ایودھیا میں 22 جنوری کو رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) جے ایس کھیہر، سابق سی جے آئی جسٹس وی این کھرے، سابق سی جے آئی این وی رمنا اور سابق سی جے آئی یو یو للت نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ جسٹس (ریٹائرڈ) ارون مشرا سمیت ایک درجن سے زیادہ سابق جج بھی موجود تھے۔
22 جنوری 2024 کو رام مندر کی تقریب میں موجود سابق چیف جسٹس جسٹس یو یو للت (درمیان میں)۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)
نئی دہلی: ہندوستان کے سابق چیف جسٹس (سی جے آئی) سمیت
سپریم کورٹ کے 13 سابق ججوں نے سوموار (22 جنوری) کو ایودھیا میں رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب میں شرکت کی۔ تاہم چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے فرائض منصبی کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، انڈیا کے سابق چیف جسٹس جے ایس کھیہر، جنہوں نے 2017 میں ایودھیا تنازعہ میں شخصی طور پر ‘ثالثی’ کی پیشکش کی تھی، ان کئی سابق ججوں میں شامل ہیں جو سوموار کو پران—پرتشٹھا کی تقریب کے لیے ایودھیا میں میں موجود تھے۔
جسٹس کھیہر نے اس معاملے میں ‘دوستانہ حل’ کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا، ‘اگر آپ مجھے دونوں فریقوں کے ثالثوں کے درمیان چاہتے ہیں، تو میں تیار ہوں۔’
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، سابق سی جے آئی جسٹس کھیہر کے علاوہ سابق سی جے آئی جسٹس این وی رمنا، سابق سی جے آئی جسٹس یو یو للت، سابق سی جے آئی جسٹس وی این کھرے، جسٹس (ریٹائرڈ) اشوک بھوشن (اس وقت نیشنل کمپنی لاء اپیل ٹریبونل کے چیئرمین)، جسٹس (ریٹائرڈ) ارون مشرا (اس وقت قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین)، جسٹس (ریٹائرڈ) آدرش گوئل، جسٹس (ریٹائرڈ) وی راما سبرامنیم، جسٹس (ریٹائرڈ) انل دوے، جسٹس (ریٹائرڈ) ونیت سرن، جسٹس (ریٹائرڈ) کرشن مراری، جسٹس (ریٹائرڈ) گیان سدھا مشرا اور جسٹس (ریٹائرڈ) مکندکم شرما ایودھیا میں منعقدہ تقریب میں موجود تھے۔
جسٹس اشوک بھوشن پانچ ججوں کی اس آئینی بنچ کا حصہ تھے جس نے 2019 میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کیا تھا۔
اس بنچ میں شامل سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس عبدالنذیر (اب آندھرا پردیش کے گورنر) فرائض منصبی کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کر سکے۔
سالیسٹر جنرل (ایس جی) تشار مہت اور اٹارنی جنرل آف انڈیا آر وینکٹ رمنی بھی عدالتی ذمہ داریوں کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آدرش گوئل جو اتفاق سے 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے وقت اتر پردیش حکومت کے وکیل تھے۔
اور الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس سدھیر اگروال، جو ایودھیا تنازعہ میں 2010 کے ہائی کورٹ کے فیصلے کا حصہ تھے، نے بھی مندر کے افتتاح میں شرکت کی۔
قابل ذکر ہے کہ 2:1 کے فیصلے میں ہائی کورٹ نے ایودھیا میں متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام مندر کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے میں جسٹس ایس یو خان اور جسٹس ڈی وی شرما نے اکثریتی فیصلہ دیا تھا، جبکہ جسٹس سدھیر اگروال نے ہندو فریق کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
ہندوستان کے سابق اٹارنی جنرل، رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے ٹرسٹی اور سینئر وکیل سی ایس ویدھ ناتھن بھی رام مندر کی تقریب میں شامل ہونے والوں میں سے ایک تھے۔ وہ اس ٹیم کا بھی حصہ رہے ہیں جس نے رام مندر کے بارے میں ہندو فریق کے لیے سپریم کورٹ میں دلائل کی قیادت کی تھی۔