لوک سبھا چناؤکے بعد مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کو ‘متحد’ کرنے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک نئی اور متحدہ پارٹی کے لیے ایک نئے نام کی ضرورت ہوگی۔ میرا مشورہ ہے کہ اس نئی پارٹی کے نام میں سے ‘کمیونسٹ’ کا لفظ ہٹا دیا جائے۔ اس کے بجائے اسے ‘ڈیموکریٹک سوشلسٹ’ سے منسوب کیا جائے۔ یہ لیفٹ کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
گزشتہ ماہ مئی کے تیسرے ہفتے میں راقم کیرل میں تھا۔ چند دن بعد ہی لوک سبھا چناؤ کے نتائج آنے والے تھے؛ مگر صاف نظر آ رہا تھا کہ آزادی کے بعد پہلی بار کمیونسٹ لوک سبھا میں انگلیوں پر گنی جانے والی تعداد تک سمٹ جانے والے ہیں۔ قومی سطح پر ڈوب رہے اس سورج کی شام دیکھنے کو میں اس صوبے میں موجود تھا، جہاں اس کا پرچم عرصہ دراز تک لہراتا رہا ہے۔
کیرل شاستر ساہتیہ پریشد کے سالانہ جلسے سے خطاب کرنے کے لیے کیرل میں میری آمد ہوئی تھی۔ اساتذہ اور سماجی کارکنان کے ایک گروپ نے 1960 کے اوائل میں کے ایس ایس پی قائم کی۔ اس کا سلوگن ہے ‘سماجی انقلاب کے لیے سائنس’۔ سائنس سے متعلق ادب عوام الناس تک پہنچانے نیز سماجی مسائل حل کرنے کے لیے منطقی شواہد پر مبنی سوچ کی نشر و اشاعت میں کے ایس ایس پی نے اہم کردار ادا کیا۔ ماحولیات اور عوام الناس کی صحت سے متعلقہ معاملات میں بھی گہری دلچسپی رکھنے والی اس تنظیم کے ذریعے اب تک سیکڑوں کتابیں اور اشتہار شائع کیے جا چکے ہیں۔ ان بے لوث خدمت گزاروں کے کام کاج سے راقم کا عرصہ دراز سے سابقہ رہا ہے اور بجا طور میں ان کے کام کا معترف ہوں۔
میں نے بنگلور سے ترواننت پورم کے لیے فلائٹ لی، جہاں کے ایس ایس پی کے تین کارکنان سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں سے دو یونیورسٹی میں طبیعات و معاشیات کے اساتذہ تھے۔ تیسرے صاحب صوبے کے محکمہ برقیات سے وابستہ تھے۔ تینوں کی عوام الناس سے متعلقہ معاملات نیز سماجی انصاف میں گہری دلچسپی تھی۔ کیرل کے اساتذہ اور ملازمین میں ایسے جذبات عام ہیں، جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں ان کا واضح فقدان نظر آتا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد پتھنم تھٹا میں کیا گیا تھا، جہاں تک ہم سڑک کے راستےسے پہنچے۔ دوران سفر ہم سڑک کنارے موجود انڈین کافی ہاؤس میں کچھ دیر کے لیے رکے بھی۔ ایسے تمام کافی ہاوسز کی طرح یہاں بھی جغادری کمیونسٹ لیڈر اے کے گوپالن کی تصویر ایک اونچے مقام پر آویزاں تھی۔
کے ایس ایس پی اپنے سالانہ جلسے کا انعقاد ہر سال کیرل کے 14 اضلاع میں سے کسی ایک ضلع میں کرتی ہے۔ اس بار کانفرنس کے انعقاد ذمہ داری پتھنم تھٹا کی ضلعی شاخ کے پاس تھی۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کے نام سے معنون ایک اسکول میں منعقدہ اس کانفرنس میں پورے کیرل سے کوئی ایک ہزار مندوبین کی شرکت کا اندازہ تھا۔ ایک مشترکہ ڈائننگ ہال میں ہم سب نے اکٹھے کھانا کھایا پھر اپنی پلیٹیں بھی خود ہی دھوئیں۔
کے ایس ایس پی کا کسی سیاسی پارٹی سے سیدھا تعلق نہیں ہے۔ بلکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی صوبائی اکائی سے تو کبھی کبھی اس کے تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ 1980 میں سائلنٹ ویلی تنازعہ کا نام ایسی معرکہ آرائی میں سر فہرست ہے۔ تنظیم کے کئی ممبران شاید کانگریس کو ووٹ دیتے ہوں (شاید کچھ یا کوئی ایک بی جے پی کو بھی)۔ کہنا نہ ہوگا کہ تنظیم کے قیام سے لے کر اسے بلندیوں تک پہنچانے میں کیرل کے بائیں بازو آندولن کا بڑا حصہ رہا۔ اس میں انسانی مساوات اور جذبہ اشتراکیت ان لوگوں کے بیچ بالکل واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
کے ایس ایس پی جیسی تنظیم ملک کے کسی دوسرے حصے میں قطعی نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ بنگال میں بھی نہیں، جہاں کمیونسٹ لمبے وقت تک بر سر اقتدار رہے۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ بنگالی مارکسزم بہت حد تک ‘بھدر لوک’ یعنی اعلیٰ طبقے کا محاورہ رہا۔ یہ ادب اور ذہنوں میں جاگزیں رہا، جبکی ملیالی مارکسزم عملی اور زمین سے جڑا ہوا رہا۔
2019 میں آئے انتخابی نتائج دیکھتے ہوئے ہندوستان میں کمیونسٹ موومنٹ کے اس زوال کی بات کریں، تو 2004 میں اسے عروج حاصل تھا۔ تب کمیونسٹ پارٹیز کو لوک سبھا میں 60 سے زیادہ سیٹیں حاصل تھیں۔ بنگالی اس پر اظہار تاسف کرتے ہیں کہ 1996 میں جیوتی بسو وزیر اعظم نہ بن سکے۔ اس کے باوجود 2004 میں ایک بڑی غلطی پھر کر دی گئی، جب منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکار میں شامل ہونے سے سی پی آئی (ایم) اور سی پی آئی نے انکار کر دیا۔ 1996-98 کے دور کی یونائیٹیڈ فرنٹ سرکار تو اقلیتی سرکار تھی اور اگر جیوتی بسو اس کی قیادت کرتے تو بھی اسے چند سالوں میں گر ہی جانا تھا۔ دوسری طرف منموہن کی یو پی اے سرکار نے دو مدت کار پوری کیں۔ اگر کمیونسٹ اس سرکار میں شامل ہوکر تعلیم، صحت اور دیہی ترقیات جیسی وزارتیں لے لیتے اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے تو پارٹی کی موجودگی لوگوں کے درمیان ہوتی اور پورے ملک میں اس کا اثر نظر آنے لگتا۔ افسوسناک ہے کہ سی پی آئی (ایم) اس کٹر لینن وادی اصول سے بندھی رہی کہ ایک ‘بورژوا سرکار’ میں حصے داری نہیں کرنی ہے۔
قومی سطح پر ہم دیکھیں تو 2004 کے عروج کے بعد پارلیامانی کمیونسٹس اب رو بہ زوال ہیں۔ اس دوران تریپورہ اور مغربی بنگال میں بھی ان کی سرکاریں جا چکی ہیں۔ دیگر ریاستوں میں ان کی سرکار آئےگی، اس کے امکانات بھی کم ہی ہیں۔ کیرل میں کانگریس یا بائیں بازو کی سرکاریں آتی جاتی رہی ہیں، اس لیے اگلے ودھان سبھا چناؤ میں ممکن ہے کمیونسٹ وہاں خود کو حزب اختلاف کی صفوں میں پائیں۔
آج کے ہندوستان میں کچھ معروف ادیب و فنکار خود کو بائیں بازو کے اشتراکی خیالات سے متاثر پاتے ہیں۔ انہیں کی طرح کچھ مستند اسکالرس کا رجحان بھی اسی جانب ہے۔ لیکن سیاسی میدان یا عوامی زندگی میں ہندوستانی بایاں محاذ اتنی بری حالت میں کبھی نہیں رہا۔ کیا اس صورتحال میں تبدیلی ممکن ہے؟ یہ سیاسی تنزل کبھی عروج میں بدل سکتا ہے؟
اس لوک سبھا چناؤ میں بائیں محاذ کے اس تنزل پر لکھتے وقت یہ سوچنا محال ہے کہ اس محاذ کو وہ مقام کبھی حاصل ہو پائےگا، جس پر کبھی یہ متمکن تھا۔ لیکن تاریخ عجیب و غریب اور غیر متوقع انداز میں برتاؤ کرتی ہے۔ یہ تصور کون کر سکتا تھا کہ بالکلیہ پونجی وادی ممالک میں سماجواد کی بازگشت سنائی دینے لگے گی؛ یہاں تک کہ امریکہ میں بھی۔ ہندوستان کی سرزمین تو سماجی سطح پر عدم مساوات سے خاصی متاثر رہی ہے۔ عملی طور پر نہ سہی نظریاتی طور پر تو یہاں بائیں بازو کے خیالات کی جگہ ہمیشہ بنی رہے گی۔
بائیں بازو کی پارٹیوں کو اگر ہندوستان میں دوبارہ اٹھ کھڑے ہونا ہے تو سب سے پہلے انہیں جو کام کرنا ہے وہ یہ کہ انہیں اور زیادہ ہندوستانی ہونا پڑےگا۔ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قیام سے کچھ ہی پہلے 1920 میں، ممبئی کے مارکسوادی مفکر ایس اے ڈانگے نے لینن کو گاندھی پر فوقیت دیتے ہوئے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا۔ ہندوستان کے کمیونسٹ تب سے ہی ممالک غیر میں اپنے ہیروز تلاش کرتے رہے ہیں۔ جرمنی کے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلس، روس کے وی آئی لینن اور جوزف اسٹالن، چین کے ماو زیدانگ، ویتنام کے ہو چی منہہ، کیوبا کے فیدیل کاسترو اور وینیزویلا کے ہیوگو شاویز کی مدح سرائی میں یہ لوگ مصروف رہے۔
ان غیر ملکی مفکرین کے ساتھ یہ دقت نہیں ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ مطلق العنان حکومت کے پیروکار ہیں۔ وہ ایک پارٹی کی ہی سرکار کے حامی ہیں، جو ان کے لوگوں کی ہو۔ لینن اور ماو جیسے مفکرین کو ہندوستان یا ہندوستانی معاشرے کی کوئی سمجھ نہیں تھی؛ نہ ہی ان کے یہاں مختلف پارٹیوں پر مبنی ڈیموکریسی کا کوئی تصور تھا۔ ہمارے یہاں کے گاندھی اور امبیڈکر جیسے مفکرین کی قیمت پر ان غیر ملکی دانشوران کی ثنا خوانی کر کے کمیونسٹوں نے خود کو ہندوستان کے زمینی حقائق سے دور کر لیا۔
ہمارے نوجوان قارئین شاید نہ جانتے ہوں کہ 1920 میں کمیونزم کے طلوع کے ساتھ ہی ملک میں ایک سوشلسٹ لہر بھی راہ پا رہی تھی۔ کملا دیوی چٹوپادھیائے، رام منوہر لوہیا اور جے پرکاش نارائن اس کی مثال تھے۔ ہندوستانی سماج کی ان کی سمجھ اپنے کمیونسٹ ہم عصروں سے کہیں زیادہ بالیدہ اور مبنی بر حقائق تھی۔ صنفی مساوات پر کملا دیوی چٹوپادھیایے، طبقاتی نظام پر لوہیا اور سیاسی غیر مرکزیت پر جے پی کے خیالات ایس اے ڈانگے اور ای ایم ایس نمبودری پاد سے زیادہ گہرے اور حقیقت سے قریب تھے۔ ایسا اس لیے تھا کہ ان سوشلسٹ مفکرین کے خیالات ملک کے زمینی حقائق سے زیادہ قریب تھے، جبکہ کمیونسٹ مفکرین لینن اور اسٹالن کے مقررہ اصولوں کے تحت بات کر رہے تھے۔
کیا ہندوستانی سماجوادیوں سے سیکھنے میں ہندوستانی کمیونسٹوں نے بہت دیر کر دی ہے؟ ان سماجوادیوں کی ہی طرح وہ اپنے آپ کو ‘ہندیا’ سکتے ہیں اور چاہیں تو ‘سماجوادی’ کا لیبل بھی خود پر چسپاں کر سکتے ہیں۔ 21ویں صدی کے اذہان میں لفظ ‘کمیونسٹ’ جور و استبداد نیز مطلق العنان آمرانہ حکومت کے متبادل کی شکل میں اپنی جڑیں جما چکا ہے۔ دوسری طرف لفظ ‘سماجوادی’ زیادہ پرکشش اور مؤثر لگتا ہے۔یہ سچ ہے کہ اس وقت اتر پردیش کے ایک یادو خاندان نے اسے من مانے انداز میں پیش کر کے اس پر سیاسی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ لیکن اس لفظ کی حرمت دوبارہ قائم کی جا سکتی ہے اور اس سمت میں کام کر کے اسے پھر سے قابل اعتبار بنایا جا سکتا ہے۔
لوک سبھا چناؤکے بعد مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کو ‘متحد’ کرنے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک نئی اور متحدہ پارٹی کے لیے ایک نئے نام کی ضرورت ہوگی۔ میرا مشورہ ہے کہ اس نئی پارٹی کے نام میں سے ‘کمیونسٹ’ کا لفظ ہٹا دیا جائے۔ اس کے بجائے اسے ‘ڈیموکریٹک سوشلسٹ’ سے منسوب کیا جائے۔ یہ لیفٹ کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کی جانب پہلا قدم ہوگا؛ جہاں اب اس کا صرف ماضی ہی بچا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)