہ اتنی لاکھ شکایتوں کا حل کر دیا گیا ہے، اسی وقت اس بات کا جواب نہیں دے پا رہے تھے کہ وزیر اعظم کی تقریر پر ایکشن لینے میں 9 دن کیوں لگے۔ جبکہ فوج کے استعمال پر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مختار عباس نقوی کو کمیشن نے وارننگ دے دی ہے۔
ظاہر ہے فوج کا استعمال آئینی نہیں ہے تو پھر وزیر اعظم کے معاملے میں کیا کمیشن کے لعل و یاقوت پہننے والے کمشنر کو ڈر لگ رہا ہے؟ اگر اتناہی ڈر لگ رہا ہے تو وہ مونگا اور نیلم بھی پہن لیں اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ صفحے پلٹتی ہے۔ وہ نہ صرف تاریخ بلکہ اپنے حال سے مخاطب ہیں۔ اپنے دوستوں، فیملیوں سے مخاطب ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اڑیسہ کے آبزرور محمد محسن کو برخاست کر دیا۔ وزیر اعظم مودی کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی کی وجہ سے کمیشن نے جن اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے محسن کو برخاست کیا ان کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آتا ہے۔ کمیشن الیکشن ڈیوٹی پر تعینات افسروں کو جو گائڈلائن دیتا ہے اسی کو اٹھاکر پڑھ لے اور بتا دے کہ کیا اس میں کہیں لکھا ہے کہ ایس پی جی سکیورٹی حاصل ہونے والے شخص کے ہیلی کاپٹر کی جانچ نہیں کرنی ہے۔ کس صفحے پر لکھا ہے بتا دے۔ ظاہر ہے نہیں لکھا ہے۔
جب سوال اٹھا تو کمیشن کو ساری باتوں کے ساتھ پریس کانفرنس میں آنا چاہیے تھا مگر نہ تو اس کا سیدھا جواب دے پائے کہ کس کی شکایت پر کارروائی کی اور نہ ہی اس کا کہ کس اصول کے تحت محمد محسن کو سسپنڈ کیا۔ کبھی کہا فیلڈ افسر کبھی کہا ڈی او کبھی کہا سی ای او، کبھی کہا مجسٹریٹ۔ آپ خود بھی وہ ویڈیو دیکھیں جس کو میں نے پرائم ٹائم میں دکھایا ہے، آپ کو الیکشن کمیشن کے زوال کا چہرہ دکھ جائےگا۔
10 اپریل 2014 کے حکم کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اس حکم کو آپ بھی پڑھیں۔ اس میں یہ تو لکھا ہے کہ وہ شخص جس کو ایس پی جی سکیورٹی ملی ہو، سرکاری گاڑیوں کا استعمال نہیں کر سکتا ہے مگر وزیر اعظم اور دیگر سیاسی شخصیتوں کو چھوٹ ہے کہ وہ سرکاری گاڑیوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کو دہشت گرد اور انتہا پسند سرگرمیوں سے خطرہ ہوتا ہے اور اعلیٰ سطح کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن کا تحفظ پارلیامان یا اسمبلی کے بنائے آئینی اہتماموں سے ہوتا ہے۔
لیکن اس حکم میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ الیکشن افسر ان کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی نہیں لے سکتا ہے۔ یہ ضرور لکھا ہے کہ’ اگر کبھی اس بات کو لےکر ذرا بھی شک ہو کہ ایس پی جی ایکٹ یا دیگر خاص اہتماموں کے تحت اتھارٹی نے تحفظ کا تجزیہ بڑھاچڑھا کر اس طرح سے کیا ہے کہ ان گاڑیوں سے کسی پارٹی یا امیدوار کی حمایت میں انتخابی مفادات کو متاثر کیا جا سکے تو کمیشن اس معاملے کو متعلقہ حکومت کی نظر میں لائےگا تاکہ مناسب قدم اٹھایا جا سکے۔ ‘
یعنی ہیلی کاپٹر کی تلاشی لی جا سکتی ہے تبھی تو آپ دیکھ پائیںگے کہ ہیلی کاپٹر کا استعمال الیکشن کو متاثر کرنے کے لئے ہو رہا ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے محمد محسن نے ٹھیک کام کیا تھا۔ وزیر اعظم رہتے ہوئے منموہن سنگھ کی گاڑی کی بھی تلاشی لی گئی تھی۔ یہی نہیں جب صحافیوں نے پوچھا کہ کس حکم کے تحت سسپنڈ کیا گیا ہے ان کی کاپی چاہیے تو کمشنر جی جواب دے رہے تھے کہ ہم چیک کریںگے۔ ہم پتہ کریںگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک افسر جانچکر رہا ہے تو کیا جانچ سے پہلے محمد محسن کو برخاست کرنا چاہیے تھا؟
14 جولائی 1999 کا ایک اور حکم ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ تلاشی سے کسی سرکاری طیارہ یا ہیلی کاپٹر کو چھوٹ دی گئی ہے۔ 10 اپریل 2014 کے حکم میں بھی یہ بات نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی نہیں لی جا سکتی۔ الیکشن ڈیوٹی پر تعینات افسروں کو جو کتاب دی جاتی ہے اس میں بھی نہیں لکھا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے بچاؤ میں 22 مارچ 2019 کے حکم کا حوالہ دیا ہے جس کو ہمارے معاون ارویند گناشیکھر نے پڑھا ہے اور اپنی رپورٹ میں دکھایا بھی ہے۔ یہ حکم کہتا ہے کہ کمرشیل ایئر پورٹ پر ان لوگوں کی تفتیش نہیں ہوگی جن کو ایس پی جی سکیورٹی کی وجہ سے چھوٹ ملی ہے۔ مگر وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی اڑیسہ کے سمبل پور میں ہوئی جہاں کوئی ایئر پورٹ ہی نہیں ہے۔
وزیر اعظم کی وجہ سے الیکشن کمیشن ہر دن اپنا بھروسہ کھو رہا ہے۔ گورنر کلیان سنگھ کے خلاف کارروائی کی سفارش صدر جمہوریہ کو بھیجکر بےفکر ہو گیا ہے۔ صدر نے بھی ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔ 2019 کے انتخاب میں اداروں کی ہر منزل ڈھہتی نظر آ رہی ہے۔ عوام کو نہیں دکھتا تو کیا جیوتشی لوگوں سے ہی کہا جائے کہ وہ کمیشن کے افسروں کو ہر طرح کے جواہرات پہنا دیں تاکہ وہ اپنا آئینی کام کر سکیں۔ کیا کوئی ایسی انگوٹھی ہے جس کو پہنکر الیکشن کمشنر کی انگلیاں خوبصورت بھی لگیں اور وہ نڈر اور غیر جانبدار ہوکر آئینی کام کر سکیں۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا ہے تو ایک اور کام کیجیے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے لیے الگ سے الیکشن کمیشن کھول دیجیے جس کا دفتر ان کے موبائل فون میں ہو۔ جئے ہند۔