رام مندر کے افتتاح سے قبل مختلف ریاستوں میں جھڑپیں، مدھیہ پردیش میں چرچ پر بھگوا جھنڈا لگایا گیا

ایودھیا میں رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب سے قبل مہاراشٹر، گجرات اور مدھیہ پردیش سے فرقہ وارانہ تصادم کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ مہاراشٹر کے میرا بھایندر-وسئی ورار علاقے میں ایک مذہبی جلوس کے دوران مختلف گروہوں کے درمیان کچھ جھڑپیں ہوئیں۔ گجرات کے مہسانہ ضلع میں مذہبی جلوس نکالنے کے دوران پتھراؤ کی اطلاع ہے۔

ایودھیا میں رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب سے قبل مہاراشٹر، گجرات اور مدھیہ پردیش سے فرقہ وارانہ تصادم کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ مہاراشٹر کے میرا بھایندر-وسئی ورار علاقے میں ایک مذہبی جلوس کے دوران مختلف گروہوں کے درمیان کچھ جھڑپیں ہوئیں۔ گجرات کے مہسانہ ضلع میں مذہبی جلوس نکالنے کے دوران پتھراؤ کی اطلاع ہے۔

مدھیہ پردیش کے جھابوآ میں ایک چرچ پر بھگوا لہرائے جانے کی تصویر۔ (تصویر: اسکرین شاٹ)

مدھیہ پردیش کے جھابوآ میں ایک چرچ پر بھگوا لہرائے جانے کی تصویر۔ (تصویر: اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: 9 دسمبر 1992 کی طرح ہی 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے عین قبل ہندوستان کے مختلف حصوں میں کئی منصوبہ بند حملے اور ‘جھڑپیں’ دیکھی گئیں۔ 22 جنوری کے موقع پر ایک بے قابو ہجوم نے ایودھیا میں رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب کا جشن مناتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا کر افراتفری اور تشدد پھیلایا۔

مدھیہ پردیش

اسی طرح کا واقعہ مدھیہ پردیش کے جھابوآ میں بھی دیکھنے میں آیا۔ اسکرول کی رپورٹ کے مطابق، ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگاتے ہوئے لوگوں کا ایک گروپ چرچ کے اوپر چڑھ گیا اور بھگوا جھنڈا لگا دیا۔ یہ چرچ جھابوآ ضلع کے رانا پور کے دبتلائی گاؤں میں ہے۔

ایک وائرل ویڈیو میں لوگوں کو عمارت پر چڑھتے ہوئے اور عیسائیت کی علامت صلیب پر ایک جھنڈا لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بھگوا جھنڈے پر ایودھیا کے رام مندر کی تصویر اور ’جئے شری رام‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ واقعہ ‘پران پرتشٹھا’ کی تقریب سے ایک دن پہلے 21 جنوری کو پیش آیا۔

چرچ کے پادری نربو املیار نے بتایا کہ اتوار کی پرے ختم ہونے کے فوراً بعد لوگوں کا ایک ہجوم نعرے لگاتا ہوا وہاں پہنچا۔ انہوں نے دی کوئنٹ کو بتایا، ‘یہ سہ پہر 3 بجے کے قریب ہوا، جب ہم نے اتوار کی پرے مکمل کی تھی۔ یہ لوگ کہیں سے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے آگئے۔ وہاں کم از کم 25 آدمی تھے اور ان میں سے کچھ جھنڈوں کے ساتھ چرچ کے اوپر چڑھ گئے۔’

املیار نے کہا کہ وہ  ان لوگوں کو پہچانتے تھے، کیونکہ وہ پڑوسی گاؤں کے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے انہیں پہچان لیا۔ مجھے ان میں سے کچھ کے نام بھی معلوم ہیں۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔’

دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے جھابوآ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اگم جین نے کہا کہ ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔

ایس پی نے کہا، ‘ہماری ٹیم نے اتوار کی شام جائے واردات کا دورہ کیا تھا۔ ہم نے تفتیش کی کہ کیا ہوا۔ ایک آدمی کا گھر تھا، جسے وہ پرے کے لیے استعمال کرتا تھا، یہ کوئی چرچ نہیں تھا۔ لہذا، ہم نے از خود نوٹس لیا اور ایف آئی آر درج نہیں کی۔ وہ شخص شکایت درج نہیں کرانا چاہتا تھا، اس لیے ابھی تک کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے۔’

تاہم، املیار نے اس بات سے انکار کیا کہ یہ ان کا گھر ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ ایک چرچ ہے، جسے میں نے 2016 میں شروع کیا تھا۔ ہر اتوار کو یہاں 30-40 لوگ پرے کے لیے آتے ہیں۔ یہ پرے کی جگہ  ہے۔ میرا گھر الگ ہے۔’

املیار نے مزید کہا، ‘بعد میں انہوں نے مجھے معافی مانگنے کے لیے بلایا۔ اس لیے میں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ مجھے ایف آئی آر درج کرنی چاہیے یا نہیں۔ میں اپنے گاؤں کے سرپنچ سے بات کروں گا اور اس پر فیصلہ کروں گا۔’

مہاراشٹر

سب رنگ ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں کئی دیگر رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مہاراشٹر کے میرا بھایندر-وسئی ورار علاقے میں نیا نگر میں نکالے جارہے ایک مذہبی جلوس کے دوران مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے درمیان کچھ جھڑپیں ہوئیں۔

یہ واقعہ 21 جنوری کو صبح 10:30 بجے کے قریب پیش آیا۔ پولیس کی بروقت مداخلت کی وجہ سے دونوں گروپوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کا امکان رکھنے والی ایک چھوٹی جھڑپ بڑی صورت اختیار کرنے سے پہلے ہی ناکام بنا دی گئی۔ یہ تصادم مبینہ طور پر ایک مذہبی ادارے کے قریب نعرے بازی کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔

سوشل سائٹ ‘ایکس’ پر ‘ہیٹ ڈیٹیکٹر’ کی ایک پوسٹ کے مطابق، ڈی جی پی (زون) جینت باجبل نے اس زبانی بحث کو ‘معمولی مسئلے پر معمولی جھگڑا’ قرار دیا۔ علاقے میں موجودہ کشیدگی کے پیش نظر ڈی سی پی باجبل نے بھی شہریوں سے افواہوں پر کان نہ دھرنے کی اپیل کی اور عوام کو یقین دلایا کہ اس واقعہ کے سلسلے میں کسی فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ علاقے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی ہے، خاص طور پر علاقے میں افواہ پھیلانے والوں کی موجودگی کی وجہ سے۔

علاقے میں فلیگ مارچ بھی کیا گیا اور 22 جنوری کی صبح تک حالات پرامن رہے۔

رپورٹس کے مطابق مذکورہ واقعہ کے سلسلے میں علاقے سے پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف دفعہ 307 (قتل کی کوشش) بھی لگائی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا جس نعرے سےبحث ہوئی اور افراتفری پھیل گئی ،وہ تین سے چار گاڑیوں میں موجود ہندو برادری کے لوگوں کی طرف سےکی گئی تھی۔

اگرچہ پولیس نے لوگوں کو افواہیں پھیلانے سے خبردار کیا تھا جو پہلے سے ہی حساس صورتحال کو مزید خراب کر سکتی تھیں ، لیکن میرا بھایندر واقعہ سے متعلق یکطرفہ بیانات اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے ، جن میں بھگوا جھنڈے لگی کاروں پر حملہ ہوتے  ہوئے دکھایا گیا تھا۔

گجرات

گجرات کے مہسانہ ضلع سے فرقہ وارانہ تصادم کا ایک اور واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ایودھیا میں پران—پرتشٹھا کی تقریب کے موقع پر ‘شوبھا یاترا’ نامی ایک مذہبی جلوس نکالا جا رہا تھا۔

ایکس پر ہیٹ ڈیٹیکٹر کی سوشل میڈیا پوسٹ کے مطابق، جب مذکورہ جلوس کھیرالو کے بیلم واس میں ہٹادیا علاقے سے گزر رہا تھا تو پتھراؤ کی اطلاع ملی تھی۔

پولیس کے مطابق، جلوس کے ساتھ ڈی جے پر اونچی آواز میں میوزک بجانے اور علاقے میں پٹاخے پھوڑنے کی وجہ سے پتھراؤ ہوا۔ پولیس افسران نے پتھراؤ میں ملوث دونوں برادریوں کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے کم از کم تین راؤنڈ آنسو گیس کے گولے داغے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیو کلپ میں چھتوں سے پتھر پھینکے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے گاندھی نگر رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس وریندر یادو نے کہا تھا کہ ‘صورتحال قابو میں ہے، کیونکہ پولیس کی ایک ٹیم جلوس کی نگرانی کر رہی تھی۔ ہم معاملہ درج کرنے کی کارروائی کر رہے ہیں۔