ہمیں گریش کرناڈ کو ایک عظیم ڈرامہ نگار، ایک زبردست اداکار کے ساتھ بے حد مہذب انسان کے طور پر یاد رکھنا چاہیے۔ ایک ایسا انسان جو ہندوستانی تہذیب کے بارے میں اتنا تو بھول ہی گیا تھا، جتنا آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کو یاد ہے۔
یہ بھی پڑھیں : گریش کرناڈ: 6 ہندوستانی زبانوں میں لکھنے پڑھنے والا فنکار
میری رہائش گاہ سے ان کے گھر کا فاصلہ کوئی ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ جتنا ہے۔ ان کی مصروفیات دیکھتے ہوئے ملنے کے لیے میں عموماً کئی دن پہلے ان سے بذریعے ای میل ملاقات طے کر لیتا تھا۔ لیکن اس دفعہ بات دوسری تھی۔ میں جے پی نگر واقع ان کے گھر پہنچا۔ باہر گارڈ نما ایک شخص موجود تھا اور ایک کرسی پر ادیب موصوف نیند لے رہے تھے۔ جیسے ہی میری کار نے وہاں کی خاموشی میں خلل ڈالا، ان کی آنکھ کھل گئی اور وہ مجھے اندر لے گئے۔ میں ان سے آدھا گھنٹہ بات کرنے کے ارادے سے آیا تھا، لیکن وہاں چار گھنٹے ہو گئے۔ ہم نے گوری لنکیش کی باتیں تو کیں ہی، ساتھ ہی دوسرے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ہماری اپنی زندگی کےبارے میں بھی باتیں ہوئیں۔ میں نے گریش کو دھارواڑ میں گزارے ان کی زندگی کے ابتدائی ایام کی باتیں کرتے پایا، تو انہوں نے مجھے اپنی نو عمری کے دہرہ دون والے دنوں کو یاد کرتے سنا۔ ہم دونوں چھوٹے قصبوں سے بڑے شہروں کو منتقل ہوئے تھے؛ وہ ممبئی پہنچے اور میں دہلی۔ اب ہم بنگلور میں تھے۔ ایک انجان شہر جسے ہم نے پہلے پہچانا، اور اب جس میں سکونت پذیر ہیں۔ ہم نے اپنے بھائی بہن کی بات کی۔ ان کے موسیقار بھائی کے بارے میں، میری ڈاکٹر بہن کے بارے میں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی باتیں، جو ادبی و دانشورانہ گفتگو کے دوران کبھی نہ ہو پاتیں۔ شام گھرنے لگی تو میں چلنے کو ہوا۔ گریش باہر میری کار تک چھوڑنے آئے۔ اس وقت سکیورٹی گارڈ کہیں نظر نہیں آیا۔ گریش نے میرا شکریہ ادا کیا جو میں اس طرح بے تکلفی سے ان کے وہاں پہنچ گیا۔ اس سے انہیں اور ان کی شریک حیات ڈاکٹر سارہ دونوں کو بہت خوشی ہوئی۔ میں نے کہا: ‘مجھے لگتا ہے کہ اس ملاقات کا محرک ایک ساتھی ادیب کا قتل ہے، جس نے اسی شہر میں رہنے والے دو ادیبوں کو یکجا کر دیا۔’ پچھلے کچھ وقت سے کرناڈ سانس کی بیماری میں مبتلا تھے۔ بیتے جنوری کو وہ دھارواڑ گئے۔ انہیں اس کا احساس تھا کہ جس شہر میں وہ پلے بڑھے، تعلیم حاصل کی اور اپنا پہلا ناٹک لکھا، اس شہر کا ان کا یہ آخری دورہ ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اس سفر میں ان کے ساتھ ضرور چلنا ہے۔ میں گیا۔ حالانکہ ایسا کم ہوتا ہے، لیکن دھارواڑ کے سبھاش روڈ پر واقع لکشمی بلڈنگ میں ان کے دیرینہ پبلشرس منوہر گرنتھ مالا کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں بہت غمگین تھا کہ کرناڈ اپنے آبائی مسکن کا آخری سفر کر رہے ہیں۔ کرناڈ کا سماجی شعور بہت بالیدہ تھا اور وہ وطن کی محبت سے سرشار تھے، لیکن انہوں نے کبھی اپنی حب الوطنی اور سماجی خدمات کی نمائش نہیں کی۔ ان کی سچائی اور دیانت داری اس کی اجازت ہی نہیں دیتی تھی۔ انہوں نے یہ ہدایات دے رکھی تھیں کہ ان کی آخری رسومات سرکاری طور پر ادا نہ کی جائیں۔ وہ جانتے تھے کہ کئی سیاستداں اس موقع پر آنا چاہتے تھے۔ وہ ان کے جسد خاکی کو گھیر کر کھڑے ہو جاتے اور فوٹو کھنچواتے۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنے عہد کے ایک عظیم کنڑ ادیب بلکہ عظیم تر کناڈگا (کنڑ ادب و تہذیب کی گہری سمجھ رکھنے والا) سے قربت کا دکھاوا کر کے اپنے گناہ دھونے کی ناپاک کوشش کرتے۔ اور ابھی بھی موقع پرستوں و انتہا پسندوں سے لوہا لیتے ہوئے کرناڈ کو ایک ‘ایکٹیوسٹ’ یا ‘عوامی دانشور’ کی شکل میں دیکھنا ان کے کردار کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنا یا ان کا قد کم کر کے دیکھنا ہے۔ ہمیں انہیں ایک عظیم ڈرامہ نگار، ایک زبردست اداکار کے ساتھ بے حد مہذب انسان کے طور پر یاد رکھنا چاہیے۔ ایک ایسا انسان جو ہندوستانی تہذیب کے بارے میں اتنا تو بھول ہی گیا تھا، جتنا آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کو یاد ہے۔ (انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)