راشٹرپتی بھون کے تاریخی دربار ہال اور اشوک ہال کا نام بدلا گیا

راشٹرپتی بھون کے دربار ہال اور اشوک ہال اب گن-تنتر منڈپ اور اشوک منڈپ کے نام سے جانے جائیں گے۔ دربار ہال وہ جگہ تھی جہاں 1947 میں آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت نے حلف اٹھایا تھا۔

راشٹرپتی بھون کے دربار ہال اور اشوک ہال اب گن-تنتر منڈپ اور اشوک منڈپ کے نام سے جانے جائیں گے۔ دربار ہال وہ جگہ تھی جہاں 1947 میں آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت نے حلف اٹھایا تھا۔

راشٹر پتی بھون۔ (تصویر بہ شکریہ: rashtrapatibhavan.gov.in/)

راشٹر پتی بھون۔ (تصویر بہ شکریہ: rashtrapatibhavan.gov.in/)

نئی دہلی: راشٹرپتی بھون کے دربار ہال اور اشوک ہال اب گن-تنتر منڈپ اور اشوک منڈپ کے نام سے جانےجائیں گے۔حکام  نے اس قدم کو ہندوستان کی جمہوری روایات کی پیروی اور ‘انگلشائزیشن’ اور نوآبادیاتی روایات سے دور جانے کی ضرورت کے طور پر پیش کیا۔

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، تھرون روم کے نام سے جانا جانے والا دربار ہال وہ جگہ تھی جہاں 1947 میں آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت نے حلف اٹھایا تھا اور سی راج گوپالاچاری نے 1948 میں ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر حلف لیا تھا۔ یہ وہ جگہ بھی تھی جہاں 1977 میں صدر فخر الدین علی احمد کی میت رکھی گئی تھی۔ سول اور فوجی اعزازات کی تقسیم اور چیف جسٹس آف انڈیا کی حلف برداری اسی ہال میں ہوتی ہے۔

اشوک ہال کو غیر ملکی مشنوں کے سربراہوں کے تعارف کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں صدر کی طرف سے دی جانے والی سرکاری ضیافت سے پہلے غیر ملکی وفود کا باقاعدہ تعارف کرایا جاتا ہے۔

راشٹرپتی بھون کی طرف سے جاری کردہ ایک ریلیز کے مطابق ، ‘راشٹرپتی بھون، ہندوستان کے صدر کا دفتر اور ان کی رہائش گاہ ہے جوملک کی علامت اور انمول ورثہ ہے۔ یہاں لوگوں کی  رسائی کو اور زیادہ آسان بنانے  کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ راشٹرپتی بھون کے ماحول کو ہندوستانی ثقافتی اقدار اور اخلاقیات کا عکاس بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ‘دربار لفظ سے ہندوستانی حکمرانوں اور انگریزوں کے درباراورمجلس مراد لیے جاتے  ہیں۔ ہندوستان کے جمہوریہ بننے کے بعد اس کی ضرورت  نہیں رہی۔ ‘گن -تنتر’ کا تصور قدیم زمانے سے ہی ہندوستانی معاشرے میں موجود ہے، اس لیے ‘گن-تنتر منڈپ’ اس جگہ کےلیے مناسب نام ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا، ‘اشوک ہال’ اصل میں ایک بال روم تھا۔ لفظ ‘اشوک’ کا مطلب ہے وہ شخص جو ‘تمام دکھوں سے آزاد’ ہو یا ‘کسی بھی تکلیف سے مبرا’ ہو۔ نیز، ‘اشوک’ سے مراد شہنشاہ  اشوک ہے، جو اتحاد اور پرامن بقائے باہمی کی علامت تھے۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘جمہوریہ ہند کا قومی نشان سارناتھ واقع اشوک کے شیرکےستون سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ اشوک کے درخت کو بھی حوالہ بناتا ہے جس کی ہندوستانی مذہبی روایات کے ساتھ ساتھ آرٹ اور ثقافت میں بھی اہمیت ہے۔ ‘اشوک ہال’ کے نام کو ‘اشوک منڈپ’ میں تبدیل کرنے سے زبان میں یکسانیت آئے گی اور انگلشائزیشن کے نشانات ختم ہوں گے،ساتھ ہی  لفظ ‘اشوک’ سے وابستہ بنیادی اقدار کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔‘

واضح ہو کہ گزشتہ سال راشٹرپتی بھون میں مغل گارڈن کا نام بدل کر امرت ادیان کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2022 میں راشٹرپتی بھون سے انڈیا گیٹ کی طرف جانے والی سڑک راج پتھ کا نام بدل کر کرتویہ پتھ کر دیا گیا تھا۔

نام کی ان تبدیلیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے پارلیامنٹ کے باہر صحافیوں سے کہا، ‘دربار کا تصور اب نہیں رہا، لیکن شہنشاہ (راجاؤں کے راجا) کا تصور موجود ہے۔’

لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران پرینکا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بار بار اپنے بھائی اور کانگریس ممبر پارلیامنٹ راہل گاندھی کو ‘شہزادہ’ کہنے کے جواب میں مودی کو ‘شہنشاہ’ کہا تھا۔

دربار ہال میں سرخ مخملی پس منظر کے سامنے  پانچویں صدی کی بدھ کی مورتی ہے۔ راشٹرپتی بھون کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ ‘اس مجسمے کے سامنے صدر کی کرسی رکھی گئی ہے۔ اس سے پہلے اس جگہ پر دو تخت (سنہاسن)رکھے گئے تھے، ایک وائسرائے کے لیے اور دوسرا ان کی اہلیہ کے لیے۔

دربار ہال کی راہداری میں ملک بھر کے نامور مجسمہ سازوں کے بنائے گئے سابق ہندوستانی صدور کے مجسمے آویزاں ہیں۔ ہال کی سنگ مرمر کی دیواروں میں وینکٹیش ڈی کی بنائی  مہاتما گاندھی، بیرن ڈے کی بنائی  سی راج گوپالاچاری، گیراسیموو کی  بنائی جواہر لال نہرو اور جے اے لالکاکا کی بنائی  ڈاکٹر راجندر پرساد کی آدم قد پینٹنگ ہیں۔ دربار ہال میں ہندوستان کے قومی نشان کے ساتھ گہرے سرخ رنگ کے چھ لمبے جھنڈے بھی لگےہیں۔

اشوک ہال میں بہت سے نوادرات ہیں۔ ویب سائٹ کہتی ہے کہ ‘چھت کے بیچ میں ایک چمڑے کی پینٹنگ ہے جس میں فارس کے سات قاجار حکمرانوں میں سے دوسرے، فتح علی شاہ کی گھوڑے پر  سوار ی کی تصویر  دکھائی گئی ہے، جو اپنے بائیس بیٹوں کی موجودگی میں شیر کا شکار کر رہے ہیں۔یہ پینٹنگ، جس کی لمبائی 5.20 میٹر اور چوڑائی 3.56 میٹرہے،  فتح شاہ نے خود انگلینڈ کے جارج چہارم کو تحفے میں دی تھی۔‘

Next Article

ہندوستان 2024 میں جمہوری ممالک میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے معاملے میں سر فہرست: رپورٹ

ڈیجیٹل رائٹس آرگنائزیشن ایکسس ناؤ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ہیش ٹیگ کیپ اِٹ آن کی مشترکہ کوششوں سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان  انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے معاملے میں جمہوری ممالک کی فہرست میں پہلےپائیدان پر ہے۔ 2024 میں ملک بھر کی 16 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 84 بار انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کیے گئے۔

السٹریشن

السٹریشن

نئی دہلی: ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہندوستان نے 2024 میں 84 بار انٹرنیٹ بند کیا۔ ہندوستان اس عالمی فہرست میں میانمار سے صرف ایک پائیدان پیچھے ہے، جہاں 2024 میں سب سے زیادہ 85 مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا۔ کیونکہ میانمار ایک آمرانہ ملک ہے۔ ایسی صورتحال میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جمہوری ممالک میں ہندوستان  2024 میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کرنے والا ملک ہے۔

معلوم ہو کہ ہندوستان مسلسل پچھلے چھ سالوں سے عالمی سطح پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ بند کرنے والا ملک رہا ہے۔ لیکن پچھلے سال 2024 میں میانمار نے ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دیا اور انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ پابندی لگا ئی۔

ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم ایکسس ناؤ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ہیش ٹیگ کیپ اِٹ آن  کی مشترکہ کوششوں سے کے مرتب کیے گئے  ڈیٹا کی بنیاد پر جاری رپورٹ میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن  کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 2024 ڈیجیٹل بلیک آؤٹ کے لیے ایک ریکارڈ توڑنے والا سال تھا۔

ایکسس ناؤ اورہیش ٹیگ کیپ اِٹ آن  نے کہا: ‘انٹرنیٹ پابندیوں میں اضافہ اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ یہ بحران پوری دنیا میں انسانی حقوق اور انسانی زندگی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔’

پچھلے سال، پہلی بار سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  عالمی سطح پر سب سے زیادہ بلاک ہونے والا پلیٹ فارم تھا۔ اس دوران اس پلیٹ فارم پر مواد کے مینجمنٹ میں بھی گراوٹ کا مشاہدہ کیا گیا۔

تنظیموں نے کہا کہ ایکس کے ساتھ  سگنل اور ٹک ٹاک میں بھی 2023 کے مقابلے میں 2024 میں زیادہ پابندیاں دیکھی گئی ہیں۔

تنازعات والے علاقوں میں پابندیاں جاری، سرحد پار شٹ ڈاؤن میں توسیع

سال 2024 میں ایکسس ناؤ اورہیش ٹیگ کیپ اِٹ آن نے 54 ممالک میں 296 انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن ریکارڈ کیے، جو 2023 میں 39 ممالک میں 283 شٹ ڈاؤن کے پچھلے ریکارڈ کو پار کر گیا۔

سال 2022 کے مقابلے میں گزشتہ سال متاثرہ ممالک کی تعداد میں 35 فیصد کا تیز اضافہ دیکھا گیا، سات ممالک نے پہلی بار شٹ ڈاؤن نافذ کیا۔

مسلسل دوسرے سال، تنازعات کے واقعات کے دوران انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا  سب سے زیادہ مشاہدہ کیا گیا۔ اس دوران، حکام نے رابطے میں خلل ڈالنے کے لیے اپنے حربوں کو بڑھایا – آلات کو جام کرنے اور کیبل کو کاٹنے سے لے کر، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو نقصان پہنچانے تک کے حربے استعمال کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر بھی شٹ ڈاؤن میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا، آٹھ اداروں کی جانب سے ایسے 25 شٹ ڈاؤن لگائے گئے، جس سے 13 ممالک میں لوگ متاثر ہوئے۔ ان میں یوکرین میں روس، غزہ میں اسرائیل اور میانمار میں تھائی لینڈ اور چین دونوں کی طرف سے لگائے گئے شٹ ڈاؤن شامل تھے۔

میانمار کا ڈیجیٹل بلیک آؤٹ: جنگ اور جبر کا ایک آلہ

معلوم ہو کہ فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار نے اختلاف رائے کو دبانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے سینکڑوں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا مشاہدہ کیا ۔ صرف 2024 میں، رپورٹ کے مصنفین نے 85 شٹ ڈاؤن کی تصدیق کی، جن میں سے 31 انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ساتھ موافق تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘میانمار جنٹا(فوجی حکومت) نے 74 شٹ ڈاؤن نافذ کیے، جن میں سے کم از کم 17 کا تعلق شہری دیہات پر فضائی حملوں سے تھا۔’

میانمار کا انٹرنیٹ بند ہونا صرف ایک گھریلو بحران نہیں ہے – اس کی ایک بین الاقوامی جہت بھی ہے۔ چین اور تھائی لینڈ نے میانمار کو متاثر کرنے والے چھ سرحد پار شٹ ڈاؤن نافذ کیے، جن میں سے دو کے لیے چین اور چار کے لیے تھائی لینڈ ذمہ دار ہے۔

مسلح مزاحمتی گروپوں بشمول جلاوطن نیشنل یونٹی گورنمنٹ (این یو جی)، میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی، اور تاانگ نیشنل لبریشن آرمی نے بھی اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ڈیجیٹل بلیک آؤٹ نافذ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا، ‘جنٹا نے اسٹار لنک اور آئی پی اسٹار کی پیشکش کرنے والی دکانوں پر چھاپہ مارا۔ دوسرے میں، این یو جی  نےایل ای او (کم ارتھ مدار) سیٹلائٹ انٹرنیٹ تک عوام کی رسائی کو روکنے کے لیے مزاحمتی کنٹرول کے تحت ٹاؤن شپ کو ہدایت دی۔ ہمارے ریکارڈ میں اس طرح کے شٹ ڈاؤن  کا یہ پہلا واقعہ ہے۔’

ہندوستان میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے معاملے میں منی پور، ہریانہ اور جموں و کشمیر سرفہرست ہیں

ایک طرف، میانمار نے انٹرنیٹ پر پابندی کے معاملے میں ایک سنگین اورنیا معیار قائم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انٹرنیٹ بند ہونے کے معاملے میں ہندوستان دنیا بھر کے جمہوری ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ 2024 میں، ملک بھر کی 16 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں حکام کی طرف سے 84 انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن  کیے گئے۔

منی پور (21 شٹ ڈاؤن)، ہریانہ (12) اور جموں و کشمیر (12) سب سے زیادہ متاثرہ علاقے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے،’84 میں سے 41 شٹ ڈاؤن کا تعلق احتجاج سے تھا اور 23 کا تعلق فرقہ وارانہ تشدد سے تھا۔’

پچھلے سال، 2023 میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے بارے میں اپنی رپورٹ میں ایکسیس ناؤ اورہیش ٹیگ کیپ اِٹ آن نے ہندوستان میں 116 شٹ ڈاؤن ریکارڈ کیے تھے۔

غزہ میں فوجی کارروائی کے ساتھ ہی  انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن بھی ہوا

سال 2024 میں اسرائیل نے غزہ میں چھ بار انٹرنیٹ بند کیا۔ اس میں 9 اکتوبر 2023 سے مسلسل بلیک آؤٹ بھی شامل ہے، جس نے 13 مقامی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کو ختم کر دیا – ان میں سے آٹھ کو کبھی بحال نہیں کیا گیا۔

یہ بلیک آؤٹ بھاری اسرائیلی فوجی کارروائی کے ساتھ میل کھاتے  ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ بھر میں لوگوں کو آف لائن ہونے کے لیے مجبور کرنا  اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی ، پناہ گاہوں اور ہسپتالوں کو فوجی نشانہ بنانا، انسانی امداد بند کرنا، اور شہریوں پر مسلسل بمباری  سمیت متعدد دستاویزی مظالم اور جنگی جرائم کے ساتھ بھی انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا معاملہ وابستہ ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

ضمانت پر باہر، گوڈسے کی تعریف و توصیف کرنے والی ملزمہ این آئی ٹی پروفیسر ڈین بنائی گئی

این آئی ٹی میں مکینیکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کی سینئر فیکلٹی شیجا انداون نے گزشتہ سال فیس بک پر گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی تعریف و توصیف کی تھی۔ اس سلسلے میں مختلف طلبہ تنظیموں کی جانب سے شہر کے کئی تھانوں میں شکایتیں درج کرائی گئی تھیں ۔ اب انہیں ڈین بنایا گیا ہے۔

پروفیسر شیجا۔ (تصویر بہ شکریہ: این آئی ٹی کی آفیشل ویب سائٹ)

پروفیسر شیجا۔ (تصویر بہ شکریہ: این آئی ٹی کی آفیشل ویب سائٹ)

نئی دہلی: کیرالہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (این آئی ٹی) کالیکٹ کی  پروفیسر شیجا انداون کو مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی تعریف کرنے والے متنازعہ سوشل میڈیا تبصرہ کے معاملے میں ضمانت پر رہا ہونے کے باوجود سینٹرل انسٹی ٹیوٹ کا ڈین (پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ) مقرر کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے انتخاب میں سنیارٹی کے ضابطہ  کو نظرانداز کیا گیا۔

ساؤتھ فرسٹ کے مطابق، این آئی ٹی میں مکینیکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کی سینئر فیکلٹی ممبر شیجا انڈاوان نے 30 جنوری 2024 کو یوم شہادت کے موقع پر فیس بک پر ایک تبصرہ پوسٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہندوستان کو بچانے کے لیے انہیں گوڈسے پر فخر ہے۔’

اس کے بعد، اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی )، ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا (ڈی وائی ایف آئی)، یوتھ کانگریس اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف ) سمیت مختلف طلبہ تنظیموں کی جانب سے شہر کے کئی پولیس اسٹیشنوں میں ان کے خلاف  شکایتیں درج کروائی گئی تھیں۔

انداوان کے خلاف مقدمہ

تمام  شکایتوں  کے بعد کنمنگلم پولیس نے تشدد کے ارادے سے اکسانے کے لیے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153 کے تحت انداون کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

واضح ہو کہ گزشتہ سال 20 فروری کو کنمنگلم عدالت سے ضمانت ملنے سے پہلےشیجا انداوان سے ان کی رہائش گاہ اور پولیس اسٹیشن میں پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

اگرچہ انہوں نے تنازعہ کے بعد اس کمنٹ کو ڈیلیٹ کر دیا تھا، لیکن اس کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے تھے۔

این آئی ٹی نے  بھی اس معاملے میں انداون کے ریمارکس کی تحقیقات کے لیے ایک پینل  تشکیل دیا تھا۔ 10 فروری 2024 کو ایک بیان میں ادارے نے پینل کے نتائج کی بنیاد پر مناسب کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

انسٹی ٹیوٹ کے عہدیداروں نے واضح کیا تھا کہ ادارہ ایسے کسی بھی تبصرے کی حمایت نہیں کرتا جو مہاتما گاندھی کے اختیار کردہ اصولوں اور اقدار کے خلاف ہو۔

‘گوڈسے مجاہد آزادی تھے’

تنازعہ کے آغاز میں انداون نے کہا تھا کہ ان کے تبصرے غلط نہیں تھے۔

انہوں نے نامہ نگاروں سے کہا تھا، ‘میرے تبصرے کا مقصد گاندھی جی کے قتل کی تعریف کرنا نہیں تھا۔ میں ایسا کبھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے گوڈسے کی کتاب ‘وہائی آئی کلڈ گاندھی’ پڑھی تھی۔ گوڈسے بھی مجاہد آزادی  تھے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘گوڈسے کی کتاب میں بہت سی معلومات اور انکشافات ہیں جن سے عام آدمی واقف نہیں ہے۔ میں نے گوڈسے کی کتاب کے پس منظر میں وکیل کی فیس بک پوسٹ پر تبصرہ کیا تھا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ لوگوں نے میرے تبصرے کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے تو میں نے اسے ہٹا دیا۔’

گزشتہ 25 سالوں سے این آئی ٹی، کالی کٹ میں فیکلٹی ممبر انداون نے کہا تھا کہ ان کے پوسٹ پر ہنگامہ آرائی کا تعلق ایک دلت طالبعلم کی معطلی سے متعلق کیمپس میں حالیہ بدامنی سے تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے ابھی تک کسی نے ان سے وضاحت نہیں مانگی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں کسی سیاسی جماعت کی  حمایتی نہیں ہوں۔ میں ایک ماہر تعلیم ہوں۔’

Next Article

مہا کمبھ میں جرائم کی کہانیاں: چوری، چھینا جھپٹی اور ڈیجیٹل فراڈ

دی وائر نے مہا کمبھ کے دوران دو پولیس اسٹیشنوں – دارا گنج اور کمبھ میلہ کوتوالی – میں درج کی گئی 315 سے زیادہ ایف آئی آر کے مطالعے میں پایا کہ زیادہ تر جرائم چوری اور چھینا جھپٹی سے متعلق ہیں۔ متاثرین میں عام عقیدت مند، سادھو، وی آئی پی، مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والے سیاح بھی شامل ہیں۔

مہا کمبھ میں چوری، چھینا جھپٹی اور دیگر جرائم (تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

مہا کمبھ میں چوری، چھینا جھپٹی اور دیگر جرائم (تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

نئی دہلی: گجرات کی سیما رانی اور ان کے خاندان نے جب مہا کمبھ کے لیے الہ آباد جانے کا فیصلہ کیا، تو انہیں امید تھی کہ سب کچھ منظم ہوگا، جیسا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے وعدہ  بھی کیا تھا۔ تاہم، دنیا کی اس سب سے بڑی مذہبی تقریب کا سفر سیما اور اس کے خاندان کے لیے ایک تلخ اور مایوس کن تجربہ ثابت ہوا۔ کیونکہ مہا کمبھ میں چند ہی منٹوں میں ان کے خاندان کو لوٹ لیا گیا۔ مقامی عہدیداروں کی بے حسی نے ان  کی دکھ میں مزید اضافہ کیا۔

اس واقعہ کے حوالے سے سیما رانی نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی، جس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

اس میں سیما نے بتایا، ‘عزت مآب وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی جی کے سیکورٹی سے متعلق تمام اشتہارات دیکھنے کے بعد ہم انتظامیہ اور ان کے انتظامات پر اعتماد کے ساتھ الہ آباد آئے تھے۔ لیکن کمبھ میں نہ تو سیکورٹی تھی اور نہ ہی انتظامات، یہاں اتر پردیش پولیس/انتظامیہ کی طرف سے خراب ردعمل ملا۔’

جام نگر کی رہنے والی سیما رانی نے بتایا کہ 14 جنوری کو صبح تقریباً 4:10 بجے کسی نے ان کے بہنوئی  کا موبائل فون اس وقت چرا لیا جب وہ سنگم میں نہا رہے تھے۔  دل کی شکل والی لاکٹ اور سونے کی چین بھی ایک خاتون نے چھین لی جس نے پیچھے سے ان کے بال کھینچے۔

سیما کے مطابق، یہ دونوں واقعات 3-5 منٹ کے اندر پیش آئے۔ ان کے خاندان کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئیں۔

سیما نےبتایا کہ انہیں پولیس کی جانب سے فوری کارروائی کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑی۔ وہ پہلے میلے میں خواتین کے پولیس اسٹیشن گئی اور انچارج افسر سے ملاقات کی، انہوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنے کی درخواست کی لیکن پولیس نے مبینہ طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ مہا کمبھ ہیلپ لائن پر کال کرنے کے بعد بھی انہیں بہت کم مدد مل سکی۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلپ لائن نمبر ڈائل کرنے کے ایک گھنٹے بعد بھی پولیس اہلکار ان تک نہیں پہنچے۔ سرکل آفیسر کی سختی کے بعد ان کی شکایت موٹے رجسٹر میں درج کر لی گئی۔

سیما نے ایف آئی آر میں بتایا کہ کمبھ میں کوئی بھی ان  کی مدد نہیں کر رہا تھا، ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ آپ کو ایسی چیزیں یہاں نہیں لانی چاہیےتھی۔ تمام پولیس والے کہہ رہے تھے کہ ہم عارضی طور پر تعینات ہیں، ہم مدد نہیں کر سکتے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کی درخواست پر دستخط کرنے اور اس پر مہر لگانے سے بھی انکار کردیا اور انہیں سائبر پولیس اسٹیشن جانے کو کہا۔ لیکن خاندان نے وہاں جانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا وہ بند تھا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ آگے کیسے جانا ہے۔

سیما کہتی ہیں،’سب آگ کے پاس بیٹھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہاں اور وہاں 4-5 گھنٹے گزارنے کے بعد، میں بغیر نہائے اور 2 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھائے مایوس واپس لوٹ آئی۔’

سیما نے اپنے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میلے کے تمام انتظامات عوام کو ‘چوروں اور لٹیرہ گروہوں کے درمیان’ لانے کے لیے کیے گئے ہیں۔ رانی نے جئے شری رام کے ساتھ اپنی شکایت ختم کرتے ہوئے کہا، ‘میں تنقید نہیں کرنا چاہتی لیکن یہ وہ حقیقت ہے جس کا میں نے سامنا کیا ہے۔’

معلوم ہو کہ 13 جنوری سے شروع ہونے والے کمبھ میلے میں ہونے والے جرائم کے 300 سے زائد واقعات میں سیما رانی کے خاندان کی ڈکیتی بھی ایک ہے۔ دی وائر نے دو پولیس اسٹیشنوں- دارا گنج اور کمبھ میلہ کوتوالی- میں درج 315 سے زیادہ ایف آئی آرز کا مطالعہ کیا اور پایا کہ درج کیے گئے زیادہ تر جرائم چوری اور چھینا جھپٹی سے متعلق  ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر واقعات میں عقیدت مندوں کے موبائل فون، نقدی، زیورات اور بیک  چھین لیے گئے۔ کچھ دو پہیہ گاڑیاں بھی چوری ہوئی ہیں۔ ڈیجیٹل مالیاتی فراڈ کے کچھ معاملات بھی سامنے آئے۔ لاپرواہی سے گاڑی چلانے، بچوں کے اغوا اور جعلی کرنسی کے استعمال سے ہونے والے نقصان کے معاملے بھی شامل تھے۔

اس سلسلے میں، اتر پردیش پولیس نے کہا ہے کہ اس نے اب تک 12 معاملات کا نوٹس لیا ہے جہاں لوگوں نے میلے، خاص طور پر بھگدڑ سے متعلق گمراہ کن اور جعلی پوسٹ، ویڈیوز اور تصاویر پھیلائی تھیں، اور 171 سوشل میڈیا پروفائل کے خلاف کارروائی کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سمیت دیگر مقامات پر پیش آنے والے حادثات اور حادثات کو غلط طریقے سے پیش کرنے اور انہیں میلے کی مبینہ بدانتظامی سے جوڑنے سے متعلق تھے۔

میلے میں خواتین کے نہانے اور کپڑے تبدیل کرنے کی فحش ویڈیوپوسٹ کرنے پر پولیس نے انسٹاگرام اکاؤنٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ گھاٹوں پر نہانے والی خواتین کی خفیہ طور پر بنائی گئی ویڈیوکو آن لائن فروخت کرنے کے لیے  19 فروری کو ایک ٹیلی گرام چینل کے خلاف  بھی مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

تاہم، میلے میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر معاملات قیمتی سامان کی چوری سے متعلق ہیں، جو کمبھ جیسی بھیڑ بھاڑ والی جگہ پر ایک بڑی تکلیف ثابت ہوئی ہے۔ یوپی حکومت کے مطابق اس سال 59 کروڑ سے زیادہ لوگ میلےمیں آئے ہیں۔

متاثرین میں عام عقیدت مند اور سادھو، مراعات یافتہ لوگ اور حکام کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کے علاوہ دیگر ریاستوں کے لوگ اور غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں۔

چوری کےکئی  متاثرین نے محسوس کیا کہ انہیں کسی منظم گروہ یا چوروں کے گروہ نے نشانہ بنایا ہے۔ سی آئی ڈی، کرناٹک کے انسپکٹر رمیش کے ٹی اپنے خاندان کے ساتھ 11 فروری کی رات بس سے میلے میں پہنچے تھے۔ اگلی صبح تقریباً 6 بجے جب وہ نہانے کے لیے سنگم گھاٹ پہنچے تو بدمعاشوں کے ایک گروپ نے بھیڑ میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔

رمیش نے بتایا کہ اس افراتفری میں کسی نے ان کی بیوی کی سونے کی چین چھیننے کی کوشش کی۔ چونکہ وہ چوکنا تھی، اس لیے وہ اسے بچانے میں کامیاب رہی۔ تاہم، افراتفری کے درمیان، انہوں نے رمیش کی سونے کی چین چھین لی، جس کا وزن 20 گرام تھا اور اس کی مالیت تقریباً 2 لاکھ روپے تھی۔

رمیش نے کہا، ‘واقعہ کے وقت میری فوری تشویش ان بدمعاشوں سے اپنی بیوی کی حفاظت کو یقینی بنانا تھی، جس کی وجہ سے انہیں میری چین چھیننے  کا موقع مل گیا’۔ کرناٹک کے پولیس انسپکٹر نے الزام لگایا کہ انہیں اس واقعہ کی اطلاع دینے کے بعد پولیس کی طرف سے فوری جواب نہیں ملا۔

تلنگانہ کی ایک اور عقیدت مند ایچ وی پوترا نے بھی 18 فروری کو میلے میں اپنی سونے کی چین گنوا دی۔ انہیں شبہ ہے کہ وہ منصوبہ بند چوری  کا شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چار خواتین نے ان  کا پیچھا کیا اور تروینی مارگ کے قریب بھیڑ میں ان  پر گر پڑیں۔ تب ہی انہیں پتہ چلا کہ ان کی 60 گرام وزنی سونے کی چین غائب ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین مشتبہ افراد میں سے دو 30 سے 35 سال کی خواتین اور تیسرا ایک نوجوان تھا۔

جرائم کی کڑی  میں 16 فروری کی صبح 6 بجے اپر سنگم علاقے میں الہ آباد کے رہائشی وشال گپتا کے خاندان کے دو موبائل فون بھی چوری کر لیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سنگم کی طرف جارہے تھے کہ اچانک کچھ لوگوں نے بھیڑ بڑھا دی۔ اس دوران گپتا کو محسوس ہوا کہ ان  کے بیگ سے دو موبائل فون غائب ہوگئے ہیں۔

گپتا نے اپنی شکایت میں کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ چوروں کا ایک گروہ ہے جو سنگم آنے والے لوگوں کے موبائل فون چوری کرنے کے لیے اس طریقے کا استعمال کر رہے ہیں۔’

اسی طرح اطالوی سیاح سیباسٹیانو بینیگیامو اہم دستاویزات سمیت اپنی تمام قیمتی اشیاء سے محروم ہو گئیں،  جب 16 فروری کو سنگم میں ڈبکی لگانے کے دوران ان کا بیگ چوری ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا دوست ان  کے سامان کی حفاظت کر رہا تھا، لیکن ایک منظم گینگ نے ان  کے دوست کی توجہ ہٹائی اور ان  کا بیگ چرا لیا۔ اس میں ان کا پاسپورٹ، فون، کریڈٹ کارڈ اور پیسے تھے۔

بینیگیامو نے کہا،’ایک قانونی پاسپورٹ کے بغیر، میں اب قانونی طور پر کسی بھی جگہ رہنےاورکسی طرح کی گاڑی لینے کے قابل نہیں ہوں، اور جب تک کہ میں اپنے سفارت خانے کے ساتھ انتظامات نہیں کر لیتی ، تب تک مجھے اپنا پاسپورٹ تبدیل کرنے کے لیے فوری طور پر ایک عارضی کاغذ کی ضرورت ہے۔’

معلوم ہو کہ کمبھ میلہ کلپواسیوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے – وہ یاتری جو ایک مہینے تک سنگم کے گھاٹوں پر خیموں میں کم سے کم وسائل کے ساتھ رہتے ہیں، مذہبی وعظ سنتے ہیں، خیرات دیتے ہیں اور سادہ کھانا کھاتے ہیں۔

سال 2013 کے مہا کمبھ میلے سے پہلے برطانیہ میں مقیم اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ کونسل کی طرف سے مالی اعانت حاصل  اور الہ آباد یونیورسٹی سمیت پانچ یونیورسٹیوں کے ماہرین کے ذریعے کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ کلپواس اپنی مدت کے بعد صحت مند اور خوش ہو کرگھر لوٹتے ہیں۔

ویشنوی کیسروانی اور ان کے خاندان کے لیے یہ سچ ہوتا اگر کسی نے میلے سے گھر لوٹنے کے دن ان  کی گاڑی کے پیچھے  سے ان  کا قیمتی سامان والا ہینڈ بیگ چوری نہ کیا ہوتا۔ کیسروانی نے میلے کے سیکٹر 6 میں کلپواسی خیمے میں بھگوت کتھا اور پرساد سیوا میں حصہ لیتے ہوئے 15 دن (31 جنوری تا 14 فروری) گزارے۔ اس کے سسرال والے ایک مقامی پجاری کے کلپواس میں مصروف تھے۔ 14 فروری کو کیسروانی کے سسرال والوں نے فیصلہ کیا کہ 34 دنوں کے کلپواس  کے بعد اب وہ اب اپنے گھر لوگڑا، الہ آباد لوٹیں  گے۔

گھر جانے سے پہلے انہوں نے گنگا میں نہانے کا ارادہ کیا۔ ٹینٹ سب وے سے مین روڈ پر پہنچنے کے بعد ان کی گاڑی میں کچھ تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی اور سڑک پر پھنس گئی۔ کیسروانی کے سسرال والے اور بہن نہانے کے لیے روانہ ہوگئے جبکہ وہ اور ان  کے شوہر وہیں ٹھہرے رہے اور گاڑی کو ٹھیک کرانے کی کوشش کی۔ ان کے سسرال والوں کے غسل سے واپس آنے کے بعد، کیسروانی اور ان کے شوہر نہانے چلے گئے۔ صبح کے تقریباً 9:30 بجے تھے۔ ان کا ہینڈ بیگ، جس میں ان  کے کاغذات، نقدی، زیورات اور ادویات موجود تھیں، کار کی پچھلی سیٹ میں رکھا ہوا تھا۔ ان کے سسر سامنے والی سیٹ پر آرام کر رہے تھے۔ کیسروانی جب صبح تقریباً 11 بجے سنگم سے واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کا ہینڈ بیگ سیٹ پر نہیں ہے۔ یہ چوری ہوگیا تھا۔

مہا کمبھ پہنچنے والے ایک عقیدت مند آر پربھاکر نے الزام لگایا کہ کشتی والا جو انہیں  نہانے کے لیے سنگم لے گیا اس نے ان  کا بیگ اور موبائل فون چرا لیا۔

گزشتہ 19 جنوری کو میلے میں آئے سدھانت سہگل کا فون پریڈ گراؤنڈ پولیس اسٹیشن کے قریب سے چوری ہوگیا۔ انہوں نے مشتبہ چور کی تفصیل بتائی۔ انہوں نے ایک لڑکے کے بارے میں بتایا، جس کی عمر غالباً 13-14 سال ہوگی، تقریباً پانچ فٹ لمبا، سیاہ رنگت، پتلا چہرہ، تیل والے بال اور پوری بازو والی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

سہگل نے کہا، ‘میں اسے نہیں پکڑ سکا کیونکہ میرے ہاتھ میں میرا بچہ تھا۔’

ایک اور شخص سنیل اگروال کو بھی اسی طرح لوٹ لیا گیا۔

جبل پور چھاؤنی کے ملٹری ہسپتال میں تعینات لیفٹیننٹ کرنل ہرلین چوپڑا کا آئی فون اس وقت چوری ہو گیا جب وہ سنگم میں اکبر کے قلعے کے قریب سڑک پر چل رہی تھیں۔ چوپڑا کو خدشہ تھا کہ ان کے فوجی پس منظر کے پیش نظر ان کے فون پر موجود اہم معلومات اور حساس دستاویزات کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔

افسر نے کہا، ‘ صرف ذاتی جذبات کی وجہ سے نہیں  بلکہ حساس سرکاری معلومات کو لیک ہونے سے روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ میرا فون مل جائے۔’

عمان کی رہائشی دیپتی واپودرا کے مسقط شناختی کاغذات سمیت قیمتی دستاویزات اس وقت گم ہو گئیں جب نہانے کے دوران  ان  کا بیگ چوری ہو گیا۔

ڈیجیٹل فراڈ بھی ہوئے

میلے کے دوران کچھ سیاح مالی اور ڈیجیٹل فراڈ کا بھی شکار ہوئے۔ ڈیوٹی پر موجود ایک کانسٹبل نتن کمار کو اس وقت 60,000 روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا جب ایک دھوکہ باز نے ان  کے بینک سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے انہیں  فون ویڈیو پر اپنی سکرین شیئر کرنے پر راضی کیا۔

سکشم اوستھی نے ہیلی کاپٹر کے سفر کی بکنگ کے لیے ایک آن لائن ویب سائٹ کو 5184 روپے ادا کیے، جو کبھی موجود ہی نہیں تھی۔ ایک سادھو، سوامی بیرانند نے اپنے آشرم کے نام پر جاری کردہ جعلی گوگل لنک کے ذریعے لوگوں کو کی جانے والی ادائیگیوں کے حوالے سے رپورٹ درج کرائی ہے۔

نیپال کے پریم بہادر پن کا موبائل چوری ہو گیا لیکن ان کے ایک دوست نے چور کو پکڑ لیا جس کے بعد ہجوم نے چور کی پٹائی کر دی۔ بعد میں  چور کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔

اسی طرح بھاگیرتھی دیوی جب نہا رہی تھیں تو ایک خاتون ان کا بیگ اور دیگر سامان لے کر بھاگ گئی۔ اس دوران بھاگیرتھی دیوی نے اپنا فون اور 24 ہزار روپے کھو دیا۔

اتراکھنڈ کی رہنے والی بھاگیرتھی دیوی نے کہا، ‘اپنی عمر اور بیماری کی وجہ سے، میں اس کا پیچھا نہیں کر سکی۔’

گزشتہ 15 جنوری کو ایک سادھو کی ملکیت والی کار کی زد میں آنے کے بعد خاتون یاتری سنیتا کو دائیں کولہے میں چوٹ لگی اوران کی  ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس کے لیے لاپرواہی سے گاڑی چلانے کے لیے ایک  نامعلوم شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

ساورکر ہتک عزت کیس: راہل گاندھی کے تاریخی شواہد پیش کرنے کی درخواست پر شکایت کنندہ کو اعتراض

مارچ 2023 میں لندن میں راہل گاندھی کی تقریر کے خلاف وی ڈی ساورکر کے ایک رشتہ دار نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ اب شکایت کنندہ نے راہل گاندھی کی جانب سے اپنے بیان کی حمایت میں تاریخی حقائق اور تفصیلی شواہد پیش کرنے کی درخواست پر اعتراض کیا ہے۔

وی ڈی ساورکر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

وی ڈی ساورکر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: ہندوتوا آئیکن وی ڈی ساورکر کو مبینہ طور پر ‘بدنام’ کرنے کے الزام میں لوک سبھا کے قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کے خلاف دائر ہتک عزت کے مقدمے میں شکایت کنندہ نے راہل گاندھی کی جانب سے اپنے بیان کی حمایت میں تاریخی حقائق اور تفصیلی شواہد پیش کرنے کی درخواست پر اعتراض کیا ہے ۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، وی ڈی ساورکر کے رشتہ دار ستیہکی اشوک ساورکر ،جو اس کیس میں شکایت کنندہ ہیں، نےمقدمے کی نوعیت کو سمری ٹرائل سے سمن ٹرائل میں تبدیل کرنے کی گاندھی کی درخواست پر اعتراض کیا ہے۔

شکایت کنندہ نے عدالت میں داخل کیے گئے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ ‘ملزم نے کچھ تاریخی حقائق کے حوالے سے مسائل اٹھائے ہیں، جو کیس کے مرکزی موضوع سے غیر متعلق ہیں۔’

اشوک ساورکر کا کہنا ہے کہ ملزم راہل گاندھی ایک بار پھر جان بوجھ کر ہندوستانی جدوجہد آزادی کے دوران ویر ساورکر کی خدمات کے بارے میں غیر متعلقہ دلائل پیش کرکے کیس کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ یہ معاملہ مارچ 2023 میں لندن میں راہل گاندھی کی تقریر سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر ایک واقعہ کے بارے میں ساورکر کی تحریروں کا حوالہ دیا تھا جہاں ساورکر نے دوسروں کے ساتھ مل کر ایک مسلمان شخص پر مبینہ طور پر حملہ کیا تھا اور اسے مبینہ طور پر ‘خوشگوار’ قرار دیا تھا۔

ستیہکی ساورکر نے 2023 میں گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ساورکر کی تحریروں میں ساورکر کے بارے میں ایسے کسی واقعہ کا ذکر نہیں ہے۔

اس ماہ کے شروع میں پونے کی عدالت نے، جہاں یہ مقدمہ زیر سماعت ہے، راہل گاندھی کو ہتک عزت کے مقدمے میں حاضری سے مستقل استثنیٰ دے دیا تھا۔

گاندھی کو اس بنیاد پر استثنیٰ دیا گیا تھا کہ ان کے وکیل نے درخواست دائر کی تھی کہ پونے میں راہل گاندھی کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ناتھو رام گوڈسے کا آبائی شہر ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ گاندھی کے والد اور دادا کو سماج کے ‘شرپسندعناصر’ نے قتل کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ سابق مرکزی وزیر ارون شوری کی ایک نئی کتاب ‘دی نیو آئیکن: ساورکر اینڈ دی فیکٹس’ میں ساورکر کے بارے میں ایسی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو ان کے پیروکاروں اور ناقدین کو حیران کر سکتی ہیں۔

شوری کی کتاب کہتی ہے کہ ساورکر گائے کی  پوجا کرنے والے نہیں تھے اور وہ گائے کا گوشت کھانے کے خلاف نہیں تھے۔ انہوں نے سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی کے بارے میں جھوٹ بولا کہ انہوں نے ہی بوس کو ہندوستان سے بھاگنے اور انڈین نیشنل آرمی بنانے کو کہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کا اعلان کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

کتاب کے مطابق، ساورکر کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا ہےکہ ‘گاندھی اور وہ 1908 میں ایک ساتھ دوست کے طور پر رہتے تھے’، دراصل گاندھی اس وقت اس شہر میں بھی نہیں تھے۔

Next Article

مہاراشٹر: ہندوستان-پاکستان کرکٹ میچ کے دوران ’ملک مخالف نعرے‘ لگانے کا الزام – والدین حراست میں، دکان توڑی گئی

سندھو درگ ضلع کے مالون میں پولیس نے بتایا کہ شکایت میں الزام لگایا گیا تھا ایک 15 سالہ لڑکے نے اتوار کو ہندوستان-پاکستان کرکٹ میچ کے دوران ‘ملک مخالف’ نعرے لگائے۔ لڑکے کو حراست میں  لیا گیا ہے اور اس کے والدین کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی کباڑ کی دکان کو مسمار کر دیا گیا ہے۔

ہندوستان-پاکستان کرکٹ میچ کے دوران ملک مخالف نعرے لگانے پر خاندان کو حراست میں لیا گیا اور ان کی کباڑ کی دکان کو منہدم کر دیا گیا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@meNeeleshNRane)

ہندوستان-پاکستان کرکٹ میچ کے دوران ملک مخالف نعرے لگانے پر خاندان کو حراست میں لیا گیا اور ان کی کباڑ کی دکان کو منہدم کر دیا گیا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@meNeeleshNRane)

نئی دہلی: مہاراشٹر کے سندھو درگ ضلع کے مالون میں حکام نے ایک 15 سالہ لڑکے کو حراست میں لیا، اس کے والدین کو گرفتار کیا اور ان کی کباڑ کی دکان کو مسمار کردیا۔

پولیس نے بتایا کہ انہیں ایک شکایت موصول ہوئی تھی  جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ لڑکے نے گزشتہ اتوار کو ہندوستان-پاکستان کرکٹ میچ کے دوران ‘ملک مخالف’ نعرے لگائے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سندھو درگ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوربھ اگروال نے کہا کہ ایک شخص، جو رات تقریباً 9.30 بجے میچ کے دوران خاندان کے گھر کے پاس سے گزر رہا تھا، نے الزام لگایا کہ اس نے لڑکے کو ‘ملک مخالف’ نعرے لگاتے ہوئے سنا۔

ایس پی کے مطابق راہگیروں اور پڑوسیوں نے اہل خانہ کے خلاف احتجاج کیا۔ اگروال نے کہا، ‘اس سے دونوں فریق  میں لڑائی ہوئی، جس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی۔ ایک مقامی باشندے کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ چونکہ لڑکا نابالغ ہے اس لیے ہم نے اسے آبزرویشن ہوم بھیج دیا ہے۔’

دی ہندو کی خبر کے مطابق، گرفتار جوڑے کی شناخت کتب اللہ خان (38)، عائشہ خان (35) اور ان کے بیٹے کے طور پر ہوئی ہے۔ اتر پردیش سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان 15 سال پہلے مالون میں آباد ہے۔

الزام ہے کہ نابالغ نے مبینہ طور پر ‘افغانستان زندہ باد’، ‘بھارت گیا بھاڑ میں’ اور ‘ہندوستان مردہ باد’ کے نعرے لگائے تھے۔

لڑکے کے والدین کو اتوار کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سے انہیں عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔ ان پر بھارتیہ نیایےسنہتا کی دفعہ 196 (مختلف گروہوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینا)، 197 (قومی یکجہتی کو  نقصان پہنچانے  والے الزام ، دعوے) اور 3 (5) (یکساں ارادے کے ساتھ متعدد افراد کی طرف سے کیے گئے کام ) کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

سوموار کو مقامی لوگوں نے خاندان کے خلاف موٹر سائیکل ریلی نکالی اور مزید کارروائی کا مطالبہ کیا۔

پولیس نے بتایا کہ مالون میونسپل کونسل نے بعد میں ان کی کباڑ کی دکان کو منہدم کر دیا — اور اس عمل میں خاندان کی ملکیت والی ایک گاڑی کو نقصان پہنچایا — اس بنیاد پر کہ دکان کی  منظوری نہیں تھی۔

ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیو سینا کے ایم ایل اے اور سابق مرکزی وزیر نارائن رانے کے بیٹے نیلیش رانے نے ایکس پر ایک پوسٹ میں الزام لگایا کہ ‘اسکریپ ڈیلر نے ہندوستان مخالف تبصرے کیے ہیں۔’

رانے نے وعدہ کیا کہ،’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آخرکار اسے ضلع بدر کر دیا جائے، فی الحال ہم نے اس کے اسکریپ کے کاروبار کو تباہ کر دیا ہے۔’

انہدامی کارروائی  کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے رانے نے مالون میونسپل کونسل اور پولیس کا ‘فوری کارروائی’ کرنے پر شکریہ ادا کیا۔