عام مغالطہ یہ ہے کہ اقتدار کے لالچ میں جارج فرنانڈیز این ڈی اے سے چپکے رہے؛ لیکن اس معاملے میں اندرا گاندھی والی کانگریس سے ان کی دائمی مخاصمت کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔
‘نیو یارک ٹائمس’کے کالم نگاروں کے برخلاف عموماً میں ٹیکسی ڈرائیورس کی باتوں پر نہیں لکھتا، نہ ہی ان سے کوئی بڑے نتائج اخذ کرتا ہوں۔ لیکن یہ کالم ذرا سا الگ ہےکہ اس میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کا ذکر ہے۔ مجھے ٹورنٹو (کناڈا) کے مضافات میں ایک دوست سے ملنے جانا تھا۔ اُسی کے لیے ٹیکسی لی تھی۔ دورانِ سفر ٹیکسی ڈرائیور نے پوچھا کہ کیا میں ہندوستانی ہوں؟ مثبت جواب ملنے پر وہ بے اختیارانہ کہنے لگا ‘جارج فرنانڈیز میرے والد ہیں!”جارج فرنانڈیز میرے والد ہیں!’
یہ ڈرائیور ایک ایرانی تھا، جو 1970 میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ہندوستان آیا تھا، لیکن اس کی دلچسپی تعلیم سے زیادہ سیاست میں تھی۔ وہ ‘فدائی گوریلا’ نامی گروپ کا فعال رکن تھا، جس کا مقصد ایران سے شہنشاہی نظام ختم کر کے اس کی جگہ سماج واد لانا تھا۔
1970 کے اواخر میں جارج فرنانڈیز مرکزی وزیر تھے اور دہلی کے لُٹینس میں واقع ان کا بنگلہ ہر قسم کے گرم مزاج انقلابیوں کی آماجگاہ تھا۔ چینی سامراج واد کی مخالفت کرنے والے تبتی طلبہ وہاں رہتے تھے تو برما کی فوجی آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے شین و کیرن بھی وہاں مل جاتے تھے۔ ٹورنٹو میں ٹیکسی چلا رہے اس فدائین کی طرح ایران کے انقلابی بھی جارج کی پناہ میں تھے۔ وہ وہاں مفت کھانا کھاتے اور پرولتاری انقلاب کے خواب دیکھتے۔
فروری 1979 میں ایران میں انقلاب آیا اور وہاں آیت اللہ خمینی بر سرِ اقتدار آ گئے۔ لیکن اس تارکِ وطن ایرانی سوشلسٹ کو رضا شاہ پہلوی سے کہیں زیادہ آیت اللہ خمینی سے نفرت تھی۔ 1979 کے اواخر میں تہران کی نئی سرکار کا ایک وفد ہندوستان آیا۔ بائیں بازو کے حمایتی ان طلبہ نے دہلی کے پالم ایئرپورٹ پر اس وفد کے خلاف مظاہرہ کر دیا۔ ویزہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں ان طلبہ کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔
جیل میں ان کا سابقہ تنگ و تاریک کوٹھری و بدمزہ کھانے سے پڑا۔ خوش قسمتی سے ان کے سوشلسٹ ساتھی اور اس وقت مرکزی وزیر جارج فرنانڈیز کو ان کی حالتِ زار کا پتہ چلا۔ تب وزیر موصوف نے جیل پہنچ کر ذاتی ضمانت پر ان کو رہا کرایا اور یہ انقلابی واپس لُٹینس بنگلے پہنچ پائے۔
1979 گزرا، 1980 آیا اور نئی دہلی میں ایک نئی سرکار لے آیا۔ جارج فرنانڈیز کی وزارت جاتی رہی، ان کا اثر و رسوخ بھی۔ تب انہوں نے اپنے ان ساتھیوں کو یہ نیک صلاح دی کہ وہ اس ملک سے جلد از جلد رختِ سفر باندھ لیں کیونکہ یہاں اب ان کی مزید حفاظت ممکن نہ ہوگی۔ تب اس ایرانی فدائین نے کناڈا کا رخ کیا، جہاں وہ اب ٹیکسی چلا رہا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ جو کچھ بھی اس نے کیا اور اب جہاں کہیں بھی وہ ہے، اس کے والد جارج فرنانڈیز ہی رہیں گے۔ نئی دہلی میں رہتے ہوئے جارج نے اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور اپنی سرپرستی میں رکھا۔ قانون کے شکنجے میں پھنس جانے پر نہ صرف اسے رہا کرایا بلکہ مقدمے و سزا سے بھی بچا لیا۔
مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے ہمیشہ موجود رہنے والے ‘فادر’ جارج فرنانڈیز ایک بار تو سچ میں فادر (کیتھولِک چرچ کے)بنتے بنتے رہ گئے۔ سنہ 1930 میں منگلور میں پیدا ہوئے، چھہ بھائیوں میں سب سے چھوٹے جارج کو نو عمری میں ان کے والدین نے بنگلور کی ایک مذہبی تعلیم گاہ میں داخل کرا دیا تھا۔ جہاں ایک سال تک لیٹِن زبان سیکھنے کے بعد وہ بھاگ نکلے اور اپنے شہر پہنچ گئے۔ یہاں وہ ہوٹل میں کام کرنے والوں کو متحد کرنے لگے۔ لیکن جلدی ہی جارج فرنانڈیز وہاں سے روانہ ہو گئے۔ ان کا اگلا پڑاو بامبے تھا۔ جہاں ان کے اولین دن پردہ اِخفاء میں ہیں کہ آیا انہوں نے فٹ پاتھ پر سائبان کے نیچے راتیں گزاریں یا نہیں، انہوں نے اُڈُپی کیفے کے مالکان سے کوکنی بولتے ہوئے کھانا مانگا یا نہیں۔
ممبئی پہنچنے کے بعد جارج فرنانڈیز جلد ہی وہاں کے معروف ٹریڈ یونین لیڈر پلیسِڈ ڈی میلو سے جُڑ گئے۔ دونوں سوشلسٹ تھے، سو وہاں ٹریڈ یونین مومنٹ پر قبضہ جمائے کمیونسٹوں سے سیدھی دشمنی ہو گئی۔ منگلور میں پلے بڑھے جارج کوکنی کے ساتھ تُلو و کنّڑ روانی سے بولتے تھے۔ زبانوں سے اپنے فطری لگاؤکے چلتے جلد ہی روانی سے مراٹھی و ہندی بھی بولنے لگے۔ اس سے محنت کش طبقے میں ان کی ساکھ جم گئی۔
مجھے اچھے سے یاد ہے کہ ملک میں پہلے عام انتخاب سنہ 1967 میں ہوئے تھے۔ اس وقت میری عمر محض آٹھ سال تھی۔ یہ وہی چناؤ تھے جن سے جارج فرنانڈیز کو ملک گیر شہرت حاصل ہو گئی تھی۔ انہوں نے کانگریس کے جغادری نیتا ایس کے پاٹل کو ہرا دیا تھا اور یہ خبر دہرادون جیسے دوردراز کے علاقے میں ہونے کے باوجود مجھ تک پہنچ گئی تھی۔ ٹھیک اسی طرح جیسے دھنباد و ڈھیکانال جیسے علاقے کے بچوں تک پہنچی ہوگی۔ پاٹل کانگریس کی نبضِ حیات تھے کہ وہ ملک کے سب سے مالدار شہر سے جُڑے تھے اور نہرو و شاستری کے بعد اندرا گاندھی کے دور میں بھی پارٹی کے لیے فنڈ اُگاتے تھے۔ پاٹل کی ہار اور جارج کی فتح کو آج کے دور میں یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسے کوئی جگنیش میوانی یا کنہیا کمار جیسا نوخیز نیتا لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کو ہرا دے۔
بطور ایک فعال اور انسان دوست نیتا بعد کے ان کے کارنامے جگ ظاہر ہیں۔ 1974 میں ریلوے میں ہڑتال کرانا، ایمرجنسی کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹ جانا؛ (جیل میں رہتے ہوئے) 1977 میں بہار کے مظفرپور سے انتخاب جیت جانا؛ جنتا سرکار میں بطور مرکزی وزیر برائے صنعت آئی بی ایم و کوکا کولا جیسے بڑے کارخانوں کو نکال باہر کرنا (حالانکہ بعد کو نادانستگی میں یا لاپرواہی کے چلتے اول الذکر نے سودیشی کمپیوٹر ہارڈ ویئر کی صنعت میں مقام پا لیا، جیسا کہ دنیش سی شرما نے اپنی کتاب ‘د لانگ ریولیوشن’ میں ذکر کیا ہے۔)؛ ایک دن اپنے وزیر اعظم مرارجی دیسائی کی تعریف کرنا اور اگلے ہی دن انہیں بس کے آگے دھکا دے دینا؛ وی پی سنگھ کی سرکار میں (جب وہ کونکن ریلوے پر خصوصی توجہ دے رہے تھے) تب بطور ریلوے منسٹر جارج فرنانڈیز کا اسے نظر انداز کرنا؛ جنتا پریوار کو توڑ کر ایک دھڑے کے ساتھ فرقہ پرست بی جے پی میں شامل ہو جانا؛ واجپائی سرکار میں بطور وزیرِ دفاع (اپنی سادہ طرزِ زندگی کی بدولت فوجی دستوں میں انہیں بہت اعتبار حاصل تھا) ان کی کارکردگی؛ سنہ 2002 میں ہوئے اقلیتوں کے قتلِ عام پر جیا جیٹلی کے ساتھ ان کا گجرات سرکار کی جانب سے شرمناک معافی نامہ؛ ان کی طول و طویل بیماری، جس کے دوران ایک ایسا شخص خاموش پڑا رہتا تھا، جس کے پاس ہمیشہ کہنے کو کچھ ہوتا تھا۔
جارج فرنانڈیز کی زندگی کا عروج ایمرجنسی کے خلاف ان کی جدوجہد کا دور تھا؛ اورزوال اڈوانی و مودی کی تفرقہ پرور سیاست کے ساتھ، مزید بدتر وشو ہندو پریشد و بجرنگ دل تک کو قبول کرلینا۔ جارج فرنانڈیز کی زندگی کے اس عروج و زوال کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عام مغالطہ یہ ہے کہ اقتدار کے لالچ میں جارج فرنانڈیز این ڈی اے سے چپکے رہے؛ لیکن اس معاملے میں اندرا گاندھی والی کانگریس سے ان کی دائمی مخاصمت کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔ ایمرجنسی لگائے جانے کے فوراً بعد بنگلور میں ٹریڈ یونین لیڈر ان کے بھائی مائیکل کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن جارج بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ اس کی وجہ بھیس بدلنے میں ان کی مہارت تھی۔ ایک بار وہ سردارجی کے بھیس میں اپنے چھوٹے بھائی، ماہر طبیعیات رچرڈ فرنانڈیز سے ملنے بنگلور گئے۔ پولیس تو ٹھیک خود رچرڈ انہیں نہیں پہچان سکے (جب تک کہ جارج فرنانڈیز نے خود نہ منہ کھولا)۔
جارج کے ہاتھ نہ آنے سے اندرا گاندھی سخت غصے میں تھیں۔ ان کی ہدایت پر کرناٹک سرکار نے جارج کے بھائی لارینس کو اٹھا لیا۔ لارینس ایک غیر سیاسی شخص تھا۔ اسے اتنی ایذائیں دی گئیں کہ وہ زندگی سے ہار گیا۔ جارج کے دوسرے دوستوں کو بھی زدوکوب کیا گیا۔ جیسے اداکارہ اِسنیہ لتا ریڈی کو جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں اسنیہ کو ایسی بیماری لگی کہ پھر وہ جانبر نہ ہو سکیں۔
سیاسی سفر کے آغاز میں جارج فرنانڈیز نے اپنے سیاسی گرو رام منوہر لوہیا کی قیادت میں کانگریس مخالف راجنیتی کا راستہ طے کیا۔ ایمرجنسی کے دوران اپنے اہلِ خانہ و دوستوں کو متواتر ستائے جانے اندرا گاندھی اور ان کی پارٹی کے تئیں جارج فرنانڈیز کے دل میں شدید نفرت پیدا کر دی۔ تب اندرا اور ان کے خاندان کو کسی بھی قیمت پر اقتدار سے بے دخل رکھنا ان کا مقصدِ حیات ہو گیا۔ بھلے اس کے لیے انہیں ایسے لوگوں کی بھی حمایت کرنا پڑے، جنہوں نے اپنے ہندو راشٹر کے نام پر مسلمانوں و عیسائیوں کا قتلِ عام کیا ہو۔
جارج فرنانڈیز اپنی طرز کے منفرد لیڈر تھے۔ ان کے جیسے نیتا اب اس سرزمین پر پیدا نہ ہوں گے۔ اپنی شناخت کی سیاست اس دور میں یہ تصور کرنا محال ہے کہ کونکنی بولنے والا، منگلور کا ایک کیتھولِک عیسائی ممبئی یا بہار سے انتخاب جیت سکتا ہے۔ یا غرور و تصنع سے مبرا ایسا ہندوستانی سیاستداں، جس کے ساتھ بس ڈرائیور یا ریلوے کا سگنل مین بھی ایک بھائی کی طرح برابری سے معاملہ کر سکتا ہے۔ جسے تبّتی اور ایرانی طلبہ اپنا والد مانتے اور اسی طرح عزت بخشتے ہوں۔ یہی ان کی خصوصیات تھیں۔ سارے انسانوں کو برابر سمجھنے والا، ہر طرح کی فرقہ بندی سے عاری شخص؛ جسے بھلا پانا بہت مشکل ہے؛ اپنی سیاست کے آخری ایام میں ناپاک اخلاقی سمجھوتے کرنے کے لیے بھی۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
The post
رام چندر گہا کا کالم: جب ٹورنٹو میں میری ملاقات جارج فرنانڈیز کے ’ایرانی بیٹے‘ سے ہوئی… appeared first on
The Wire - Urdu.