اس میں کوئی شک نہیں کہ ایودھیا میں رام کے بلند و بالا مندر کی تعمیر کو مہاتما ہندوؤں اور ہندوازم کی توانائی افسوسناک طریقے سے برباد کیے جانے کی طرح دیکھتے۔
سنہ 1932 میں ویریئر ایلوِن (Verrier Elwin)نام کے ایک نوجوان پادری کو اس کے چرچ سے بے دخل کر دیا گیا۔ آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ایلوِن گونڈ آدیواسیوں کے بیچ تعلیم و صحت کا کام کر رہا تھا۔ اس نے اپنا گھر بھی مرکزی ہند میں آباد ان گونڈ آدیواسیوں کے علاقے میں بنا لیا تھا۔ وہ ان قبائلیوں کے مذہبی عقائد کا بہت احترام کرتا تھا، سو خدمت کے کام کے ساتھ اِن قبائلیوں میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کے بشپ نے نوجوان پادری ویریئر ایلون کو برطرف کر دیا۔
ایلوِن مہاتما گاندھی کو نہ صرف جانتا تھا بلکہ ان کا معتقد بھی تھا۔ اس نے گاندھی کو چرچ سے بے دخل کر دیے جانے کا پورا واقعہ لکھ بھیجا۔ اس پر گاندھی جی نے جواب میں اسے لکھا:’پوری زمین تمہاری خطبہ گاہ ہے اور یہ نیلا آسمان تمہارے اپنے چرچ کی چھت ہے۔’ ساتھ ہی گاندھی جی نے ایلوِن کو دلاسہ دیتے ہوئے حضرت عیسیٰ کا یہ پیغام بھی یاد دلایا کہ ‘چاہے وہ رومن ہوں یا انگلش، اہم شخصیات کو چرچ نے ہمیشہ رد کیا ہے۔’
کسی عیسائی یا کسی اور مذہب کے ماننے والے مرد، عورت کو اپنی عبادات کے لیے کسی بڑی یا خوبصورت عمارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گاندھی جی خود کو آستھاوان ہندو کہتے تھے۔ وہ برسوں احمدآباد میں رہے لیکن اپنا ہندوازم دکھانے کے لیے انہیں شہر کے کسی مندر میں جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ تو اپنی کٹیا کے سامنے سابرمتی ندی کی جانب رخ کر کے پوجا کر لیا کرتے تھے۔ جب وہ سیواگرام چلے گئے تب بھی کھلی جگہ میں پوجا کرتے تھے۔
گاندھی جی کا ہندوازم فرقہ پرستانہ ہونے کے بجائے اتحاد و یگانگت والا تھا۔ وہ دوسرے مذاہب کا احترام کرتے تھے اور تا عمر انہوں نے مذاہب کے بیچ اتفاق قائم رکھنے کی مہم چلائی۔ حالانکہ ان کی زبان سے نکلے آخری الفاظ ‘ہے رام’ تھے۔ رام ہندوؤں کے بھگوان ہیں۔ رام گاندھی جی کے بھی آدرش تھے، تبھی ایک مثالی معاشرے کا تصور پیش کرنے کے لیے وہ ‘رام راجیہ’ کی بات کرتے تھے۔ مذہبی رجحان رکھنے والے اپنے دوستوں کے ساتھ خط و کتابت میں گاندھی جی رام نام کا جاپ کرنے کے فوائد بتاتے تھے کہ اس نام کا جاپ کرنے سے روحانیت کے ساتھ دل میں دوسروں کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مہاتما گاندھی کے پرسنل سکریٹری وی کلیانم کی زبانی’گاندھی جی کا آ خری دن‘
گاندھی جی کا ہندوازم کئی شکلوں میں، کئی مقامات پر نظر آتا ہے لیکن مندروں میں کبھی نہیں۔ ان کے عقیدے کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ مشہور مقدس مقامات پر جانے کے ان کے تجربات اچھے نہیں رہے۔ 1902 میں پہلی بار وارانسی جانے پر گاندھی جی کاشی وشوناتھ مندر پہنچے، جہاں ان کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ ان کے مطابق ‘مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے بیچ دکانداروں اور عقیدت مندوں کا شور ناقابلِ برداشت تھا۔ مراقبے و ریاضت کے لیے وہاں سازگار ماحول بالکل نہیں تھا۔’باپو یاد کرتے ہیں کہ پورے مندر میں وہ ‘بھگوان کو کھوجتے رہے، جو وہاں نہیں تھا۔’
1916 میں ہندوستان لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ کاشی وشوناتھ مندر گئے، یہ دیکھنے کے لیے کہ وہاں پہلے کی ہی طرح گندگی اور انحطاط چھایا ہوا ہے۔ وارانسی میں اسی طرح کا ماحول دیکھنے کے بعد ان کا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ ہندوؤں کے بھگوان کم از کم اُن بڑے بڑے مندروں میں تو نہیں بستے ہیں، جو اس کے نام پر کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد اگلی تین دہائیوں تک گاندھی ریل سے یا پیدل پورا ملک گھومتے رہے۔ اس دوران وہ ہر اس شہر میں گئے جہاں بڑے بڑے و تاریخی ہندو مندر تھے، لیکن ایک موقع کو چھوڑ کر (اس کا ذکر آگے) کبھی وہ کسی مندر میں نہیں گئے۔
مندر جا کر عبادت کرنے میں گاندھی کی عدم دلچسپی کی دو وجوہات ہیں۔ پہلا ان کا یہ عقیدہ کہ بھگوان انسان کے دل میں رہتا ہے؛ عبادتوں، رسم و رواج، مذہبی یاتراؤں یا مجالس میں نہیں۔ اُس پر اعتقاد یا اس سے محبت کسی انسان کا خصوصی وصف ہوتا ہے۔ دوسرا انہوں نے یہ پایا کہ ہندو منادر میں صنفی و مذہبی مساوات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ خواتین کے ساتھ زبردست بھید بھاو والا اور دلتوں کے ساتھ معاندانہ تھا۔
بعد میں وارانسی کئی بار جانے کے باوجود گاندھی کاشی وشوناتھ مندر کبھی نہیں گئے۔ وہ پوری بھی گئے لیکن جگن ناتھ مندر جانے سے منع کر دیا۔ تنجاوُر میں انہوں نے وقت گزارا مگر برِہیسواڑہ مندر میں پوجا کرنے سے گریز کیا۔ لیکن 1946 میں (بیس سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد)مدورائی کے میناکشی مندر میں جب دلتوں کو داخلے کی اجازت دی گئی، تب گاندھی اس مندر میں گئے۔ یہ داخلہ ہندو قدامت پسندی پر چوٹ پہنچانے والے اس عمل کو ایک طرح سے ان کی حمایت تھی۔
1921 میں گاندھی نے پہلی اور آخری بار ایودھیا کا سفر کیا، لیکن اس قصبے میں موجود متعدد منادر میں سے کسی میں بھی وہ نہیں گئے۔ البتہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ‘تشدد کی بہت سخت و واضح مذمت کی اور کہا کہ وہ اسے بھگوان اور انسان کے خلاف گناہ مانتے ہیں۔’ دہائیوں بعد شمالی و مغربی ہند میں اُس بھگوان کے نام پر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایودھیا میں پیدا ہوا، زبردست مارکاٹ مچائی جاتی ہے۔
گاندھی کے سوانح نگار، ان کا راست مطالعہ کرنے والا اور اس ملک کا ایسا باشندہ ہونے کی حیثیت سے، جس نے وہ ہنسا دیکھی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ رام کے نام پر 1980 و 1990 میں پھیلائی گئی نفرت اور سازشوں کو دیکھ مہاتما گاندھی بھی خوفزدہ ہوتے۔ میں وہ شرم و ندامت محسوس کر سکتا ہوں، جو ان نفرت انگیز واقعات کی وجہ سے ہندوؤں، ہندوازم اور ہندوستان کو جھیلنا پڑی تھی۔ کیا ہم ان واقعات کو، اس وقت کو پھر سے دوہرانا چاہتے ہیں؟
ایودھیا میں رام کا ایک عظیم الشان مندر بنانے کے اس تفرقہ پرور پروجیکٹ کی بابت 90 کی دہائی سے اب تک کئی متبادل سُجھائے جا چکے ہیں۔ ان میں اسپتال بنانے سے لے کر وہاں ایک یونیورسٹی بنانے کی تجویز تک شامل ہے۔ کوئی ایسی عمارت جس میں بلا امتیازِ مذہب و ملت ہر قوم کے فرد کی خدمت انجام دی جائے۔ مہاتما کے پوتے و فلاسفر رام چندر گاندھی نے وہاں ‘رام رحیم چبوترہ’ بنانے کا مشورہ دیا ہے، جس سے ‘دنیا کے ازلی بین المذاہب اتفاق کا اعلان کیا جا سکے۔’
کہا نہیں جا سکتا کہ ان میں سے کون سا پرپوزل گاندھی کے افکار و خیالات سے میل کھاتا۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ بھی ہو گاندھی محض آستھا کی بنیاد پر یا قومی اور سماجی افتخار کے لیے ایک بھاری بھرکم عمارت بنانے کے خلاف ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایودھیا میں رام کے بلند و بالا مندر کی تعمیر کو مہاتما ہندوؤں اور ہندازم کی توانائی افسوسناک طریقے سے برباد کیے جانے کی طرح دیکھتے۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
The post رام چندر گہا کا کالم: مہاتما گاندھی ایودھیا معاملے کا کیا حل چاہتے تھے؟ appeared first on The Wire - Urdu.